اچھائی کو بازار سے خریدا نہیں جا سکتا!

انسان کا تمدنی سفرِ ارتقا رہنمائی اور آزادی کے دو پہیوں پر آگے بڑھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوقات کو ہدایت سے نوازا اور ان سب کو اس رہنمائی کا پابند کر دیا۔

چاند ستارے، چرند پرند بلکہ فرشتوں تک کو اس بات کی اجازت نہیں کی وہ ان ہدایات سے سرِ مو انحراف کرسکیں۔ وہ سب کی اپنی تمام قوت و عظمت کے باوجود آزادی کی بیش بہا نعمت سے یکسر محروم ہیں۔ اس لئے کہ اس نعمت کے عوض عائد ہونے والی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ہمت و سکت وہ اپنے اندر نہیں جٹا سکے۔ قرآن مجید میں پہاڑوں کے حوالے سے یہ بات تمثیل کے طور پر کہی گئی ہے۔ اس لئے ان کی تعمیل و طاعت قابلِ صد احترام ضرور ہے لیکن چونکہ وہ اس پر مجبور ہیں۔ اس لئے اس کی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی۔ ساتھ ہی اس فرمانبرداری کے باوجود ان کے اندر کوئی تمدنی ارتقا عمل میں نہیں آتا ہے۔

ہزار ہا سال سے شمس و قمر اسی محور میں گردش کر رہے ہیں جن میں انہیں محصور کر دیا گیا ہے، شیر اور ہرن اسی طرز پر زندگی گزار رہے ہیں جن پر صدیوں پہلے زندگی گزارا کرتے تھے۔ ان کا رہن سہن ایک خاص نہج پر منجمد کر دیا گیا ہے۔ وہ اس سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں سوچنے تک کے سزاوار نہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچّوں کی تعلیم و تربیت کا اس فلسفہ سے کیا تعلق؟ دراصل آگے جو بات میں کہنے جا رہا ہوں۔ اس کو سمجھنے کے لئے شخصیت کے ارتقا کے ساتھ رہنمائی اور آزادی کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔

ہدایت و رہنمائی:
کائنات کی ساری مخلوقات کو ان کے خالق و مالک نے جبلی ہدایت سے معمور فرمایا اس کے باوجود بکروں کے ریوڑ میں کوئی شریف یا بد معاش بکرا نہیں پایا جاتا۔ ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری انہیں بلند تر روحانی مدارج پر فائز نہیں کرتی۔ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل نہیں کی جاتیں اور پیغامبر مبعوث نہیں کئے جاتے۔ ان کے لئے حساب کتاب حشر اور جنت و دوزخ نہیں سجائی جاتی لیکن حضرت انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ تو جنت سے آنے اور جانے کے درمیان عرصہ حیات میں اپنے خالقِ حقیقی سے یہ کہنے کی جرأتِ رندا نہ تک کر جاتا ہے کہ ؎

باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

علّامہ اقبال کے اس شعر میں کارِ جہا ں سے مراد انسانی ارتقا کے بلند تر مراحل ہیں جن کو سر کرنے کی غرض سے ربِّ کائنات نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے۔ تعلیم و تربیت کا اصلی ہدف اسی ارتقا کے عمل میں اعانت و تعاون ہونا چاہیے۔

آزادی و حریت:
فرد کی آزمائش کے لئے فکر و عمل کی محدود سہی لیکن آزادی اوّلین شرط ہے۔ اجتماعی سطح پر انسانی معاشرہ ان قوموں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ اس ارتقائی عمل میں دوسروں سے مسابقت کر کے آگے نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مسابقت میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا ایک فطری خواہش ہے جو زمان و مکان کی محدودیت سے ماورا ہے۔ ہر دور اور ہر خطۂ ارضی کے انسانوں نے جمود کو زندگی کی نہیں بلکہ موت کی علامت گردانا ہے۔ ارتقا سے محرومی کو انسانی ضمیر اپنی تمدنی ہلاکت قرار دیتا ہے اور انسان اپنی تہذیبی ہلاکت پر طبعی موت کو قابل ترجیح سمجھتا ہے۔ وہ آزادی و حریت کی بقا کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے کو سعادت جانتا ہے۔ اس لئے کہ جب کسی قوم کی آزادی سلب کر لی جاتی ہے تو اس کا انفرادی اور اجتماعی ارتقا رک جاتا ہے اور وہ بستی ایک چلتی پھرتی لاش کے قبرستان میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ربّ کائنات کی حکمت یہ ہے کہ جس مخلوق سے ارتقا مطلوب تھا، اسے ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد آزادی کے جوہر سے بھی ہم کنار کیا تاکہ وہ اخلاقی اور مادّی ترقی سے بہرہ ور ہوسکے۔

