سیف الدّین سیف: مشہور نغمہ نگار اور کام یاب فلم ساز کا تذکرہ

سیف الدّین سیف کی وجہِ شہرت ان کی فلمی نغمہ نگاری ہے لیکن تقسیمِ ہند کے موضوع پر بطور مصنّف اور ہدایت کار بھی ان کی ایک فلم کرتار سنگھ یادگار ثابت ہوئی۔ اس فلم کو بہت پذیرائی ملی۔ سیف الدّین سیف نے اپنے سفر کا آغاز فلم تیری یاد سے کیا تھا جس میں ان کے تحریر کردہ چار گیت شامل کیے گئے تھے۔ اسے پاکستان کی پہلی فیچر فلم کہا جاتا ہے۔

12 جولائی 1993ء کو نغمہ نگار، فلم ساز اور ہدایت کار سیف الدّین سیف وفات پاگئے تھے۔ وہ 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں، امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، بعد میں ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں اُس وقت پرنسپل کے عہدے پر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر جیسی علمی و ادبی شخصیت جب کہ انگریزی کے لیکچرار کی حیثیت سے فیض احمد فیض موجود تھے اور انہی شخصیات کے زیرِ اثر سیف الدّین سیف میں علمی و ادبی ذوق پروان چڑھا۔

سیف نے بعد میں‌ فلمی مکالمے لکھنا اپنا ذریعۂ معاش بنایا اور پھر وہ گیت نگار کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں شروع ہی سے شعر و سخن سے دل چسپی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ فلم نگری کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہاں‌ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرکے نام و مقام بنانے میں کام یاب رہے۔ سیف الدّین سیف نے غزل اور رباعی کہنے کے ساتھ طویل اور مختصر نظمیں لکھیں‌ اور گیت نگاری میں‌ نام کمایا۔ ان کی اصل شہرت تو گیت نگاری ہے، لیکن اصنافِ سخن میں‌ غزل ان کی محبوب صنف تھی اور انھوں نے کئی خوب صورت غزلیں کہی ہیں۔

نغمہ نگار کے طور پر ان کا پہلا سپرہٹ گیت "تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” ہے جسے اقبال بانو کی آواز میں سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا اور یہ گیت آج بھی مقبول ہے۔ بعد میں‌ ان کے لکھے ہوئے کئی گیت مقبول ہوئے اور فلموں کی کام یابی میں بھی ان کا دخل رہا جن میں اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ فلم امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا لکھا ہوا ہے۔ سیف صاحب نے ڈیڑھ درجن سے زائد فلموں کے لیے تنہا گیت نگاری کی اور کئی فلموں میں‌ دوسرے شاعروں کی طرح ان کے نغمات بھی شامل تھے۔ پہلی بڑی فلم سات لاکھ (1957) تھی جس کے تمام گیت انہی کے لکھے ہوئے تھے اور سبھی گیت سپرہٹ ثابت ہوئے تھے۔

پاکستان فلم انڈسٹری سے متعلق کتابوں میں درج ہے کہ بطور فلم ساز سیف الدّین سیف نے سات فلمیں بنائی تھیں جن میں فلم رات کی بات (1954) پہلی فلم تھی جب کہ کالو (1977) اس حیثیت میں ان کی آخری فلم تھی۔ اس کے علاوہ سیف الدّین سیف کو بطور ہدایت کار چار فلموں کے لیے یاد رکھا جائے گا جن میں کرتار سنگھ سرِفہرست ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت پر مبنی فلم تھی جس پر بڑی محنت کی گئی تھی۔ 1959ء کی اس فلم میں ایک ایسے گاؤں کا نقشہ کھینچا گیا تھا کہ جہاں ہندو، مسلمان اور سکھ گھرانے مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ ملک کی تقسیم کا اعلان ہوتا ہے تو بدقسمتی سے سماج دشمن عناصر، جرائم پیشہ اور مفاد پرست سیاست داں‌ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنگا فساد، قتل و غارت کروا کے وقتی طور پر اپنا مقصد پورا کرنے میں کام یاب رہتے ہیں لیکن واقعات بتاتے ہیں‌ کہ یہ سب کرنے کے باوجود وہ انسانیت کو شکست نہیں دے سکے۔ فلم کرتار سنگھ کا مرکزی خیال یہی تھا۔ اس میں مرکزی کردار علاءُ الدّین جیسے لیجنڈ نے نبھایا تھا۔

مشہور نغمہ نگار اور کام یاب فلم ساز سیف الدّین سیف لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