سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کے استدعا مسترد کر دی

فوجی عدالتوں میں ٹرائل

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوںکی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

نصف گھنٹے کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد جسٹس یحییٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو ہدایت کی کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں اور فائل چیف جسٹس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ ہوا جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کاعمل شروع ہوا، ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کئے گئے؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس فائل میں 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے، اہلخانہ کی زیر حراست افراد سے ہفتے کی بنیاد پر ملاقات ہو سکتی ہے۔ والدین اور دیگر اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دے کر مل سکتے ہیں۔ ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہر ملزم کو بات کرنے کے لیے کچھ منٹس دیے جاتے ہیں، آپ نے خود کہا کہ ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھا کہ جب ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟ پہلے یقینی بنائیں زیر حراست افراد کی والدین سے بات ہو جائے، جب کہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سادہ سوال ہے حراست میں موجود لوگوں کی فہرست پبلک کیوں نہیں کر دیتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کیلیے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا جب کہ صحت کی سہولت سب زیر حراست ملزمان کومل رہی ہیں اور ڈاکٹرز موجود ہیں جب کہ انہیں خوراک کا بھی کوئی ایشو نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی ان کی شکایت کا ازالہ ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے اور عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے اور ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آج ہی ملزمان کا ان کے اہلخانہ سے رابطہ کرایا جائے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ابھی ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں، یہ تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تب بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا اور سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور اگر ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلا کرنے کی مہلت دی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل سے متعلق فی الحال حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔

اس موقع پر درخواست گزار خواجہ احمد حسین کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روک دے اور حکم کر دیں کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا، تمام افراد صرف تحویل میں ہیں تحقیقات ہو رہی ہیں، کسی کو سزائے موت نہیں سنائی گئی، نہیں معلوم کہ اگلے دو ہفتے تک تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کم از کم اٹارنی جنرل کی اسٹیٹمنٹ کو حکمنامے کا حصہ بنایا جائے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ فوجی تحویل میں افراد کو وکیل کا حق دیاجائیگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وکیل کا حق تو قوانین کے تحت ملنا ہی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ ملزمان میں سزائے موت کا ملزم ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سزائے موت صرف غیرملکی رابطوں کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو چارج کی نقول فراہم کی جائیں۔ عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا، کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل جسٹس مظاہر نقوی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہو سکتی ہے لیکن ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں، ایکٹ میں ترمیم سے تحفظ پاکستان ایکٹ ضم کر کے دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور 2017 میں ترمیم کر کے 2 سال کی دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ قانون میں سقم ہے اور یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے، آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، اس موقع پر انہوں نے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کے کیسز کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام لگا تھا مگر ان کو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے، اٹارنی جنرل سے ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو والدین کیلیے فائدہ مند ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا، ان پر تو پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو سمجھ آتی ہے پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں اور ان سے تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے۔ ملزمان کا اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے، صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد درخواست گزار زمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے۔