نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں کشمیر ہندوستان کا نہ تھا نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مظفر آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا نہ تھا نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کا یکطرفہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہیں اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ حریت قیادت کو فی الفور رہا کیا جائے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہندوستان اپنی حد میں رہے اپنی حد کو کراس نہ کرے، کوئی عدالت یا کوئی بھی کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ وکالت اپنی زمین کی ہے ہم اپنی زمین اور لوگوں کی وکالت کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو ہم پاکستانی شہری سمجھتے ہیں اور ہم اپنے شہریوں کے حقوق کی پامالی کسی صورت نہیں ہونے دیں گے، اس کے لیے جہاں جہاں کارروائی کی ضرورت ہوئی کارروائی بھی کریں گے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے چار بونے بٹھا کر فیصلہ کیا۔ کیا اس سے تحریک ختم ہو جائے گی؟ اب کشمیر کی بات آگے چلے گی اور اس معاملے پر پاکستانی اور کشمیری قیادت متحد ہو کر نظر آئیگی۔ کشمیری قیادت کے ساتھ طویل مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ جلد ہی اسلام آباد میں دوبارہ اجلاس ہوگا، جہاں تحریک کو کیسے جلا بخشنی اور کیسے بڑھاوا دینا ہے اس پر بات چیت ہوگئی، اس میں پاکستانی حکومت، حریت قیادت، کشمیر، صحافی اور وکلا سمیت تمام طبقات حصہ لینگے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس معاملے پر وزارت خارجہ اورہمارے مشن متحرک نظر آئیں گے۔ تاہم یکطرفہ وزارت خارجہ کچھ نہیں کرے گا بلکہ کشمیری قیادت کو بھی شامل کیا جائے گا اور اس میں ان کی معاونت اور رہنمائی بھی شامل ہوگی۔ اس حوالے سے کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے ان سے رابطے میں بھی رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں محصور خواتین کو واپس لانے کیلیے بھی ہم وزارت خارجہ کے ذریعے اقدامات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1989 سے کشمیر کی تحریک جتنی ابھری اس سے پہلےنہیں تھی، یہ تحریک ختم نہیں ہو رہی یہی بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سیاسی اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ اس تحریک میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شہید، ہزاروں ماؤں بہنوں کے ساتھ ریپ ہوا۔ ایسے واقعات قومیں صدی تک نہیں بھولتیں۔ یہ سوال میں بھارتی سول سوسائٹی سے بھی پوچھوں گا کہ اگر کسی خاندان میں سے کسی کا ریپ ہو تو کیا وہ اس کے وجود کا حصہ رہے گا؟