’’مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘

پلوٹارک یونانی سوانح نگار و مؤرخ تھا جس نے یونان و رومہ کے سپوتوں کے حالاتِ زندگی اور کارناموں کو نہایت دل آویز اور مؤثر انداز سے لکھا ہے۔ اس کی کتاب پیرلل لائیوز کا ترجمہ ہندوستان کے نہایت قابل و باصلاحیت ادیبوں نے کیا ہے۔ یہ تراجم اپنے دور میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

پلوٹارک کی کتاب سکندرِ اعظم کے تذکرے سے کیسے خالی ہوسکتی تھی کہ جس کی شہرت زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تھی۔ وہ تو فاتحِ عالم تھا اور اس کے حالاتِ زیست بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پلوٹارک نے اس کی ذہانت، جرأت اور بہادری کے مختلف واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ یہ ایسا ہی ایک قصّہ ہے جو پلوٹارک کی اس کتاب میں شامل ہے۔ اس کے مترجم خرم علی شفیق ہیں۔

سکندر کی تربیت کے لیے کئی عورتیں اور مرد مقرر کیے گئے۔ ان سب کا سردار لیونی دس نامی ایک شخص تھا۔ یہ نظم و ضبط وغیرہ کے معاملے میں بہت سخت تھا اور سکندر کی ماں کا رشتہ دار بھی تھا۔ لائیکی میکس جو جاہل اور اجڈ تھا ان غلاموں میں سے ایک تھا جن کے ذمے یہ کام تھا کہ صبح کی دوڑ کے وقت اور اس قسم کے دوسرے تربیتی مواقع پر سکندر کے ساتھ رہیں اور اس کا خیال رکھیں۔ یہ شخص سکندر کو ایکیلیز کہتا تھا۔

ایک دن ایسا ہوا کہ تھسلی سے گھوڑوں کا ایک سوداگر مقدونیہ آیا۔ اس کا نام بھی فیلقوس تھا اور یہ بادشاہ کے لیے ایک گھوڑا لایا تھا۔ بیوسیفالس نامی اس گھوڑے کی قیمت اس نے تیرہ ٹیلنٹ بتائی۔ فیلقوس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک میدان میں پہنچا تاکہ گھوڑے کی آزمائش دیکھ سکے۔ آزمائش دیکھ کر وہ سب اس فیصلے پر پہنچے کہ گھوڑا بالکل وحشی ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر سوار نہ ہو سکا تھا اور وہ کسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ ایسا گھوڑا اس کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ اس کے حکم پر گھوڑے کو لے جایا ہی جانے والا تھا کہ قریب کھڑے سکندر نے کہا۔

’’ایک شاندار گھوڑے سے محض اس لیے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں کہ کوئی اسے سدھانا نہیں جانتا یا ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘

فیلقوس خاموش رہا لیکن جب سکندر نے کئی دفعہ یہ الفاظ دہرائے تو وہ بول اٹھا۔

’’کیا تم اپنے سے زیادہ جہاندیدہ لوگوں کو اس لیے بیوقوف سمجھ رہے ہو کہ تمہارا خیال ہے تم ان سے زیادہ جانتے ہو یا گھوڑے کو رام کرنے میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہو؟‘‘

’’کم از کم اس گھوڑے کو قابو میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔‘‘ سکندر نے جواب دیا۔

’’اور اگر تم ایسا نہ کر سکے؟‘‘ فیلقوس نے پوچھا۔

’’تو میں اس گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں گا!‘‘

یہ سن کر حاضرین ہنس پڑے مگر باپ اور بیٹے میں شرط لگ گئی۔ سکندر گھوڑے کی طرف بڑھا، اس کی لگام ہاتھ میں لی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا۔ سکندر نے یہ بات محسوس کی تھی کہ گھوڑا دراصل اپنے سائے سے ڈر رہا تھا۔ کچھ دیر وہ گھوڑے کے ساتھ دوڑتا رہا اور اس پر ہاتھ پھیر کر اسے رام کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی چادر کندھوں سے پھینکتے ہوئے ایک ہلکی سی جست لگائی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کچھ دیر تک اس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑے رکھی تاکہ گھوڑا کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کرے اور جب اس نے دیکھا کہ گھوڑا خوف سے آزاد ہو چکا ہے اور اپنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کو بیتاب ہے تو اس نے اسے تیز دوڑانا شروع کر دیا۔

فیلقوس اور اس کے رفیق یہ تماشا دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ اب کیا ہوتا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ سکندر دوڑ کی حد عبور کر چکا ہے۔ اس نے سرکش گھوڑے کو واپس موڑا جو اب پوری طرح اس کے قابو میں تھا۔ سب لوگوں نے آفرین کے نعرے لگائے اور، کہتے ہیں، فیلقوس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ سکندر نیچے اترا تو فیلقوس نے اسے گلے سے لگا لیا، چوما اور کہا۔

’’میرے بیٹے!تمہیں اپنی امنگوں کی تکمیل کے لیے ایک بہت بڑی سلطنت چاہیے۔ مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