سچ کو75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہرمن اللہ

اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈر پھانسی چڑھتا، سچ کو75سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے سپریم کورٹ میں ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کا عدلیہ پر کوئی اثر نہیں ہوناچاہیے اور جج کوتوکبھی کسی قسم کی تنقید سے گھبرا ہی نہیں چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جج پر کتنی بھی تنقید ہو اگروہ کسی قسم کا اثر لیتا ہے تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے، کسی جج کویہ نہیں سوچناچاہیےکہ کورٹ رپورٹ کومنع کرے، اثر انداز ہو کہ کیا کرنا چاہیے۔

جج سپریم کورٹ نے کہا کہ سچائی سچائی ہی رہتی ہےجھوٹ جنتابھی بولاجائےآخرمیں فتح سچ کی ہی ہوتی ہے، پاکستان کی آدھی تاریخ ان حالات میں گزری جہاں اظہاررائے کی گنجائش نہیں تھی ، صحافیوں کاآزادی اظہار رائے کیلئےبہت کلیدی کردار رہا، انہوں نے کوڑے بھی کھائے۔

انھوں نے بتایا کہ میں نے کورٹ رپورٹرزسےبہت کچھ سیکھاہے، مجھے اظہار رائے پر کچھ کہنے کی ضرورت اس لیےنہیں کیوں کہ ہم جواب دہ ہیں، شروع سے ہی آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگائی گئیں، بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپانہیں سکتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر 2قسم کی تنقیدہوتی ہے، ایک وہ تنقیدجب الزام لگایاجاتاہےکوئی دانستہ طور پر فیصلے ہو رہے ہیں اور ایک وہ تنقید ہوتی ہے جس کومیں پسندنہیں کرتااس کوریلیف کیوں ملا، وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے، ہر تنقید کرنے والا اس عدالت پر ہی اعتماد کرے یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ 71میں مغربی پاکستان کے لوگوں کویکسرمختلف تصویردکھائی گئی،یہ ہی ہوتاہے، ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھناچاہیےہم کس طرف جارہےہیں، کیاہم اصول پر کھڑے ہیں؟ یا دھڑے بندی کا شکار ہے معاشرہ مرضی کا فیصلہ اور گفتگو چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اظہارائےکوکبھی بھی د بانےکی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کوئی اگر غلط کہتا ہے تووہ خود بے نقاب ہو جائے گا وقت کے ساتھ، ٹیکنالوجی کا دورہے،ریاستیں اظہا رائے کو قابو نہیں کرسکتیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈرپھانسی چڑھتا،سچ ہر ایک کو پتہ ہے اور 75سالوں سے پتہ ہے لیکن ہمیشہ دبانے کی کوشش کی، سچ کو 75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئےہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج نے بتایا کہ میرےبارےمیں میں بھی کہاگیاواٹس ایپ پرکسی سےتعلق میں رہتےہیں، ہر دور میں کسی نہ کسی نے مجھے 2 فلیٹ دلوا دیے، ان باتوں سے کیا مجھے کوئی فرق پڑا؟ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ایک غریب قیدی نےمجھ سےپوچھاکیاحالات ٹھیک ہوجائیں گے، میں نےقیدی سےپوچھاتم بتاؤ کیا ہمارے معاشرے کے اقدار اصولوں اور سچائی پر مبنی ہیں، میرے پوچھنے پر قیدی فوراً ہنس پڑا اور کہا یہ سچائی کا دور نہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ بہت ساری قوتیں 18ویں ترمیم کی مخالف تھیں، اس وقت ایک تاثرہواسپریم کورٹ 18ویں ترمیم کو ختم کردےگی، اعتزاز احسن نے پوچھا 18ویں ترمیم ختم ہوگی توکیا کریں گے،میں نے کہا وکالت چھوڑ دوں گا ، کوئی اگر غلط کام نہیں کر رہا تواس کو گھبرانا نہیں چاہیے۔

جج سپریم کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جمہوری معاشرےمیں اظہاررائےپرکسی قسم کی قدغن نہیں ہونی چاہیے، بے جا تنقید بھی ہمارے لیے اچھی ہے کیوں کہ سچائی جب نکلتی ہےتوفتح اسی کی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آغاز ہی سے آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگیں، قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر ریاستی سینسر کرنے پر لامتناہی سلسلہ شروع ہوا،آمریت میں آزادی اظہار رائے ممکن ہی نہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ عالمی اصول ہے کتنا ہی کوئی بڑا جرم نہ کر لے ثابت ہونے تک معصوم تصور اور لکھا جائے گا، ذولفقار بھٹو کے ٹرائل میں اخبارات میں ان کو ملزم یا معصوم نہیں لکھا گیا تھا، ہم جواب دہ ہیں، میں جج بنا تو پہلا کیس ایک ضمانت کا کیس تھا، سپریم کورٹ کے جج کے خلاف بینر لگانے پر 16 سال کا ملزم ضمانت کے لیے سامنے تھا،ماتحت عدالت سے ضمانت اس لیے خارج ہوئی کہ اس نے پوری عدلیہ کے خلاف جرم کیا لیکن کسی نے یہ پتا نہیں کرنے کی کوشش کی کہ بینر بنوائے کس نے؟