پاکستان ایک بار پھر بے رحم مون سون بارشوں اور حالیہ سیلابوں سے نبردآزما ہے، جو ملک کی تباہ کن سیلابوں کی تاریخ کو واضح طور پر اجاگر کرتا ہے۔
بلوچستان میں 1998 میں اچانک آنے والے تباہ کن سیلابوں سے لےکر 2022 کے خطرناک ترین سیلاب تک جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِآب آگیا تھا، اور اب 2025 میں جاری یہ سیلابی بحران جس نے سینکڑوں جانیں نگل لیں، یہ واقعات موسمیاتی تبدیلیوں سے چلنے والی آفات کے بڑھتے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ صورتحال ہمیں بڑھتی ہوئی شدت اور وسیع نقصانات کے عوامل پر غور وخوض کرنے پر مجبور کرتی ہے، جس کا سب سے زیادہ بوجھ کمزور اور غریب کمیونٹیز اٹھا رہی ہیں۔
Latest Pakistan Floods News
یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جب بھارت کے زیرانتظام مقبوضہ کشمیر سے بھارتی حکام وہاں موجود بڑے ڈیموں سے شدید بارشوں کے بعد پانی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اس نے پاکستان، خاص طور پر پنجاب میں سیلاب کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
1998 کے سیلاب، اگرچہ حالیہ آفات کے مقابلے میں کم دستاویزی ہیں لیکن یہ پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والی آفاتی تسلسل کا ایک تاریک باب ہیں۔ مارچ میں اچانک شدید سیلاب جو زیادہ تر بلوچستان جیسے جنوب مغربی علاقوں میں آیا تھا، اس نے خراب موسم میں تباہی مچادی تھی۔
اس سیلاب میں 300 سے زائد افراد ہلاک اور 1,500 سے زائد لاپتہ ہوئے تھے، تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے اور دشوار گزار علاقوں کی وجہ سے اس وقت امدادی سرگرمیوں میں شدید مشکلات پیش آئی تھیں۔
تقریباً 200,000 افراد متاثر ہوئے تھے، جن میں 25,000 بے گھر ہوئے جبکہ 3,700 سے زائد گھر تباہ ہوئے، اس وقت ہونے والے معاشی نقصانات کی جامع پیمائش نہ ہو سکی لیکن گھروں اور سڑکوں کی تباہی نے دیہی علاقوں کی معیشت کو، جو زراعت اور بنیادی ڈھانچے پر منحصر تھیں دیرپا نقصان پہنچایا۔
کہانی یہیں نہیں رکی بلکہ2022 میں آنے والے سیلاب نے غیرمعمولی تباہی پھیری، جسے پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا گیا۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھنے والی ریکارڈ توڑ مون سون بارشوں نے جون سے ستمبر تک ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا، جس سے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا متاثر ہوئے، کچھ علاقوں میں بارش اوسط سے 7 سے 8 فیصد زیادہ ہوئی تھی۔
زیادہ بارشوں کے سبب وسیع پیمانے پر سیلاب اور اچانک ریلوں نے تباہی مچائی تھی، تقریباً 1,700 اموات ہوئیں، 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور 8 ملین بے گھر ہو گئے، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا جس کے نتیجے میں 1.5 ملین سے زائد گھر برباد یا متاثر ہوئے، 4 ملین ہیکٹر زرعی زمین جو کپاس اور چاول جیسی فصلوں کے لیے اہم تھی تباہ ہو گئی۔
معاشی نقصانات 30 سے 40 بلین ڈالر تک پہنچے، جس نے 9 ملین سے زائد افراد کو غربت کی طرف دھکیل دیا اور غذائی عدم تحفظ اور بیماریوں جیسے طویل مدتی مسائل کو جنم دیا۔ ماہرین اس شدت کو پگھلتے گلیشیئرز اور غیر متوقع موسم کے نمونوں سے منسوب کرتے ہیں، جو کبھی موسم کی نعمت تھے، اب قومی ایمرجنسی بن گئے۔
اب 2025 میں پاکستان کو ماضی کی ان تباہیوں کی طرح ایک بار پھر پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے، جون کے آخر سے مون سون سیلابوں نے کم از کم 802 جانیں لیں، جن میں سے نصف اموات اگست میں ہوئیں۔
اچانک سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیل جھیلوں کے پھٹنے کی وجہ سے اموات ہوئیں، شدید بارشیں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کو متاثر کر رہی ہیں۔
