2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

monsoon 2025 pakistan monsoon 2025

سال 2025 دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے نے مختلف خطّوں کو شدید اور غیر معمولی ماحولیاتی آفات کی زد میں ڈال دیا۔ عالمی ادارۂ موسمیات (WMO) کے مطابق، 2025 کے پہلے آٹھ ماہ میں زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔ یہ وہ سنگین حقیقت ہے جس نے دنیا کے کئی خطوں میں قہر برپا کر دیا، اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہ رہا۔

دنیا بھر میں 2025 کی ماحولیاتی تباہیاں

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ کے مطابق، سال 2025 کے دوران یورپ نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل گرمی کی لہر دیکھی۔ اٹلی، اسپین اور فرانس میں درجہ حرارت 45 ڈگری سے اوپر جا پہنچا۔ نتیجتاً فصلیں جھلس گئیں، بجلی کا نظام ناکام ہوا اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔اسی دوران امریکہ اور کینیڈا میں جنگلاتی آگ نے لاکھوں ہیکٹر رقبہ راکھ کر دیا۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے اپنی تازہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور طویل خشک سالی جنگلاتی آگ کے خطرے کو دگنا کر رہا ہے۔

افریقہ میں ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان جیسے ممالک شدید خشک سالی اور قحط کی زد میں رہے، جہاں لاکھوں افراد خوراک اور پانی کی کمی کا شکار ہوئے۔ جنوبی ایشیا کے کئی حصوں میں سمندری طوفان اور بارشیں تباہی لائیں، خصوصاً پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ سب مظاہر ایک ہی سمت اشارہ کر رہے ہیں: دنیا ماحولیاتی بحران کے نازک ترین دوراہے پر کھڑی ہے۔

پاکستان میں مون سون کی تباہ کن بارشیں

پاکستان میں 2025 کی مون سون بارشیں اپنی شدت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ کشمیر، گلگت بلتستان،لاہور، پشاور اور اندرونِ سندھ کے کئی علاقے زیرآب آ گئے اور تباہیوں کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق، بارشوں کی شدت موسمیاتی تبدیلی کے باعث کم از کم 30 فیصد بڑھ گئی، اور یہ اضافہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا نتیجہ ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی۔ کپاس، چاول اور گنے کی فصلیں تباہ ہوئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ شہری علاقوں میں نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ گلگت بلتستان اور کے پی کے میں گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور انفرا اسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔

گلگت بلتستان اور گلیشیئرز کا خطرہ

پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک اور خاموش مگر مہلک خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز دنیا میں سب سے تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔ UNEP اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ بیس برسوں میں گلیشیئرز کے حجم میں 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس پگھلاؤ نے درجنوں گلیشیائی جھیلیں پیدا کر دی ہیں، جن میں سے کئی ہر وقت پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 2025 کے دوران ضلع غذر اور ہنزہ میں کم از کم تین بار ایسے واقعات پیش آئے جن سے مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی برادریوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک بھر کی آبی سلامتی کے لیے بھی۔ دریائے سندھ کا زیادہ تر بہاؤ انہی گلیشیئرز پر منحصر ہے۔ اگر یہ تیزی سے پگھلتے رہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

سماجی و معاشی نقصانات

2025 کی تباہ کاریوں نے پاکستان میں نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کو براہِ راست بدل دیا۔ دیہی علاقوں میں مکانات منہدم ہوئے، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہوئیں۔ متاثرہ علاقوں میں ڈینگی اور ہیضہ جیسے امراض کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ زراعت، جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق، صرف مون سون بارشوں اور سیلابوں کے باعث پاکستان کی زرعی پیداوار میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔

عالمی تباہیاں اور پاکستان کا ربط

پاکستان کی صورتحال کو اگر دنیا کے دیگر خطوں میں رونما ہونے والی آفات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی کہانی کے مختلف ابواب ہیں۔ یورپ میں گرمی کی لہریں، افریقہ میں خشک سالی، امریکہ و کینیڈا میں جنگلاتی آگ، اور پاکستان میں بارشوں کے طوفان سب ایک ہی سلسلے کا حصہ ہیں۔ IPCC کی چھٹی رپورٹ (AR6) نے خبردار کیا تھا کہ اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے اوپر چلا گیا تو دنیا کو شدید اور ناقابلِ واپسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2025 کی صورتحال نے یہ خدشات ایک تلخ حقیقت میں بدل دیے ہیں۔

پاکستان کو فوری طور سے ہنگامی بنیادوں درج ذیل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ارلی وارننگ سسٹمز کو دیہی سطح تک مضبوط اور قابلِ عمل بنانے کے ساتھ شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا ہو گا تاکہ بڑے شہروں میں نکاسی آب اور انفراسٹرکچر مستقبل کے دباؤ کو برداشت کر سکے، زرعی شعبے کو کلائمٹ ریزیلینٹ بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ فصلیں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کو برداشت کر سکیں، گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر ریسرچ اور مانیٹرنگ سسٹم کو جدید بنانا ہو گا تاکہ GLOFs جیسے واقعات سے بروقت نمٹا جا سکے،عالمی سطح پر کلائمٹ فنانس کے حصول کے لیے پاکستان کو زیادہ متحرک سفارت کاری کے ذریعے باور کرانا ہو گا کہ پاکستان موسمیاتی تباہیوں کا مرکز بن چکا ہے تاکہ نقصانات کی تلافی اور لچکدار معیشت کی تعمیر ممکن ہو سکے۔

2025 کی ماحولیاتی تباہیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ موسمیاتی بحران اب مستقبل کی دھمکی نہیں بلکہ حال کی حقیقت ہے۔ پاکستان کی مون سون بارشیں اور گلگت بلتستان کے پگھلتے گلیشیئرز اس بحران کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان کی وارث ہوں گی جہاں پانی کمیاب، زمین بنجر اور موسم مہلک ہوگا۔ یہ لمحہ موجود ایک انتباہ ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں، طرزِ زندگی اور ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر ماحولیاتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ورنہ، 2025 کی تباہیاں محض آغازہیں اور انجام؟؟

حوالہ جات:
عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، 2025 — عالمی موسم کی صورتحال پر رپورٹ
اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، 2025 — ماحولیاتی ایمرجنسی پر تازہ رپورٹس
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی جامع رپورٹ (AR6)، 2023–2025 کے نتائج
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، 2025 — جنوبی ایشیا میں زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
پاکستان محکمہ موسمیات (PMD)، 2025 — مون سون بلیٹن اور گلیشیئر مانیٹرنگ رپورٹس
ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، 2024–2025 — پاکستان میں موسمیاتی اور قدرتی آفات سے تحفظ کی حکمتِ عملی