Blog

  • ’سیلاب کو قدرتی آفت کہنا غلط ہے یہ سب ہماری کوتاہیاں ہیں‘

    ’سیلاب کو قدرتی آفت کہنا غلط ہے یہ سب ہماری کوتاہیاں ہیں‘

    وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ سیلاب قدرتی آفت ہے غلط ہے یہ سب ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں۔

    قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بلدیاتی نظام میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی میں ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ تو دور قانون کا بھی پتہ نہیں ہوتا، سیاسی مفادات ایک طرف رکھ کرہمیں بلدیاتی اداروں کومضبوط کرنا چاہیے صوبوں میں اختیارات صوبائی دارالحکومتوں تک ہی محدود ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بلدیاتی ادارے تباہ ہیں پنجاب میں تو ہے ہی نہیں، بلدیاتی قانون میں ترمیم کاتوسب کریڈٹ لیتےہیں اچھی بات ہے اختیارات اور طاقت کی تقسیم کریں اس سےگاؤں دیہات میں عوام کو فائدہ ہو گا لیکن بدقسمتی سے ہم بلدیاتی اداروں کو سیاسی ٹول کےطور پر استعمال کرتے ہیں۔

    خواجہ آصف نے چھوٹی ڈیمز کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پہلے چھوٹے ڈیمز پر فوری توجہ دینی چاہیے بڑے ڈیمز بھی بنانا ہوں گے، گاؤں کی سطح پر بھی چھوٹے ڈیمز بن جاتے ہیں تو اچھی بات ہے کیونکہ سیلاب جیسی صورتحال کا اب ہمیں ہر سال سامنا کرنے پڑے گا، پانی کہیں کھڑا نہیں ہوتا وہ فوری اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہے ہم کتنے بند باندھیں گے فوری طور پر ڈیمز بنانے پر توجہ دینا چاہیے۔

  • ماضی کے نامور اداکار انور علی انتقال کرگئے

    ماضی کے نامور اداکار انور علی انتقال کرگئے

    لاہور: ماضی کے نامور اداکار انور علی دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اداکار انور علی گردوں اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے انہیں کل طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ اداکار انور علی کی نماز جنازہ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

    انور علی کو پاکستان کی فلم اور تھیٹر کی تاریخ کے بہترین مزاح نگاروں اور اداکاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے منفرد انداز اور بے مثال طنز و مزاح سے انہوں نے لاکھوں لوگوں کے دل جیتے۔

    مداحوں اور شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی ساتھی شخصیات کی جانب سے انور علی کے انتقال پر دُکھ کا اظہار کیا جارہا ہے۔

  • سپر فلڈ کا خطرہ، سندھ حکومت کتنی تیار؟

    سپر فلڈ کا خطرہ، سندھ حکومت کتنی تیار؟

    وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں بڑے پیمانے پر پانی چھوڑنے کے بعد سندھ میں سپر فلڈ کا خطرہ ہے۔

    کراچی میں سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کہ نو لاکھ کیوسک سے زائد بہاؤ کو سپر فلڈ قرار دیا جاتا ہے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے پیش گوئی کی ہے کہ پانچ ستمبر کے قریب گڈو بیراج پر آٹھ لاکھ سے گیارہ لاکھ کیوسک پانی پہنچ سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے پشتوں کو محفوظ کر لیا ہے، دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد ہم نے انہیں تقریباً چھ فٹ بلند کر دیا تھا، دو ہزار دس کے سپر فلڈ کے دوران گڈو بیراج پر ایک اعشاریہ ایک چار آٹھ ملین کیوسک پانی گزرا تھا جبکہ دو ہزار چودہ میں تریموں بیراج سے پانچ لاکھ نوے ہزار کیوسک بہاؤ محفوظ طریقے سے گزر گیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں چوبیس اگست کو گڈو بیراج سے پانچ لاکھ پچاس ہزار کیوسک پانی بغیر کسی تشویشناک صورتحال کے گزرا۔ آج ہم نو لاکھ دس ہزار کیوسک تک کے بہاؤ کے لیے تیار ہیں۔

    وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو مکمل طور پر تیار رہنے کی ہدایت دی گئی ہے دیہاتیوں اور مویشی مالکان کو آگاہ کیا جا چکا ہے جبکہ محکمہ صحت کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ وہ خود چیف سیکریٹری اور صوبائی وزراء کے ساتھ صورتِ حال کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    مراد علی شاہ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات انتہائی خطرناک ہیں۔ فی الحال میری توجہ اس بات پر ہے کہ سندھ آئندہ 10 سے 15 دن بحفاظت گزار لے لیکن قومی سطح پر ہمیں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی وضع کرنی ہوگی۔

