Blog

  • تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم

    تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم

    لاہور: فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے بتایا ہے کہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم پانی سے بھرگیا، تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔

    فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن نے بتایا کہ سیلابی صورتحال کے بعد دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم پانی سے مکمل طور پر بھرگیا ہے اور مزید پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1550 فٹ ہے۔

    ڈیم میں پانی کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن نے مزید بتایا کہ تربیلاڈیم میں اب جتنا پانی آئےگا اتنا ہی خارج کردیا جائےگا۔

    یہ بھی پڑھیں: دریائے سندھ کے بہاؤ میں اضافے کا خدشہ تربیلا ڈیم کے اسپل ویز کھولنے کا فیصلہ

    فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کا کہنا ہے کہ دریائے چناب میں چنیوٹ کے مقام پر بہاؤ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے جبکہ نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

    دریائے چناب میں ہیڈ تریموں جھنگ کے مقام پر بہاؤ 5 لاکھ 50 ہزار کیوسک ہے، دریائے چناب میں ہیڈ تریموں کے مقام پر انتہائی خطرناک حد تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔

    فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے بتایا کہ دریائے چناب میں ہیڈ بنالہ کے مقام پر بہاؤ 94 ہزار کیوسک ہے، دریائے چناب میں خانکی بیراج پر بہاؤ ایک لاکھ 36ہزار کیوسک ہے، قادرآباد بیراج پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 54 ہزار کیوسک ہے۔

    ادارے نے بتایا کہ قادرآباد بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، دریائے چناب میں خانکی بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/pdma-issue-alert-extremely-high-flood-risk-in-three-rivers/

  • حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں

    حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حنا چوہدری نے بیٹی کے اسکول جانے کی تصاویر شیئر کردیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’رسم وفا‘ میں اداکارہ حنا چوہدری ’نور‘ کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں جس میں ان کے ساتھ ارسلان خان ’اسامہ‘ کے کردار میں موجود ہیں۔

    اداکارہ نے ننھی بیٹی اوجا کے پہلے دن اسکول جانے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے طویل پیغام بھی شیئر کیا ہے۔

    حنا نے لکھا کہ میری بیٹی نے آج اسکول جانا شروع کیا یقین نہیں آتا کہ وہ کتنی تیزی سے بڑی ہورہی ہے، ایک ماں کے طور پر یہ خوشی، فخر کی بات ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ والد اور والدہ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔

    حنا چوہدری نے لکھا کہ جب آپ بڑی ہوں گی اور ان تصویروں کو واپس دیکھیں گی، مجھے امید ہے کہ آپ یہ جان کر فخر محسوس کریں گی کہ آپ کے والدین نے آپ کے ہر سنگ میل کو پیار سے منایا۔

    اس سے قبل انٹرویو میں اداکارہ نے بتایا تھا کہ شوہر علی فاروق سے پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں بھی ون آن ون کبھی بات نہیں ہوئی کیونکہ یہ فیکلٹی میں تھے زیادہ کام کے حوالے سے بات ہوتی تھی، اس کے بعد علی یونیورسٹی چھوڑ گئے اور کوئی کمپنی جوائن کرلی تھی، میرا یونیورسٹی میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا تو میں اپنے مسائل ان سے شیئر کرتی تھی۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ مجھے اکنامکس شروع سے برا سبجیکٹ لگتا تھا اور علی اس میں گولڈ میڈلسٹ تھے تو مجھے یہ تھا کہ کوئی بندہ مجھے پڑھا دے تو پاس ہوجاؤں، امی نے مشورہ دیا تھا کہ علی سے کہو کہ وہ تمہیں پڑھا دے پھر انہوں نے مجھے پڑھایا تھا۔

    حنا چوہدری کا کہنا تھا کہ میری امی اور بہن کو علی بہت اچھے لگتے ہیں، یہ بہت ذمہ دار ہیں ابو لاہور میں نہیں تھے اور بھائی بھی نہیں تھا تو ہمیں جس بھی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو یہ کام آتے تھے۔

  • ہزاروں آسٹریلوی شہری بھارتی تارکین وطن کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے

    ہزاروں آسٹریلوی شہری بھارتی تارکین وطن کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے

    آسٹریلیا کے ہزاروں شہری اپنے ملک میں موجود بھارتی تارکین وطن کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے، "مارچ فار آسٹریلیا” ریلیوں نے بھارتی نژاد باشندوں کو نشانہ بنایا۔

