14سالہ لڑکی سے شادی ، خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے، جسٹس عائشہ ملک برہم

لڑکی اغوا شادی

اسلام آباد : جسٹس عائشہ ملک نے 14 سالہ لڑکی کے اغوا اور شادی کے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لڑکی کے اغوا اور شادی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نےسماعت کی۔

درخواست گزار والد متاثرہ لڑکی نے کہا کہ لڑکی نابالغ تھی ، اغوا کرکے شادی کی گئی، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اس بچی کی عمر شادی کرنے کی ہے ہی نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کم عمری شادی کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر اس کے خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے، 18سال سے کم عمر کی لڑکی کی مرضی کا عدالت اور پولیس جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک کیا تفتیش کی؟ لڑکی کے بیان پر تفتیش کیسے بندکر سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ معصوم اور ناسمجھ ہے،متاثرہ لڑکی کی 2 بیٹیاں بھی ہیں ، انکا مستقبل اب کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے متاثرہ لڑکی کے خاوند سے استفسار کیا آپ کی لڑکی کے والدین سے صلح نہیں ہو سکتی ؟ جس پر خاوند متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ یہ صلح کے بدلے میری بہن کیساتھ اپنے بیٹے کی شادی کرانا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ متاثرہ لڑکی کا والد بدلہ لے رہا ہے۔

چیف جسٹس نے متاثرہ لڑکی کو روسٹرم پر بلا لیا ، جسٹس عائشہ ملک نے متاثرہ لڑکی سے استفسار آپ کس کیساتھ جانا چاہتی ہیں ؟ تو لڑکی نے کہا کہ میں والدین کیساتھ جانا چاہتی ہوں۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے والدین اپنے بچوں کا برا نہیں سوچتے۔

سپریم کورٹ نے 14سالہ لڑکی اور اس کی 2 بیٹیاں والدین کے حوالے کر دیں اور لڑکی کا میڈیکل کراکر اصل عمر کی تصدیق اور خانیوال پولیس کو ایک ماہ میں تفتیش مکمل کرنےکا حکم
دیا۔

عدالت نے کہا کہ لڑکی کا شوہر بلاوجہ اپنی بیوی کو تنگ نہ کرے اور پولیس تفتیش میں تعاون کرے، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئےملتوی کردی۔