    موجودہ سیلابی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اونچے بہاؤ دریائے چناب، راوی اور ستلج کی وجہ سے آئے ہیں اور یہ پانی کالا باغ کی طرف موڑا نہیں جا سکتا۔

    وزیر اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی کہ سندھ نے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے مکمل تیاری کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری انسانی جانوں، مویشیوں اور بیراجوں کو محفوظ بنانا ہے۔

  • لاہور میں جنرل اسپتال کی نرسری سے نومولود غائب

    لاہور میں جنرل اسپتال کی نرسری سے نومولود غائب

    لاہور میں جنرل اسپتال کی نرسری سے نومولود غائب ہوگیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جنرل اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی، پرنسپل جنرل اسپتال پروفیسر فاروق افضل نے نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    وارڈ کی آیا شکیلہ بی بی اور ملازم محمد عثمان کو معطل کردیا گیا ہے۔وارڈ سسٹر انچارج اور اسٹاف نرس کی جواب طلبی کی گئی ہے اور محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    پرنسپل جنرل اسپتال فاروق افضل کا کہنا ہے کہ بچے کی تلاش کے لیے پولیس کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔

    گزشتہ سال جولائی مین لاہورکے چلڈرن اسپتال میں بچے کی مبینہ تبدیلی کیس کی رپورٹ سامنے آئی تھی۔

    گوجرانوالہ کے شہری عرفان اکرم نے لاہور کے چلڈرن اسپتال پر الزام لگایا تھا کہ اس کے ہاں چار روز قبل بیٹا پیدا ہوا، وہ بچے کو علاج کے لیے چلڈرن اسپتال لاہورلے آیا ، اسپتال کے عملے نے 6 گھنٹے بعد بچے کو مردہ قرار دے کر میر ے حوالے کردیا، گھر پہنچ کر دیکھا تو بچے کے کپڑوں میں مردہ بچی تھی۔

    تاہم اس حوالے سے لاہورکے چلڈرن اسپتال کی رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق نصیر آباد کا رہائشی عرفان یکم جولائی کو بچے کو تشویشناک حالت میں اسپتال لایا، بچے کو وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کی ضرورت تھی، والد سے اجازت مانگی گئی تو اس نے انکار کردیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹرز کے مشورے کے برعکس اس نے بچے کو ڈسچارج کروالیا، 7 گھنٹے بعد والد بچے کو واپس لے گیا۔

  • بجلی کے بلوں میں 70 فیصد تک کی چھوٹ ، بڑی خبر آگئی

    بجلی کے بلوں میں 70 فیصد تک کی چھوٹ ، بڑی خبر آگئی

    لاہور : وفاقی وزیرتوانائی اویس لغاری نے سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کے بجلی بلوں میں توسیع اور ریلیف کا اعلان کردیا، بلوں میں 70 فیصد تک کی چھوٹ ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے لیسکو ہیڈکوارٹر لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہ سیلاب متاثرہ شہریوں کو بجلی بلوں میں بڑی رعایتیں دی جا رہی ہیں تاکہ مشکل حالات میں ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

    اویس لغاری نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے رہائشیوں کو بجلی بل جمع کرانے کیلئے اضافی وقت دیا جا رہا ہے، جبکہ اگر مزید ریلیف کا اعلان ہوا تو ڈسکوز اضافی چارجز بھی معاف کریں گے۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ سیلابی پانی بڑھنے کے باعث بجلی بحالی کے کام میں تاخیر ہورہی ہے تاہم حالات بہتر ہوتے ہی مکمل سروس بحال کر دی جائے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے 3 کروڑ 30 لاکھ صارفین میں سے 1 کروڑ 80 لاکھ صارفین پہلے ہی 70 فیصد رعایت حاصل کر رہے ہیں۔

    وزیر توانائی نے مزید بتایا کہ لیسکو ملازمین نے وزیراعظم فلڈ ریلیف فنڈ میں اپنی ایک دن کی تنخواہ عطیہ کی ہے، جبکہ گھروں میں سولر سسٹم استعمال کرنے والے صارفین کے بجلی بل بھی کم ہو رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باعث بجلی ٹیرف میں واضح کمی آئی ہے، تاہم نئے آئی پی پیز کی نیٹ میٹرنگ سے عوام پر فی یونٹ 4 روپے اضافی بوجھ پڑا ہے، جسے حکومت قابو کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں : ملک بھر کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان

