نیتن یاہو نے برطانیہ کی جانب سے کچھ ہتھیاروں کو فراہم نہ کرنے کو شرمناک قرار دے دیا۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے کچھ لائسنس معطل کرکے ایک ’’شرمناک فیصلہ‘‘ کیا ہے۔
برطانوی برآمدات اسرائیل کو حاصل ہونے والے کل ہتھیاروں کے 1 فیصد سے بھی کم ہیں۔ وزیر نے کہا کہ معطلی سے اسرائیل کی سلامتی پر کوئی مادی اثر نہیں پڑے گا اور برطانیہ اپنے دفاع کے حق کی حمایت جاری رکھے گا۔
نیتن یاہو نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ شرمناک فیصلہ نسل کشی کی دہشت گرد تنظیم حماس کو شکست دینے کے لیے اسرائیل کے عزم کو تبدیل نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی ہتھیاروں کے ساتھ یا اس کے بغیر، اسرائیل یہ جنگ جیت کر ہمارا مشترکہ مستقبل محفوظ کر لے گا۔
ایک اسرائیلی وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہتھیاروں کی فروخت روکے جانے کے فیصلے سے ’’غلط پیغام‘‘ گیا اور یہ ’’مایوس کن‘‘ ہے۔ اسرائیل کے وزیر برائے تارکین وطن امور امیچائی چکلی نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک ایسے انتہائی حساس لمحے پر آیا ہے، جب اسرائیلی ’’حماس کی سرنگوں میں مارے گئے 6 افراد‘‘ کی تدفین کر رہے تھے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہمیں مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، وزیر برائے تارکین وطن نے مایوسی کے عالم میں غزہ میں صہیونی بربریت کو ’’مغربی تہذیب اور بنیاد پرست اسلام کے درمیان جنگ‘‘ قرار دیا اور حماس کو داعش اور القاعدہ کی صف میں شمار کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ہتھیاروں کی فروخت روکے جانے کے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ ’’اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے مطابق چل رہا ہے۔‘‘ چیف ربی سر ایفرائیم میرویس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ یہ اقدام ’’ناقابل یقین‘‘ ہے اور اس ’’جھوٹ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘‘
انھوں نے لکھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اعلان ہمارے مشترکہ دشمنوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