اسلام آباد : مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ مولا فضل الرحمان کے گھر سر کے بل جاسکتے ہیں تو باقی جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔
تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ اجلاس میں اتفاق کرتاہوں کہ انتخابات کی تاریخ خوشگوار نہیں رہی بلکہ افسوسناک رہی ، 1977 میں جو انتخابات ہوئے اس میں بھی دھاندلی کا شور اٹھا، ایک انتخابات ملک توڑدیتاہےدوسرےانتخاب کے بعد مارشل لا آیا۔
پی ٹی آئی سینیٹر کے بیان پر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ علی ظفرنےکہاجوآج ہنس رہےہیں کل ان کو سزا ملی تو وہ بھی روئیں گے، جب ان لوگوں نے2018میں حکومت سنبھالی تویہ بات اسوقت یادآنی چاہئےتھے، 2018میں جوکچھ ہواوہ تاریخ کاسیاہ باب ہے، 2018 میں 4 دن بعد نتائج کااعلان ہواتھا۔
ن لیگی سینیٹر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے آپ کی رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے، آپ کہتےہیں سب سےبات ہوسکتی ہےن لیگ اورپیپلزپارٹی سے نہیں ، مولا فضل الرحمان کے گھر سر کے بل جاسکتے ہیں تو باقی جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے، کیا جمہوریت اس طرح چلتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اچھا لگے گا بانوے نشستیں لینے والی پی ٹی آئی، ایم ڈبلیو ایم یا سنی اتحاد کونسل کہلائے، پی ٹی آئی مل جل کرایوان کوبچائے ملک میں سیاسی استحکام لائے، اوراپوزیشن کا کردار ادا کریں۔
پاکستان میں ہونے والے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ 2024 کے الیکشن کے وقت آج بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں، 2018کےالیکشن دیکھ لیں اس وقت نوازشریف جیل میں تھے، 2013میں جب الیکشن ہوئے 4ماہ احتجاجی دھرنا ہوا، الیکشن کے وقت35 پنچکر تھے آج کا نعرہ فارم45ہے۔
ن لیگی رہنما نے مزید کہا کہ اس وقت بھی ایک افسر اٹھے تھےآج کمشنرصاحب اٹھ کھڑےہوئے، اسوقت اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھاپے گئے، آج کہہ رہے ہیں لکشمی چوک پرچھاپے گئے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں آپ جیتے وہاں شفاف الیکشن جہاں ہارےوہاں دھاندلی ہے، جب نوازشریف آئےتوجیل میں ڈال دیاگیاانکی بیٹی کوبھی جیل میں ڈالا گیا، ہمیں توسزائیں سپریم کورٹ دیتی تھی وہاں سے سزا شروع اور ختم ہوتی تھی۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ ہم نے2018میں بیٹھ کراپوزیشن کاکرداراداکیا، گیلپ کے اعداد و شمار کے مطابق سیاسی جماعتوں نے سیٹیں جیتی ہیں۔