کبوتر کیمرہ : پیغام رسانی سے خفیہ جاسوسی کی حیران کن داستان

کبوتر

ماضی میں اپنے پیغامات، خطوط بھیجنے اور جاسوسی کے لیے کبوتر کو باقاعدہ خصوصی تربیت دے کر استعمال کیا جاتا تھا جو کافی حد تک کامیاب طریقہ کار بھی تھا۔

ایسے کبوتر دور دراز علاقوں تک اڑان بھر کر پیغام پہنچانے کا کام کرتے تھے، انہیں صرف گھروں میں پیغام پہنچانے کے لیے ہی نہیں بلکہ میدان جنگ میں پیغام رسانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

عام پرندوں کو گھر کا پتہ سمجھ میں نہیں آتا لیکن کبوتروں میں ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے جسے گھر واپسی کی جبلت اور انگریزی میں ہومنگ انسٹنکٹ کہا جاتا ہے۔

جس کے ذریعے وہ اپنی آبائی جگہ کو پہچاننے اور وہاں واپس پہنچنے میں مہارت رکھتے ہیں، چاہے انہیں کتنی ہی دور کیوں نہ لے جایا جائے۔

اس صلاحیت کا تعلق ان کے اندر موجود مخصوص مقناطیسی حس سے ہے، جس کی بدولت وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرکے سمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی کے انٹرنیشنل اسپائی میوزیم میں دنیا بھر کے جاسوسی آلات کا سب سے بڑا عوامی ذخیرہ موجود ہے۔

اس میوزیم میں قلم کی شکل کے خفیہ آلات سے لے کر خصوصی گاڑیاں تک شامل ہیں، جو کئی ممالک اور دہائیوں پر محیط ہیں۔ مگر بالکل فلمی طرز پر، جیسا کہ ایم آئی سکس کی "کیو” لیبارٹری میں نظر آتا ہے، ان میں سے بعض چیزیں حیران کن اور کسی حد تک خوف پیدا کرنے والی بھی ہیں۔ ان ہی میں ایک کبوتر کیمرہ بھی ہے۔

کبوتر سے پیغام رسانی کا آغاز تقریباَ تین ہزار سال قبل فراعین مصر کے دور میں ہوا، جس میں سلیمان بادشاہ نے 1010 قبل مسیح میں اس کا استعمال کیا۔

مسلمانوں نے 567 ہجری میں نور الدین زنگی کے دور میں شام اور مصر میں کبوتروں کو تربیت دے کر پیغام رسانی کا باقاعدہ نظام بنایا اور 1150ء میں بغداد میں سلطان نے اس نظام کو مزید منظم کیا۔ یہ طریقہ کار ایشیا اور یورپ میں چنگیز خان کے ذریعے پھیلایا گیا اور فرانسیسی انقلاب میں بھی اس کا استعمال جاری رہا۔

انسان نے جنگوں میں اکثر جانوروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ مثال کے طور پر ڈولفن اور سی لائینز کو بارودی سرنگیں ڈھونڈنے پر لگایا گیا، چمگادڑوں پر چھوٹے بم باندھے گئے اور ہاتھیوں کو ایک طرح کے "زندہ ٹینک” کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن جاسوسی اور پیغام رسانی کے لیے پرندے سب سے زیادہ موزوں ثابت ہوئے، جن میں سب سے نمایاں نام کبوتر کا ہے جس کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

کبوتر اپنی "ہومنگ انسٹنکٹ” یعنی گھر واپسی کی جبلّت کی وجہ سے قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ان کا استعمال پیغام رسانی کے لیے عام تھا، اور ان خدمات کے بدلے کئی کبوتروں کو میڈلز بھی دیے گئے (یقیناً یہ کہانیاں انہوں نے اپنے بچوں اور پوتوں کو سنائی ہوں گی)۔ اس جبلّت کی بدولت کبوتروں کو اس طرح چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ واپسی پر کسی اہم علاقے کے اوپر سے گزریں اور مطلوبہ معلومات حاصل ہوسکے۔

سرد جنگ کے دوران سی آئی اے نے اس قدرتی صلاحیت کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کبوتروں کے ساتھ ننھے کیمرے باندھے گئے تاکہ وہ قریبی فاصلے سے خفیہ تصاویر کھینچ سکیں۔

چونکہ جہاز یا سیٹلائٹ زیادہ بلندی سے تصویریں لیتے تھے، اس لیے کبوتروں کے نیچے نصب کیمرے کی تصاویر زیادہ واضح اور کارآمد ہو سکتی تھیں۔ ان کیمروں میں یہ سہولت بھی تھی کہ یا تو فوری طور پر تصویر کشی شروع کر دیں یا یہ کام کسی طے شدہ وقت کے بعد کریں۔

اسپائی میوزیم میں موجود کبوتر کیمرہ اصل نہیں بلکہ اس کی نقل ہے۔ اصل نمونہ سی آئی اے کے نجی میوزیم ورجینیا میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کیمرہ پانچ سینٹی میٹر سے بھی کم چوڑا اور تقریباً 35 گرام وزنی تھا، جو اس دور کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے نہایت جدید سمجھا جاتا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سی آئی اے کا منصوبہ یہ تھا کہ ایسے کبوتروں کو ماسکو بھیجا جائے اور خفیہ طریقے سے انہیں چھوڑا جائے مثلاً کسی گاڑی کے فرش میں بنے سوراخ سے۔ تاہم، یہ بات آج تک معلوم نہیں ہو سکی کہ کبوتروں کو حقیقت میں کتنی بار اور کہاں کہاں استعمال کیا گیا۔