    اتوار کو آسٹریلیا میں امیگریشن مخالف ریلیاں نکالی گئیں، مظاہروں کے لیے پروموشنل مواد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا، تاہم آسٹریلوی حکومت نے ان واقعات کو نفرت پھیلانے اور نئے نازی یعنی نو نازیوں سے منسلک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق "مارچ فار آسٹریلیا” سے منسوب ریلیوں میں خاص طور پر بھارتی نژاد باشندوں کو نشانہ بنایا گیا، جو اب آبادی کا تین فیصد سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

    ریلی میں بتایا گیا کہ "پانچ سالوں میں ہندوستانی تارکین وطن گزشتہ سو سالوں میں یونانیوں اور اطالوی تارکین وطن سے کہیں زیادہ آئے ہیں۔

    یہ کوئی معمولی ثقافتی تبدیلی نہیں ہے، یہ صرف ایک ملک سے ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں جبکہ ہجرت کا ثقافتی اثر ہوتا ہے، آسٹریلیا کوئی اقتصادی زون نہیں ہے جس کی بین الاقوامی مالیات سے فائدہ اٹھایا جائے”۔

    پروموشنل مواد پر مشتمل ایک پری ایونٹ فیس بک پوسٹ نے بتایا کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتیوں کی تعداد 2013 سے 2023 تک دگنی ہو کر تقریباً 845,800 تک پہنچ گئی ہے۔

    مارچ فار آسٹریلیا کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہجرت نے "ان بانڈز کو پھاڑ دیا ہے جس نے ہماری کمیونٹیز کو اکٹھا کیا تھا۔‘‘

    اس دوران پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، پولیس کو لاٹھی اورآنسو گیس وغیرہ کا استعمال کرنا پڑا، جبکہ پولیس نے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور دو اہلکار زخمی ہوئےہیں۔

    آسٹریلیا کے شہروں سڈنی، میلبرن، کینبرا اور دیگر میں بڑی ریلیاں نکالی گئیں، سڈنی میں، 5,000 سے 8,000 کے قریب لوگ قومی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے،

  • آج ملک بھر میں چاندی کی فی تولہ قیمت کتنی ہوگئی؟

    آج ملک بھر میں چاندی کی فی تولہ قیمت کتنی ہوگئی؟

    پاکستان میں چاندی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں چاندی کی مانگ و رسد، ڈالر کی قیمت، مہنگائی، عوامی مانگ اور سرکاری پالیسیوں جیسے مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔

    ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا تعین اس لیے اہم ہے کہ تاریخی طور پر یہ ایک معیاری وزن سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر چاندی کے زیورات اسی وزن اور مخصوص معیار کے تحت تیار کیے جاتے ہیں، پاکستان کے مختلف شہروں میں چاندی کی قیمت میں تھوڑا سا اتار چڑھاؤ پایا جاسکتا ہے۔

    ملک میں مقامی کرنسی کے حساب سے روزانہ چاندی کی قیمت اپ ڈیٹ ہوتی ہے، فی گرام چاندی، دس گرام چاندی اور فی تولہ چاندی کی قیمت آج ملک میں کیا رہی اس حوالے سے ذیل میں قیمتوں کی تفصیلات بتائی گئی ہی۔

    کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں 10 گرامی چاندی کی قیمت تقریباً 3552 روپے رہی جبکہ ان شہروں میں ایک تولہ چاندی کی قیمت تقریباً 4144 روپے ریکارڈ کی گئی۔

    اسی طرح راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی چاندی کے نرخ یکساں رہے، ان شہروں میں 10 گرامی چاندی کی قیمت 3552 روپے رہی جبکہ ایک تولہ چاندی کی قیمت 4144 روپے رہی۔

    پاکستان میں چاندی کو صرف زیورات کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہاں چاندی کی سرمایہ کاری کے بارے میں کچھ اہم باتیں جاننا ضروری ہے:

    مہنگائی کے خلاف ایک ہیج: چاندی کو اکثر مہنگائی کے خلاف ایک ہیج سمجھا جاتا ہے۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو چاندی کی قیمت میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

    طویل مدتی سرمایہ کاری: چاندی میں سرمایہ کاری کو طویل مدتی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت میں مختصر مدت میں اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے لیکن طویل مدت میں یہ ایک اچھی سرمایہ کاری ثابت ہو سکتی ہے۔

    سونا کے مقابلے میں کم خطرناک: سونا کے مقابلے میں چاندی کو کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ سونا بھی ایک محفوظ سرمایہ کاری ہے لیکن چاندی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کم ہوتا ہے۔

  • مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ فائن آرٹ کے شعبہ کے چند نام ور فن کاروں میں احمد سعید ناگی کا نام بھی شامل ہے۔ احمد ناگی کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ انھوں نے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ بنایا جب کہ اس آرٹسٹ کے میورلز بھی ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    احمد سعید ناگی یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عام طور پر احمد سعید ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرت سر میں احمد سعید نے آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مُوقلم سے اپنا تعلق جوڑا اور عملی میدان میں اترے۔ وہ شروع ہی سے فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ یہاں انھوں نے مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کیا۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    معروف صحافی، آرٹ نقاد اور مصنّف شفیع عقیل ان سے اپنی ملاقات کا احوال اپنی ایک کتاب میں یوں لکھتے ہیں:

    ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی کا ہنر شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ مصوری بالخصوص پورٹریٹ بنانے پر توجہ دی۔ ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ پیرس سے کراچی لوٹنے کے بعد احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔ احمد سعید ناگی نے خاص طور پر ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو اپنے فن کی زینت بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت میں ان کی گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر انھیں ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام سونپا گیا اور انھوں نے بخوبی اپنا کام انجام دیا۔ سعید ناگی نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے بھی مجسمہ سازی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    مصور و مجسمہ ساز احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ ان کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں۔ شائقین کی ستائش کے ساتھ ناگی صاحب نے ناقدینِ فن سے بھی اپنے کام پر داد پائی۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے ہیں۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی پنجاب ٹیم نے 200 بھینسوں کو ریسکیو کرلیا

    وزیراعلیٰ مریم نواز کی پنجاب ٹیم نے 200 بھینسوں کو ریسکیو کرلیا

    لاہور: وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی پنجاب ٹیم نے انسانیت کی روشن مثال قائم کردی، سیلابی ریلے میں پھنسی 200 بھینسوں کو بچالیا گیا۔

    مظفرگڑھ کے قریب دریائے چناب کے سیلابی ریلے میں پھنسی 200بھینسوں کو وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی پنجاب ٹیم نے ریسکیو کرلیا، مظفر گڑھ کے جونا بنگلہ فلڈ ریلیف کیمپ میں وزٹ کے دوران ڈی پی او مظفر گڑھ کو سیلاب میں گرے مویشیوں کے بارے میں بتایا گیا۔

    ڈی پی او مظفر گڑھ نے ڈرون کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے مویشیوں کو ٹریس کیا۔

    بھینسیں اور دیگر مویشی کنارے سے ایک کلومیٹر دور سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے تھے، پولیس اور ریسکیو ٹیم بوٹس لیکر دریا کے اندر پہنچ گئے اور ریسکیو آپریشن شروع کیا۔

    پنجاب کی ریسکیو ٹیم کی بروقت کاوشوں کے باعث 200 بھینسوں کو باحفاظت محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا۔

    مویشی مالکان کی جانب سے بھینسوں کو بچانے پر ریسکیو ٹیم سے اظہار تشکر کیا گیا، انھوں نے اسےٍ انسان دوستی کی بہترین مثال قرار دیا۔

  • پی ٹی آئی کا کل سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اسمبلی لگانے کا اعلان

    پی ٹی آئی کا کل سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اسمبلی لگانے کا اعلان

    پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کل سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اسمبلی لگانے کا اعلان کردیا۔

    پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ میاں اظہر کی خالی سیٹ پر ہم نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے پوسٹر پھاڑ دیے گئے، ہم نے تمام کمیٹیوں سے استعفیٰ دیا، ہم نے مینڈیٹ چوری ہونے کے باوجود ڈائیلاگ کی بات کی۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا کہ طوفان آیا تو ہم نے ہر چیز سے بولاتر ہوکر کہا تنقید نہیں ہونی چاہیے۔

    یہ پڑھیں: پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان

    چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہماری اسپیس ایوان میں بھی ختم ہورہی ہے، عوامی مینڈیٹ والوں کو بولنے نہیں دیں گے تو بناوٹی جمہوریت کا کیا کرنا ہے۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم پارٹی میں سب کی رائے سنتے ہیں، ہمیں اپنے ووٹر کا خیال ہے، نمائندوں کو ڈس کوالیفائی کیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی کا اسمبلی چھوڑنے کا حکم آیا تو ایک منٹ نہیں لگائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ عمران خان نہ ہوتے تو مجھے گھر کے ووٹ نہ پڑتے۔

  • بھارت نے ٹیرف صفر کرنے کی پیشکش کی لیکن اب بہت دیر ہو چکی، ٹرمپ

    بھارت نے ٹیرف صفر کرنے کی پیشکش کی لیکن اب بہت دیر ہو چکی، ٹرمپ

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر بھارت کی جانب سے ٹیرف پر نظرثانی کی پیشکش مسترد کر دی۔