والدین کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنی اولاد سے بڑی حد تک لا پروا ہوتے ہیں۔ وہ انہیں خس و خاشاک کی طرح پوری طرح آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے یا اپنے آ پ کو اس کام کا اہل نہیں پاتے ان والدین کے بچے رہنمائی کے نہ ہونے کے باعث بہت ساری ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے سنبھلتے چل پڑتے ہیں۔ کبھی کبھار سنبھل نہیں پاتے تو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے بھٹک جانے کا بھی اندیشہ باقی رہتا ہے۔ اس کے برعکس دوسری قسم ایسے والدین کی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ وہ ان کی فکری و عملی رہنمائی کی ذمہ داری تو کماحقہ ادا کر دیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بچے کی آزادیِ فکر و عمل کو پوری طرح کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ بظاہر دوسری قسم کے والدین کو معاشرے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں اپنی اولاد کا بڑا خیر خواہ سمجھا جاتا ہے لیکن نادانستہ طور پر ان سے ہونے والی غلطی بچّہ کے اندر جدت و ندرت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اکثر اس طرح کے بچوں میں خوداعتمادی کی بھی کمی پائی جاتی ہے ان کے اندر عزم و حوصلہ اور قوت فیصلہ کا فقدان ہوتا ہے اس لئے کہ والدین ان کے سارے فیصلے خود کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کی انتہا پسندی بچے کی شخصیت کے ارتقا کے لئے مضر ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک الٰہی اسلوب جس میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ آزادی ہے نگرانی کے باوجود دھونس اور زبردستی نہیں ہے جو والدین اس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے بچہ بہترین شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے اندر صلاحیت اور صالحیت یہ دونوں عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں، صلاحیت اس آزادی کے باعث پروان چڑھتی ہے جو اسے اپنے ماں باپ سے ملتی ہے اور صالحیت کا تعلق اس رہنمائی اور نگرانی سے ہوتا ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بچپن کی کلی کھلتی ہے۔ مندرجہ بالا گفتگو کا تعلق والدین کے طرز فکر سے تھا۔ اب آئیے کچھ عملی مسائل پر بھی غور کیا جائے۔

بچّوں اور بڑوں کی نفسیات میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کم سوچتے ہیں۔ بس ضرورت بھر سوچتے اور جو ٹھیک لگتا ہے کر گذرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ اوروں کی پسند اور ناپسند سے ان کے فیصلے متاثر نہیں ہوتے اس لئے وہ بروقت فیصلے کرتے ہیں۔ بچے اپنی خوشی اور ناراضگی کا اظہار فوراً اور بلا تکلف کر دیتے ہیں۔ وہ اداکاری یا مکاری نہیں کرتے منافقت کے مرض سے محفوظ ہوتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی ان کے اندر یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ اس لئے کسی غیر معمولی کیفیت (abnormal phase) میں زیادہ عرصہ نہیں رہتے بہت جلد نارمل ہو جاتے ہیں۔

والدین کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ بہت زیادہ سوچتے ہیں اور اکثر غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تذبذب کی کیفیت انہیں کسی نتیجے پر پہونچنے نہیں دیتی۔ والدین کو اس بات کی فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ اگر چہ بات صحیح ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے؟ والدین گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر اپنے جذبات و احساسات کے اظہار سے گریز فرماتے ہیں اور تلخیوں کو آسانی سے بھلا نہیں پاتے۔ اس بنیادی فرق کے باوجود والدین بچوں سے یہ بیجا توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کی طرح سوچیں۔ ہم بچوں سے تو ان کی فطرت کے خلاف توقع کرتے ہیں لیکن خود اپنے مزاج کے خلاف بچہ بن کر نہیں سوچتے۔ بڑے اگر چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے اور بچّہ اگر چاہے بھی تو ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود ہماری یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس لئے بچّوں کی اس ہیئت کو سمجھنے کے لئے بڑوں کو بچّہ بن کر سوچنا پڑے گا تب جا کر بات بنے گی۔

بچّہ اپنی ضرورتوں کو اصرار کے ساتھ طلب کرتا ہے لیکن وہ اپنے مسائل کی فہرست بنا کر اپنے والدین کے سامنے پیش نہیں کرسکتا اس لئے کہ ایسا کرنے کے لئے جس غور و فکر کی ضرورت ہے وہ اس کے بس کے باہر کی بات ہے۔ والدین کو اس بات کا احساس ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ بچّہ کی طرح نہیں سوچتے۔ اس لئے اس کے حقیقی مسائل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے اور اس لئے مرض کی تشخیص میں غلطی کر جاتے ہیں۔ نتیجتاً والدین کی ان مخلصانہ کوششوں کے باوجود بچّوں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے۔ دانا حکیم اپنے مریض کی تکلیف سمجھنے کی خاطر پہلے اس کی سطح پر جاتا اور پھر واپس آ کر علاج تجویز کرتا ہے۔ اس معاملے میں اگر وہ نسخہ لکھنے میں جلد بازی کرے تو مریض کو علاج کے بجائے غالب کی غزل ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