موسمیاتی سائنسدان کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر تپش بڑھنے کی وجہ سے بارشوں کی شدت بڑھ گئی ہے جس سے شہر اور دریا کے کنارے آباد علاقوں میں سیلابی صورتحال بڑھ رہی ہے، 26 اگست تک خیبر پختونخوا سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
بونیر اور شانگلہ جیسے اضلاع میں 479 اموات ہوئیں، 4,000 سے زائد گھر تباہ ہوئے اور 674 اسکول متاثر ہوئے، قومی سطح پر تقریباً 1,000 افراد زخمی ہوئے، 4,700 سے زائد گھر برباد ہوئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے، پنجاب کے سیلاب زدہ میدان علاقوں سے 24,000 افراد کو نکالا گیا۔
اس صورتحال کے بعد بھارت نے 27 اگست کو کشمیر کے اپنے زیرانتظام حصے میں بڑے ڈیموں سے تقریباً 200,000 کیوسک پانی چھوڑ کر مزید پیچیدگی پیدا کردی، یہ اقدام شدید مون سون بارشوں کے بعد کیا گیا۔
اس سے پاکستان میں، خاص طور پر پنجاب میں جو ملک میں سب سے بڑی مقدار میں اناج پیدا کرتا ہے اور ملک کی تقریباً آدھی آبادی یہاں رہتی ہے، یہاں سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پاکستانی حکام نے بھارت سے آنے والے تین دریاؤں پر سیلاب کے الرٹ جاری کیے اور فوج کو پہلے سے زیر آب علاقوں میں امداد، ریلیف اور انخلا کے لیے تعینات کیا گیا، موجودہ صورتحال میں پنجاب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 167,000 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں سے تقریباً 40,000 نے 14 اگست سے سیلاب کی وارننگ کے بعد رضاکارانہ طور پر انخلا کیا۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ بھارت نے اتوار سے دو سابقہ سیلابی وارننگ جاری کیے، جو سرحد پار پانی کے بہاؤ کے انتظام کے بار بار چیلنج کو اجاگر کرتا ہے، بھارتی ڈیموں کے بھر جانے پر اس طرح کی صورتحال معمول ہے۔
معاشی نقصانات کا ابھی تخمینہ نہیں لگایا گیا لیکن پلوں، واٹر سسٹمز اور ایریگیشن چینلز کو پہنچنے والا نقصان کافی زیادہ ہے، ان سب کی بحالی کےلیے اربوں روپے کے اخراجات درپیش ہونگے، اس کے علاوہ ملیریا اور جلدی بیماریوں جیسے صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ستلج اور چناب جیسے دریاؤں میں مسلسل زیادہ سیلابی خطرات کی وارننگ جاری کی ہے جبکہ وسط ستمبر تک مزید بارشیں متوقع ہیں۔
ان تینوں واقعات کا موازنہ کیا جائے تو یہ ایک پریشان کن اضافے کو ظاہر کرتا ہے، 1998 کے سیلاب اگرچہ مہلک تھے، جن میں 300 تصدیق شدہ اموات اور 200,000 متاثر ہوئے جو کم شدید عالمی موسمیاتی اثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔
تاہم 2022 تک یہ بحران 33 ملین افراد تک پھیل گیا جس میں تیزی سے شہری اور جنگلات کی کٹائی نے نقصانات کو بڑھایا، اس سال کے سیلاب اگرچہ 2022 کے پیمانے تک نہیں پہنچے، تاہم 1998 کی ہلاکتوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی کے آثار دکھا رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں، جو مئی 2025 میں ایک مختصر تنازع کے بعد سے مزید خراب ہوئے، یہ صورتحال اس تشویش کو بڑھاوا دے رہی ہے کہ بھارتی ڈیموں سے پانی چھوڑنے سے منسوب سیلاب دو طرفہ کشیدگی کو بھڑکا سکتے ہیں۔
ماہرین نے زور دیا ہے کہ مستقبل میں صورتحال کی بہتری کےلیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں، جس میں بہتر ابتدائی وارننگ کا نظام اور مضبوط بنیادی ڈھانچے کو اولیت دی جائے۔
خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ ایک شخص کا کہنا تھا کہ "ہم تباہی کے بعد دوبارہ تعمیرات کرتے ہیں لیکن پانی ہر بار اور زیادہ طاقت سے آتا ہے۔” موسمیاتی تبدیلیوں اور سرحد پار سے پانی چھوڑنے کا سنگین اقدام ظاہر کرتا ہے پاکستان میں سیلاب آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ یہ ایک نئے معمول کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے جو فوری عالمی ردعمل کا تقاضا کرتا ہے۔