    سوشل میڈیا پر جاری بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ بھارت نے ٹیرف صفر کرنے کی پیشکش کی لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

    ٹرمپ نے یاد دلایا کہ امریکا بھارت سے کم لیکن بھارت امریکا سے بہت زیادہ بزنس کرتا ہے، بھارت نے امریکا پر سب سےزیادہ ٹیرف عائد کر رکھا تھا جس سےنقصان ہوا، کئی دہائیوں سے یکطرفہ تعلق امریکا کےلیے نقصان دہ رہا ہے۔

    امریکی صدر نے ایک بار پھر کہا کہ بھارت تیل اور دفاعی مصنوعات زیادہ تر روس سے خریدتا ہے امریکا سے نہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس سے تیل کی خریداری کے حوالے سے بھارتی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے بعد تجارتی مذاکرات کو مسترد کر دیا تھا۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کو بھارت میں ہونے والی کواڈ سمٹ میں شرکت کرنا تھی لیکن اب انہوں نے دورہ منسوخ کردیا ہے۔بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی روابط اور ٹیرفس کے حوالے سے کافی دنوں سے مذاکرات جاری تھے اور نئی دہلی کا کہنا تھا کہ وہ بات چیت کے ذریعے ان تمام مسائل پر قابو پا لے گا۔

    امریکی صدر نے بھارت کے خلاف پچیس فیصد اضافی ٹیرفس کا اعلان کیا تھا اور اس طرح اب بھارتی اشیا پر مجموعی طور پر پچاس فیصد محصولات عائد ہیں۔

  • کراچی کے مختلف علاقوں میں ہیروئن سپلائی کرنے والا شخص گرفتار، 10کلو سفوف برآمد

    کراچی کے مختلف علاقوں میں ہیروئن سپلائی کرنے والا شخص گرفتار، 10کلو سفوف برآمد

    کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں ہیروئن سپلائی کرنے والے ملزم کو نارکوٹکس فورس نے گرفتار کرلیا، ملزم سے 10کلو گرام سے زائد ہیروئن برآمد کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نارکوٹکس کنٹرول ونگ کورنگی نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو لانڈھی سے حراست میں لیا، ترجمان نارکوٹکس کنٹرول نے بتایا کہ ملزم نے شہر کے مختلف علاقوں میں ہیروئن سپلائی کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

    نارکوٹکس کنٹرول کے ترجمان نے بتایا کہ ملزم کو مین لانڈھی سیکٹر 36 سے گرفتار کیا گیا، گرفتار ملزم سے 10 کلو 400 گرام ہیروئن برآمد کی گئی۔

    ملزم کی شناخت مرزاعلی ولد عبدالرحمان کے نام سے ہوئی ہے، ملزم بین الصوبائی منشیات گروہ کا رکن ہے، وہ پشاور سے کراچی تک منشیات سپلائی کرتا تھا۔

    ترجمان نارکوٹکس کنٹرول نے مزید بتایا کہ مرزا علی سے برآمد ہونے والی ہیروئن کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت 20 کروڑ روپے ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/sho-korangi-khalid-memon-suspended-bribery/

  • ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے خواہشمند افراد کے لیے خوشخبری

    ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے خواہشمند افراد کے لیے خوشخبری

    راولپنڈی میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے خواہشمند افراد کے لیے خوشخبری آگئی۔

    راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں موبائل لائسنس وین کا شیڈول جاری کیا گیا جہاں شہری اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانا سکتے ہیں۔

    یکم ستمبر بروز پیر موبائل لائسنس وین راجہ بازار نزد فورا چوک پہنچی ہے۔

    2 ستمبر بروز منگل کو موبائل لائسنس وین سکوٹ گاؤں تحصیل کلرسیداں میں ہوگی، 3 ستمبر کو کوری دولال گاؤں تحصیل گوجر خان میں ہوگی۔

    4 ستمبر کو موبائل لائسنس وین دوبارہ راجہ بازار نزد فوراک چوک پر ہوگی، 5 ستمبر جمعے کے دن جھاور اپکٹ دھممیال کیمپ میں جبکہ 9 ستمبر بروز ہفتے کو شہری گلزار قائد اولڈ ایئرپورٹ روڈ پر جاکر لائسنس بنواسکتے ہیں۔

    اسی طرح 7 ستمبر بروز اتوار برائے رکشہ ٹیسٹ، اولڈ واران ڈپو، صدر میں وین موجود ہوگی۔