بچّوں کی ضرورتیں نہ تو پوری طرح مشترک ہوتی ہیں اور نہ بالکل مختلف۔ اس لئے والدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر بچّہ کی ضرورت کا انفرادی سطح پر اندازہ کریں۔ یہ کام قومی سطح پر مشکل بلکہ ناممکن ہے لیکن خاندان کے اندر نہایت سہل اور آسان ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے عذاب نے اسے آسان تر بنا دیا ہے۔ ضرورتوں ہی کی طرح ہر بچّے کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں پائی جانے والی رکاوٹیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان کا بھی درست اندازہ لگانا نہایت ضروری ہے، ضرورتوں کو سہولتوں سے پورا کیا جاسکتا ہے جیسی ضرورت ہو ویسی سہولت ہو۔ مثلاً اگر کوئی مادّی ضرورت ہے تو اسے فکری تربیت پورا نہیں کر سکتی۔ اسی طرح علمی و فکری ضرورتوں کی بھرپائی مادّی وسائل سے ممکن نہیں ہے۔ بچوں کے ارتقا میں پائی جانے والی رکاوٹوں کی نوعیت اکثر و بیشتر نفسیاتی ہوتی ہے اور یہ زیادہ لطیف اور نازک مراحل ہوتے ہیں اور انہیں دور کرنے کے لئے بڑی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ضرورتوں اور رکاوٹوں کے معاملے میں ترجیحات کا تعین نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لئے یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ والدین ہر دو فہرست کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیں۔ اوّل تو وہ ضرورتیں جو بچّے کی نشوونما کے لئے ناگزیر ہوں اور ثانیاً وہ جن کے نہ ہونے سے کچھ مشکلات کے باوجود کام چل سکتا ہو۔ ایسا کرنے سے وسائل کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ اکثر و بیشتر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ فروعی ضرورتوں پر ساری توانائی صرف ہو جاتی ہے اور ناگزیر ضرورتیں تشنہ کام رہ جاتی ہیں۔ اس خرابی کا واحد علاج ترجیحات کا مناسب تعین ہے۔ رکاوٹوں کے حوالے سے بھی اس طرح کی تقسیم لازمی ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ والدین ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر اپنا سارا زور صرف کر دیتے ہیں جن کے باوجود بچہ تھوڑی بہت محنت و دقت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے لیکن ان رکاوٹوں کی جانب سے صرفِ نظر ہو جاتا ہے جو ناگزیر ہوتی ہیں اور آگے چل کر پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے ایسی صورتحال میں والدین کے ساتھ ساتھ خود بچّے کی ساری محنتیں اور کاوشیں بے ثمر ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں ہر دو فریق پریشان ہوتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود متوقع نتائج کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

ان حالات میں اکثر غیر متعلق چیزوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی حل نہیں بلکہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے اور اس کے لئے صرف اور صرف والدین ذمہ دار ہیں۔

بچّہ ایک نرم نازک کونپل کی مانند ہوتا ہے جس طرح ایک کسان یا باغ کا مالی پودے کی نشو و نما کے لئے مناسب کھاد پانی کا بندوبست کرتا ہے اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کی ضرورتوں کو بہم پہونچانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ کسان اپنی فصل کی مضر کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت کے لئے جراثیم کش ادویات کا استعمال بھی کرتا ہے۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ بچے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایسی ہی فکر کریں۔ ایسا کرتے وقت باغبان ان اشیا کی مقدارِ ضرورت کا خاص پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ ان کی کثرت و قلت دونوں ہی پودوں کے لئے یکساں طور پر مضر ہیں۔ اگر اس معاملے میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو کسان کی ساری محنت و مشقت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ یہ قانونِ فطرت آفاقی نوعیت کا ہے۔

