مصطفیٰ زیدی کی شکایت اور طفیل احمد کا پُرلطف جواب

جوش ملیح آبادی شاہد دہلوی اردو ادب

مشاہیرِ ادب کے درمیان ذاتی رنجش اور عداوت کے علاوہ شہرت و مقبولیت کی وجہ سے رشک و حسد کا معاملہ بھی رہا ہے۔ لیکن ادبی چپقلشوں کے تعلق سے کئی لطیفے بھی مشہور ہوئے۔ مشفق خواجہ نے قلمی نام سے کئی ایسے جھگڑوں کے علاوہ شخصیات کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی تخلیقات پر اپنے کالموں میں تنقید بھی کی ہے۔

مشفق خواجہ کے فکاہیہ کالم ایک زمانہ میں بہت مقبول رہے ہیں۔ انھوں نے شاہد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کے درمیان چپقلش کے تعلق سے نومبر ۱۹۹۵ کے ایک کالم میں لکھا جو پُرلطف ہے:

’’مصطفیٰ زیدی نواب شاہ سندھ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے ایک ادبی کانفرنس منعقد کی اور اس میں شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کو مدعو کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان دونوں میں زبردست معرکہ آرائی ہو رہی تھی۔ مصطفیٰ زیدی نے ان دونوں بزرگوں کو کراچی سے نواب شاہ لے جانے کا کام طفیل احمد جمالی کے سپرد کیا۔ سفر ریل گاڑی سے کرنا تھا، اس لیے جمالی نے ایک گاڑی سے جوش صاحب کو روانہ کیا اور دوسری سے شاہد صاحب کو لے کر وہ خود نواب شاہ پہنچے۔ مصطفیٰ زیدی نے جمالی سے کہا:

’’اگر آپ ان دونوں کو ایک ہی گاڑی سے لے کر آتے تو مجھے استقبال کے لیے دو مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر آنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔‘‘

جمالی نے جواب دیا: ’’آپ کو اپنی زحمت کا تو خیال ہے لیکن اس کا خیال نہیں کہ اگر یہ دونوں بزرگ ایک ساتھ سفر کرتے اور راستے میں ان کے درمیان صلح ہو جاتی تو اس حادثے کا کون ذمہ دار ہوتا؟‘‘

خواجہ صاحب نے مزید لکھا: ’’اس واقعے سے جو اخلاقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اس کی بنا پر ہمارا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو کسی محفل میں یک جا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