غزہ میں فلسطینی اپنی بقا کے لیے سمندری پانی کا استعمال کر رہے ہیں۔
ثمر ابو ایلوف غزہ سے تعلق رکھنے والی فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اسرائیل کی مسلسل بمباری کے درمیان محصور علاقے کی صورتحال کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔
اتوار کے روز، انہوں نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بتایا گیا کہ غزہ کے سمندر کے قریب رہنے والے فلسطینی کس طرح اپنی روزمرہ کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کھارے پانی کا استعمال کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے 9 اکتوبر کو غزہ کی پٹی کا "مکمل محاصرہ” کرنے کا اعلان کیا، جس میں خوراک اور پانی پر پابندی بھی شامل ہے۔
انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں لوگ سمندر سے پانی بھر رہے ہیں اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ ہمیں دستیاب ہے لیکن جو کوئی بھی سمندر کے کنارے نہیں رہتا، ان کے لیے وہاں پہنچنا بہت مشکل ہو گا زیادہ تر لوگ سمندر سے محبت کرتے ہیں لیکن آج میں اسے ایک مختلف انداز میں دیکھتی ہوں۔
اسرائیل کی بربریت اور وحشیانہ کارروائیوں سے جان بچانے والے فلسطینیوں کی جان کو نیا خطرہ لاحق ہو گیا۔
بےآسرا مظلوم فلسطینیوں کے لیے نئی مشکل آن پڑی۔ اسرائیلی دہشت گردی سے بچنے والے فلسطینیوں میں بیماریاں پھیلنے لگیں۔
غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اسکول لاکھوں بےگھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔
پناہ گزین کیمپوں میں صحت سہولتوں کے فقدان ہے اور ناکہ بندی کی وجہ سے بےگھرفلسطینی بیماریوں سے پریشان ہیں۔
محصور فلسطینی امداد نہ ملنے کی وجہ سے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور اسرائیل متاثرین کی بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