شوق اور خوف دو ایسے عوامل ہیں جو نفسیاتی سطح پر کسی بھی کام کو انجام دینے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ تقویٰ دراصل اسی خوف اور شوق کا حسین ترین امتزاج ہے جس میں ایک طرف انسان کو اللہ کی ناراضی کا ڈر ہوتا ہے اور دوسری جانب اللہ کی محبت اس کے اندر ذوق و شوق پیدا کرتی ہے۔ دیگر دنیوی معاملات میں انسان کو نقصان کا خوف ہوتا ہے اور فائدے کا لالچ گویا ایک قوت پیچھے سے دھکا دیتی ہے تو دوسری آگے کی جانب کھینچتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ خوف خارجی اشیا سے ہوتا ہے اور کشش داخلی جذبۂ عمل ہے۔ لیکن یہ سارا ماجرا پختہ کار ذہنیت کا ہے۔ بچّے کے اندر عام طور پر ان دونوں کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ ’فریبِ سود و زیاں ‘سے محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ بچہ تو اس کام کو کرتا جس میں اس کو مزہ آتا ہے اور اس کام کو نہیں کرتا جو اس کے دل کو نہیں بھاتا۔ اس پر فائدے کی لالچ اور نقصان کا اندیشہ اثر انداز نہیں ہو پاتا۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچوں کے سامنے اچھے کام مزیدار بنا کر پیش کئے جائیں اور ڈرا دھمکا کر ان سے کام لینے کی کوشش نہ کی جائے اس لئے کہ اگر کسی کام میں بچوں کو مزہ آنے لگے تو منع کرنے کے باوجود وہ اسے کر گذرتے ہیں اور جس کام میں ان کا دل نہ لگے لاکھ جتن کے باوجود وہ کام ان سے کرایا نہیں جاسکتا۔

بچے کی ایک بہت بڑی ضرورت اس کی مصروفیت ہے۔ وہ بیکار نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کو کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کام چاہیے۔ اب یہ بڑوں کا کام ہے کہ وہ اس کے سامنے ایسی مصروفیات رکھیں جن سے اس کا فکری و جسمانی ارتقا عمل میں آئے۔ اکثر والدین ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے ان کو ایسے مشاغل میں مصروف کر دیتے ہیں جو ان کے نازک ذہن پر دیرپا منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب غیر شعوری طور پر ہوتا ہے مثلاً مختلف کمپیوٹر کھیل انہیں پکڑا دیے جاتے ہیں یا کارٹون فلموں میں انہیں الجھا دیا جاتا ہے۔ بچہ ان کے اثرات کے حوالے سے کوئی تمیز و تفریق نہیں کرسکتا وہ بصد شوق ان میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن جو والدین ان اثرات کا ادراک کرسکتے ہیں وہ بھی ایسا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے یا تو انہیں اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی یا وہ اس کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔

بچّے کی نفسیات نہایت سادہ و آسان ہوتی ہے، وہ جو سنتا ہے وہ بولتا ہے اور جو دیکھتا ہے سو کرتا ہے۔ بچے کے سامنے بہترین نمونہ اس کے والدین کا اخلاق و کردار ہوتا ہے۔ وہ ان کو جیسا کرتا ہوا دیکھتا ہے ویسا ہی خود کرتا ہے۔ اس پر والدین کے پند و نصائح کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوتا لیکن ان کی حرکات و سکنات اس پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتی ہے۔ کسی بچّہ کے لئے اس بات کو تسلیم کرنا نہایت دشوار ہے کہ جو بات اس کے والدین کے لئے مفید ہے تو اس کے لئے مضر کیونکر ہے۔ گویا والدین کو پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے بچے کو کیسا انسان بنانا چاہتے ہیں اور پھر خود ویسا بننا پڑے گا باقی کام اپنے آپ ہو جائے گا۔ عام طور پر والدین ایک ایسی ذمہ داری اپنے سَر لے لیتے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہوتی مثلاً مجھے اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے یا کرنل بنانا ہے وغیرہ۔ اور روپیوں کے زور سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کارِ دارد ہوتا ہے۔ کئی بار خود بچے کے مزاج سے والدین کی توقعات میل نہیں کھاتیں۔ ایسے میں بچہ جو نہیں کرسکتا وہ کرنے کے لئے اسے مجبور کیا جاتا ہے اور جو کچھ کر سکتا ہے اس سے اسے روک دیا جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا ظلم ہے جو ان لوگوں کے ذریعہ کیا جاتا جو اس کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ویسے اگر والدین چاہیں تو وہ اپنے بچے کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں لیکن بدقستی سے اس اچھائی کو بازار سے خریدا نہیں جا سکتا اس کے لئے ماں باپ کو خود اچھا بننا پڑتا ہے جو خاصا مشکل کام ہے۔ دوسروں کو اچھا بنانے کی خواہش جس قدر آسان ہے اپنے آ پ کو صالح بنانا اسی قدر مشکل کام ہے۔

مصنّف: ڈاکٹر سلیم خان