    اس سے قبل نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کے تحت فی یونٹ بجلی 1.89 روپے کمی کی منظوری دی تھی ، جس سے گھریلو صارفین کو 3 ماہ تک ریلیف ملے گا۔

    دوسری جانب، محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے کی رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں سیلابی صورتحال سنگین شکل اختیار کر گئی ہے، ملتان میں دریائے چناب کے قریب ہیڈ محمد والا پر حفاظتی شگاف ڈال کر 3 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جبکہ جلالپور پیروالا اور دریائے ستلج کے کنارے واقع 140 سے زائد دیہات متاثر ہوئے ہیں۔

    راجن پور، بہاولپور، فیصل آباد اور چشتیاں سمیت کئی اضلاع میں درجنوں دیہات زیر آب آچکے ہیں۔ ہیڈ بلوکی پر دریائے راوی کا بہاؤ 1 لاکھ 99 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا ہے جبکہ دیگر دریاؤں میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے۔ حکام کے مطابق صورتحال نازک ہے اور مزید ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

    Pakistan Floods 2025: LIVE Updates

  • پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیاحت کے فروغ کیلیے اہم فیصلہ

    پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیاحت کے فروغ کیلیے اہم فیصلہ

    اسلام آباد: پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیاحت انڈسٹری کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    اس ضمن میں وزارت بین الصوبائی رابطہ کے تحت ٹورازم اسکل اینڈ انویسٹمنٹ ایکسپو 2025 کا اعلان کیا گیا ہے جو 10 سے 12 اکتوبر تک اسلام آباد میں ہو گی۔

    حکام وزارت بین الصوبائی رابطہ کا کہنا ہے کہ ایکسپو جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقد کیا جائے گا جس کا افتتاح وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے متوقع ہے۔

    حکام کے مطابق ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں، اسٹیک ہولڈرز کی بڑی تعداد ایکسپومیں شریک ہو گی، ایکسپو میں سیاحت، سرمایہ کاری اور نوجوانوں کی اسکلز پر فوکس کیا جائے گا۔

    ایکسپو کا مقصد پاکستان کوعالمی سطح پرسیاحتی مرکزکے طور پر متعارف کرانا ہے جب کہ ایکسپو میں سیاحت کےفروغ ،سرمایہ کاری کے مواقع پر خصوصی سیشنز ہوں گے۔

    کانفرنس میں سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر توجہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ٹریول، ٹور آپریٹرز اور مہمان نوازی سے متعلق اسٹالز لگائے جائیں گے۔

    ایڈونچر ٹورازم اور ثقافتی ورثے سے متعلق خصوصی ایونٹس کا اہتمام کیا جائے گا۔

  • فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    بہ ظاہر فخر (Pride) ایک سیدھا سادہ لفظ دکھائی دیتا ہے، عام طور سے اس کا استعمال بھی معصومانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے پہلو (جن کی نظر میں پہلا پہلو منفی ہے) پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی محنت، مشترکہ انسانی اقدار اور ثقافتی حسن پر فخر جائز ہے۔ وہ دراصل فخر کو بغیر سمجھے اپنانے میں مسئلے کو دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہ انسان کو قبائلی تعصب، قوم پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ناسمجھی کے مقابل وہ فخر کو مثبت شعور کے ساتھ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنتی۔

    خواہ ذاتی محنت ہو یا مشترکہ انسانی اقدار، فخر کا احساس آدمی یا نسل یا قوم یا ثقافت کو بہ ہر صورت مرکز میں لے کر آتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کو کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ لوگ اپنی بقا اور ترقی کے لیے محنت کرتے ہیں، کسی کو کم کسی کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنی محنت پر فخر کرتا ہے، لیکن ناکام آدمی کیوں اپنی محنت پر فخر نہیں کرتا؟ کیا فخر کا یہ احساس محنت سے جڑا ہے یا کامیابی سے؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ کامیاب آدمی کا فخر محنت کو استحقاق (خود کو Privileged سمجھنا) کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ مشترکہ انسانی اقدار کا ہے۔ بہ ظاہر یہ تو بہت زیادہ مثبت لگتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، یقیناً یہ جائز ہے۔ ضرور جائز ہے لیکن ’انسانی‘ اقدار سے محبت جائز ہے کیوں کہ اس محبت کے تقاضے پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم ان ’انسانی‘ اقدار پر فخر کرنے لگتے ہیں، زمین کی دیگر حیات خود بہ خود دیوار سے لگ جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ انسانی اقدار پر دیگر حیات کے تناظر میں سوال اٹھانا ہماری غیر شدت پسند سوچ کے لیے بھی سخت مشکل امر ہے، اور تقریباً ناقابل قبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن استحقاق پر مبنی ہمارے پہلے سے فِکسڈ تصورات خواہ کتنے ہی قابل قبول اور ناگزیر کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں، زمین کی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انسان کو زمین پر جتنا بھی ’استحقاق‘ حاصل ہے وہ اس کی اپنی تشکیل کردہ ہے۔ انسانی اقدار پر فخر نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ غیر انسانی مخلوق کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔

    فخر کو محسوس کرنے کے نازک لمحے میں اگر آپ اپنے سامنے شعوری طور پر یہ سوال بھی رکھتے ہیں کہ کیا یہ فخر تنوع اور دوسروں کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے؟ تب بھی یہ مقابلے کے رجحان کو کم نہیں کرتا۔ جیسے ہی آپ ’دوسرے/غیر‘ کو سوچتے ہیں فخر کا لمحہ غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی ’دی آدر‘ ہیں۔ فخر کا لمحہ سیلف/ذات کو ’غیر‘ سے کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے اور غیر کو اپنے آپ کے برابر تسلیم کرنے سے اپنی ذات (قومی/ثقافتی) کی استحقاق پر مبنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ فخر کا احساس Privileged احساس ہے۔ اگر یہ احساس خاص نہیں ہے اور ہر ایک کے لیے عام ہے، تو پھر یہ بے معنی ہے۔

    فخر کے اظہار کو معصومانہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اکثر ’’فخر‘‘ کا اظہار دراصل برتری کے ایک غیر اعلانیہ دعوے میں بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’ہم غیرت مند ہیں‘‘ ، ’’ہم بڑے دل والے ہیں‘‘ ، ’’ہم مہمان نواز ہیں‘‘ ! ان جملوں میں اکثر ’ہم‘ کی جگہ اپنی قوم کا نام داخل کیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر ان جملوں میں بھی ’اپنی خصوصیت‘ کا سادہ اظہار ہے، لیکن یہ زبان مکمل طور پر بائنری اپوزیشن پر تعمیر شدہ ہے۔ اس لیے جب انھیں دہرایا جاتا ہے تو دوسروں کو کم تر سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں فخر محبت کا اظہار نہیں بلکہ ’’ہم اور تم‘‘ کے مقابلے کا بیان بنا ہوا ہے۔

    کبھی کبھی یہ احساس محرومی کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی گروہ، انسانی طبقات اور حتیٰ کہ انسان صنفی طور پر بھی ہمیشہ ایک دوسرے کو زیرِ دست لانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ جسے دبایا جاتا ہے، جس کا استحصال کیا جاتا ہے اس کے اندر فخر کا احساس ایک مزاحمتی عمل کے طور پر ابھرتا ہے۔ وہ خود کو جوڑنے اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی شناخت پر فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ قابض اور غاصب جس شناخت کو اس کے لیے قابل نفرین بناتا ہے، وہ اسی شناخت کو فخر کے لمحے میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ کم تری کے احساس سے مکمل مغلوب ہو کر ختم نہ ہو جائیں اور غلام نہ بن جائیں۔

    محبت اور فخر میں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فخر تکبر کے بغیر نہیں ہے۔ کسی خوش نما اور پُر فضا علاقے میں پیدائش اور پرورش ایک خوش نصیبی ہے۔ لیکن جو لوگ سخت اور سنگلاخ زمینوں پر پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے علاقے کی آب و ہوا اور سخت زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دل جتنا پُر فضا علاقے کے لوگوں کا خوشی اور محبت سے دھڑکتا ہے، اتنا ہی سخت علاقے کے لوگوں کا بھی۔ یہ حیاتیاتی تنوع ہے۔ خوش رنگ رسمیں ہر علاقے کے لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ یہ انسانی ثقافت کی خوبی ہے اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کیوں کہ اسے زیادہ جینے کے لیے خوش ہونے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تو پُر فضا علاقے کی عادت اور محبت کے اظہار کے لیے ’فخر‘ کا پیمانہ ایسا ہے جیسے مستطیل کو دائرے سے ماپنا۔ اس لیے جب مخصوص علاقے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ احساس اپنے اندر غیریت کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر سنگلاخ علاقے کے آدمی کے چہرے کے سخت نقوش دیکھ کر نرم اور پُر فضا علاقے کے آدمی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک جو کہانی سنایا کرتی ہے اس کا عنوان تکبر کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ہے، جسے عام طور پر ’’شکر‘‘ کے عنوان سے چھپا دیا جاتا ہے۔

