سکندر کو دنیا عظیم فاتح کے طور پر یاد کرتی ہے اور پلوٹارک کو قبلِ مسیح کے ایک یونانی فلسفی اور مؤرخ کے طور پر پہچانتی ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فن اور فلسفہ کی یہ سرزمین اپنی عظمت و رفعت کھو چکی تھی اور یونان کا اقتدار روم کے ہاتھوں میں آ چکا تھا۔ پلوٹارک نے اسی دور کے یونان اور رومی مشاہیر میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً اس نے عظیم فاتح سکندر اور سیزر کی سوانح کو ایک ہی جلد میں شامل کیا اور ان کا بعد کے زمانوں میں کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یورپ میں یہ کتابیں ہر زمانے میں مقبول رہی ہیں۔
یہاں ہم پلوٹارک کی تصنیف کردہ سوانح سے سکندراعظم سے متعلق ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جو ناول کی طرز پر مکالماتی انداز کا ہے۔ اس میں سکندر اور اس دور کے مشہور فلسفی دیوجانس کے درمیان شہرۂ آفاق مکالمہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ دیو جانس کے افکار نے آنے والے زمانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس اقتباس میں سکندر کے آہنی عزم و ارادے کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ پلوٹارک لکھتا ہے:
کارنتھ کے مقام پر یونانی ریاستوں کی مجلس منعقد ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یونان کی تمام سپاہ فارس پر حملے میں سکندر کا ساتھ دیں اور سکندر کو ان سپاہ کا کمان دارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
یونان کے کئی مشہور سیاستدان اور فلسفی اسے مبارکباد دینے آئے۔ سائنوپ کا مشہور فلسفی دیوجانس بھی ان دنوں کارنتھ میں موجود تھا اور سکندر کو امید تھی کہ وہ بھی اس کے پاس آئے گا لیکن جب اس نے سکندر کی طرف کوئی توجہ نہ دی تو سکندر خود اس کے پاس پہنچ گیا۔
دیوجانس (یونانی فلسفی) کارنتھ کے نواح میں کرانیون نامی جگہ پر پڑا تھا۔ سکندر اس کے پاس گیا تو وہ زمین پر لیٹا دھوپ سینک رہا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر دیوجانس نے کہنی کا سہارا لیتے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور سکندر پر نگاہیں جما دیں۔ سکندر نے پوچھا۔
’’میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں ،‘‘ فلسفی نے جواب دیا۔ ’’ذرا ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو جاؤ تاکہ دھوپ نہ رکے!‘‘
سکندر اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور اس شخص کے لیے اس کی قدر بڑھ گئی جو اتنے آزاد ذہن کا مالک تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست دیوجانس کا مذاق اڑا رہے ہیں تو اس نے ان سے کہا۔
’’تم لوگ جو بھی کہو لیکن اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیوجانس ہوتا!‘‘
اس کے بعد اس نے ڈیلفی کے مندر کا رخ کیا تاکہ فارس پر حملے کی مہم کے بارے میں شگون حاصل کر سکے۔ اتفاق سے وہ ان دنوں میں وہاں پہنچا جب شگون نکالنا منع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے کاہنہ سے جواب طلب کیا۔ کاہنہ نے انکار کیا اور بتایا کہ ان دنوں معجزے سے جواب طلب نہیں کیا جا سکتا۔ سکندر خود اس کے پاس گیا اور اسے زبردستی مندر کی طرف لے جانے لگا۔ آخر سکندر کے اصرار پر مجبور ہو کر اس نے کہا۔
’’میرے بچے تمہیں روکا نہیں جا سکتا!‘‘
یہ سن کر سکندر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ اب کسی اور شگون کی ضرورت نہیں۔
بعض اور حیرت انگیز اتفاقات بھی اس موقعے پر رونما ہوئے جب سکندر فارس پر حملے کے لیے روانہ ہونے والا تھا، مثلاً اورفئس کا مجسمہ جو جزیرہ قبرص سے درآمد شدہ لکڑی کا بنا ہوا تھا پسینے میں نہا گیا۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے لیکن کاہن ارسٹانڈر نے کہا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سکندر اپنی اس مہم کے دوران ایسے شاندار کارنامے انجام دے گا جو ادب، شاعری اور نغموں کی صورت میں زندہ رہیں گے لیکن شاعروں اور موسیقاروں کو انہیں لکھنے کے لیے بہت عرق ریزی کرنا پڑے گی۔‘‘