بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ احتجاج شدید ہوگیا جس کے باعث ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں پر کوٹے کے خلاف طلبہ احتجاج پورے مل میں پھیل چکا ہے اور مختلف علاقوں میں پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپوں میں 4 طلبہ سمیت 6 افراد ہلاک اور چار سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
پرتشدد واقعات کے بعد حکومت نے احتجاج پر قابو پانے کے لیے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
طلبہ حکومت کے کوٹہ سسٹم خلاف رواں ماہ کے اوائل سے کیمپس میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر کوٹہ سسٹم کا نظام متعصبانہ ہے اس کی اہلیت کا معیار صرف میرٹ ہونی چاہیے۔ ان کا یہ مطالبہ ہے کہ نظام میں اصلاحات اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔
یہ احتجاج جاری تھا کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والوں سے تشبیہہ دی جس نے جلتی پر تیلی کا کام کیا اور مظاہرین بپھر گئے۔
اس کے بعد دارالحکومت ڈھاکا سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران کوٹہ سسٹم کے خلاف اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبا کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئیں جن میں لاٹھیوں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال ہوا جب کہ پولیس کی جانب سے بھی مظاہرین پر آنسو گیس فائر اور ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں جس نے چھ خاندانوں کے چراغ گل اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا جب کہ احتجاج کی قیادت کرنے والوں نے اس تشدد کا ذمے دار عوامی لیگ کو قرار دیا ہے۔
بڑھتے احتجاج کے بعد بنگلہ دیش کی عدالت نے گزشتہ ہفتے کوٹہ نظام معطل کر دیا تھا لیکن مظاہرین کا مطالبہ ہے اسے مستقل بنیادوں پر ختم کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی سرکاری ملازمتوں میں سے 30 فیصد ان خاندانوں کے لیے مختص ہیں جن کے لوگوں نے 1971 میں ملک کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