    یہ بات ہزاروں بار دہرائی جا چکی ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ لیکن شاید بالکل اسی وجہ سے اتنے سارے انسانوں اور قبیلوں اور گروہوں کے درمیان اس کے اندر الگ سے پہچانے جانے کا جذبہ (ذاتی بھی قومی بھی) شدید تر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے کہ یا تو وہ خود کو بڑی کہانی بنا دے یا کسی بڑی کہانی کا حصہ بن جائے تاکہ خود کو اپنے آپ کے سامنے اہم محسوس کرا سکے۔ فخر کے احساس کے پیچھے ایسی ہی ایک بڑی کہانی، ایک بڑا بیانیہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس ’’بڑی کہانی‘‘ کو ہم اس کے ثقافتی سرمائے میں بیان ہونے کے عمل سے گزرتے دیکھ سکتے ہیں جو زبان، موسیقی، شاعری، شادی بیاہ کی رسوم اور مجموعی روایات پر مبنی ہے۔ فخر کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ثقافتی معاملے کو اس کی بالکل ضد یعنی فطرت سے جوڑ کر پیش کرے، تاکہ ایک ’سچ مچ کی‘ بڑی کہانی بنانے میں آسانی ہو۔ فطرت اور ثقافت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن فخر کا احساس ان دونوں کو بغل گیر کرا دیتا ہے اور ثقافتی مظاہر فطری مظاہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ثقافتی مظاہر (جیسے کہ زبان، لباس، رسوم، رویے) محض اختیاری چیز نہیں بلکہ ’وجودی حقیقت‘ بنا دیتا ہے۔ جب فطرت اور ثقافت کا امتیاز مٹتا ہے تو دوسروں کے بیانیوں کے مقابلے میں اپنا بیانیہ زیادہ جاذب اور مؤثر بن جاتا ہے، یعنی زیادہ پائیدار، زیادہ قدیم، زیادہ خوب صورت۔ مختصر یہ کہ جب محبت اور فخر میں فرق مٹتا ہے تو ثقافت اور فطرت میں بھی فرق دھندلا جاتا ہے۔

    فخر کے بیانیے کو اگر میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو فرد کی شناخت کے ساختیاتی (structural) نظام میں جذب ہو چکا ہے۔ یعنی وہ جس بات پر فخر کر رہا ہے وہ اس کے نزدیک ایک گہری سماجی تشکیل نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت (objective truth) ہے۔ یہ رویہ متبادل امکانات سے محرومی پر منتج ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فخر ایک دھندلا عدسہ ہے، لیکن جب وہ اس سے خود کو اور دنیا کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ عدسہ شفاف ہے۔ فخر کا احساس شعور کی گہرائی میں اترتا ہے اور مزید طاقت ور ہو کر وہیں سے سطح پر نمودار ہوتا ہے، اس لیے شعور میں رچ بس جانے والا بیانیہ آئیڈیالوجی بن جاتا ہے، جس کی خاصیت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ ہمیشہ خود کو برتر بنا کر پیش کرتی ہے اور دوسرے کو اپنا غیر بنا دیتی ہے۔

  • فلڈریلیف آپریشن میں جاں بحق اسسٹنٹ کمشنر پتوکی  کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا فیصلہ

    فلڈریلیف آپریشن میں جاں بحق اسسٹنٹ کمشنر پتوکی کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا فیصلہ

    لاہور : فلڈریلیف آپریشن میں جاں بحق اسسٹنٹ کمشنرپتوکی فرقان احمد خان کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا، وہ کینسر مریض ہونے کے باوجود 4 دن سے فلڈ ریلیف ڈیوٹی کر رہے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے فلڈ ریلیف آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر پتوکی، فرقان احمد خان کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے اور ان کے ورثاء کے لیے ایک کروڑ روپے مالی گرانٹ کا اعلان کردیا۔

    مریم نواز نے اسسٹنٹ کمشنر کیلئے اعلیٰ سول ایوارڈاور ایک کروڑ روپے دینے کی منظوری دے دی۔

    چار برس سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود فرقان احمد خان مسلسل چار دن تک فلڈ ریلیف ڈیوٹی پر متحرک رہے ساتھ ہی متاثرہ عوام کو خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے میں پیش پیش رہے اور دورانِ آپریشن وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر ایک حقیقی ہیرو تھے جنہوں نے مشکل حالات میں عوام کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، قوم ان کی قربانی اور عزم کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

    مزید پڑھیں : اسسٹنٹ کمشنر پتوکی چل بسے

    گذشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر فرقان محمد خان واش روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے، واش روم میں گرنے سے ان کے سر پر چوٹ آئی تھی۔

    پولیس رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ سر کی چوٹ اور خون بہنے سے اسسٹنٹ کمشنر فرقان محمدخان کی موت ہوئی ہے۔

  • کراچی : سمندر میں لانچ کے ذریعے ایران سے پاکستان ڈیزل اسمگل کرنے کی کوشش  ناکام

    کراچی : سمندر میں لانچ کے ذریعے ایران سے پاکستان ڈیزل اسمگل کرنے کی کوشش ناکام

    کراچی: سمندر میں لانچ کے ذریعے ایران سے پاکستان ڈیزل اسمگلڈ کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی اور 18271 لٹر ایرانی ڈیزل برآمد کرلیا، جس کی مالیت تقریباً 49 لاکھ 33 ہزار روپے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کلکٹر کسٹمز انفورسمنٹ کراچی نے ڈیزل کی اسمگلنگ کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے اسمگلرز کو گرفتار کر لیا۔

    ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز سید محمد رضا نقوی نے بتایا سمندر میں لانچ کے ذریعے ایران سے پاکستان ڈیزل اسمگلڈ کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسٹمز کی چھاپہ مار ٹیم نے بحیرہ عرب میں ارماڑہ کے قریب کارروائی کرتے ہوئے ’’الخُولہ‘‘ نامی لانچ کو روکا اور تلاشی کے دوران بھاری مقدار میں ڈیزل برآمد کیا۔

    کارروائی کے دوران لانچ سے 18271 لٹر ایرانی ڈیزل برآمد ہوا جس کی مالیت تقریباً 49 لاکھ 33 ہزار روپے ہے۔

    حکام کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی لانچ کی مالیت 2 کروڑ روپے سے زائد ہے جبکہ ضبط شدہ ڈیزل اور لانچ کی مجموعی مالیت تقریباً 2 کروڑ 49 لاکھ روپے بنتی ہے۔

    کسٹمز حکام نے اسمگلرز کو گرفتار کرتے ہوئے ڈیزل اور لانچ اپنی تحویل میں لے لیے ہیں اور ان کے خلاف کسٹمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

  • کراچی میں مبینہ نشے میں دھت خاتون پر پولیس اہلکار کا تشدد  ، ویڈیو وائرل

    کراچی میں مبینہ نشے میں دھت خاتون پر پولیس اہلکار کا تشدد ، ویڈیو وائرل

    کراچی: صباایونیو میں مبینہ نشے میں دھت خاتون پر پولیس اہلکار کے تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے پر اہلکار کو فوری معطل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں صبا ایونیو میں مبینہ نشے میں دھت خاتون پر پولیس اہلکار کے تشدد کا واقعہ پیش آیا ، جس کی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔

    ویڈیو میں دیکھا گیا کہ خاتون سڑک کے بیچ میں آکر کھڑی ہوگئی تھی اور شور شرابہ کر رہی تھی ساتھ ہی ٹریفک میں رکاوٹ ڈال رہی تھی۔

    درخشاں تھانے کے اہلکار ندیم نے خاتون کوہٹانےکی کوشش کی گئی تو اسی دوران خاتون اور کانسٹیبل ندیم کے درمیان ہاتھا پائی ہوگئی۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار کی جانب سے خاتون پر تشدد کیا گیا اور پولیس تشدد سے مبینہ نشےمیں دھت خاتون سڑک پرگر گئی تھی۔

    پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مبینہ نشے میں دھت خاتون نے بھی اہلکار کو تھپڑ مارے تھے تاہم پولیس اہلکار کو فوری معطل کر دیا گیا اور خاتون کو تھانے منتقل کردیا ہے۔

    حکام نے کہا کہ خاتون کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا گیا ہے اور مزید تفصیلات لی جارہی ہیں۔

    واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی شہریوں نے پولیس کے رویے پر شدید تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ خاتون سے نمٹنے کے لیے لیڈی پولیس اہلکاروں کو کیوں طلب نہیں کیا گیا۔