شاہدہ قاضی: عملی اور تدریسی صحافت کا بڑا نام

شاہدہ قاضی پاکستان کی ایک سینئر صحافی، استاد اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے شہرت رکھتی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 28 اکتوبر 2023 کو وفات پانے والی پروفیسر شاہدہ قاضی کی پاکستان میں شعبۂ صحافت اور شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کی پہلی طالبہ، صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر اور جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کی پہلی خاتون استاد تھیں۔

عملی اور تدریسی؛ دونوں ہی طرز کی صحافت میں پروفیسر شاہدہ قاضی نے منفرد اور مثالی کام کیا۔ سینئر صحافی اور ناول نگار اقبال خورشید کے ایک انٹرویو سے یہاں چند اقتباسات نقل کررہے ہیں، جو پروفیسر شاہد قاضی کی ذاتی زندگی، ان کے افکار و خیالات اور ان کی اپنے شعبہ میں خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ اقبال خورشید لکھتے ہیں: پوری ایک نسل نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد میدان صحافت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اُن کے افکار کا ماخذ وہ علمی و ادبی گھرانا ہے، جہاں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ وہاں کتابوں کی فراوانی تھی۔ خواتین کی تعلیم کا تصور سانس لیتا تھا۔ یہ ممتاز اسکالر، علامہ آئی آئی قاضی کا خاندان تھا۔ دادو کے قریب واقع گاؤں ”پاٹ” اُن کا آبائی وطن ہے۔ 1944 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کے بہ قول؛ تقسیم کے وقت پاٹ میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔

والد، قاضی محمد حسن تاجر تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی سرگرم۔ وسیع المشرب۔ حلقۂ یاراں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل۔ چار بہنوں، ایک بھائی میں وہ چوتھی ہیں۔ بڑی بہن، خاندان میں ایم اے کرنے والی پہلی خاتون۔ باقی دو ڈاکٹر۔ بچپن میں خاصی کم گو اور شرمیلی ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری میں کتابوں سے تعلق قائم ہوگیا۔ پریوں کی کہانیوں، الف لیلہ کے قصّوں سے ابتدا ہوئی۔ تیزی سے سفر طے کیا۔ ڈکنز اور جین آسٹن کو کم سنی میں پڑھ ڈالا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول توجہ کا محور رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اُکسایا۔ پانچویں جماعت میں جب پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھا، تو پنڈت جواہر لعل نہرو کا چناؤ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

سینٹ لورنس کانونٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹ جوزف کالج سے 63ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ شوق مطالعہ کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ وہاں شریف المجاہد، انعام الرحمان، محسن علی اور زکریا ساجد جیسے اساتذہ کی سرپرستی میسر آئی۔ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے ”بیج” کا حصہ تھیں۔ اکلوتی طالبہ۔ مشکلات پیش آئی، البتہ اساتذہ کی شفقت نے حوصلہ دیا۔ 65ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا۔

سینئر صحافی اقبال خورشید پروفیسر صاحبہ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں، ابتدا میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے نے اپنی سمت کھینچا۔ چند اداروں میں انٹر شپ بھی کی، مگر خود کو ماحول سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں گزرا۔ اس دوران انگریزی اخبارات و رسائل میں مضامین شایع ہوتے رہے۔ ایک روز ”ڈان” میں اپنا مضمون دینے گئیں، تو سٹی ایڈیٹر، شمیم احمد نے بہ طور رپورٹر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ خواتین کا رپورٹنگ میں آنے کا تصور ناپید تھا۔ تھوڑا گھبرا گئیں، مگر والد کی حوصلہ افزائی نے مشکل آسان کردی۔ 65ء میں ”ڈان” سے منسلک ہوگئیں۔ دو برس بعد پی ٹی وی میں اسامیوں کا اعلان ہوا۔ قسمت آزمائی۔ بہ طور نیوز پروڈیوسر انتخاب ہوگیا۔ پی ٹی وی کے ذیلی ادارے ”ایشین ٹیلی ویژن سروس” سے سفر شروع کیا۔ پھر نیوز روم کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی وی میں اٹھارہ برس گزرے۔ علیحدگی کے سمے سینئر نیوز ایڈیٹر تھیں۔

ٹیچنگ کی جانب آنے کا فیصلہ تدریسی صحافت کے جگت گرو، زکریا ساجد کے اصرار پر کیا۔ 85ء میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ذمے داریاں سنبھالیں۔ 97ء میں چیئرپرسن بنیں۔ 2004 میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کے بعد جناح یونیورسٹی فور ویمن، ناظم آباد میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ہوگئیں۔ وہاں یہ شعبہ نیا نیا تھا۔ اُسے مستحکم کیا۔ جامعہ کراچی میں بھی شام کے اوقات میں کلاسیں لیتی رہیں۔ 2010 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ 2014 میں جامعہ کراچی لوٹ آئیں۔ تدریسی صحافت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شاہدہ صاحبہ کے مطابق صحافت کے طلبا کی نظری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ کلیہ اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی باعث شعبۂ ابلاغ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اُن ہی افراد کو تدریس کے لیے چُنا، جو عملی تجربے کے حامل تھے۔ جرنلزم کے استاد کے لیے وہ کم از کم دس برس کا تجربہ لازمی ٹھہراتی ہیں۔

حقوق نسواں کی وہ الم بردار، مگر شکایت ہے کہ آج اِن سرگرمیوں نے فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیرکبیر گھرانوں کی خواتین، منہگے ہوٹلز میں اکٹھی ہوتی ہیں، مسائل پر بات کرتی ہیں، اور لنچ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ جس طبقے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک خواتین سے زیادہ سماج کے مردوں میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے اپنی پہلی کتاب میں ”ٹیلی ویژن جرنلزم” کا احاطہ کیا۔ وہ اِس موضوع پر کسی پاکستانی کے قلم سے نکلی اولین نصابی کتاب تھی۔ "Pakistan Studies in Focus” اگلی کتاب، جو ایک نجی ادارے کے طلبا کے لیے لکھی گئی۔ "Black White and Grey” مطبوعہ مضامین کا مجموعہ۔

زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے، جن کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ مثبت سوچ اُن کا اصول۔ کینہ، بغض اور حسد سے خود کو دُور رکھتی ہیں۔ تلخ واقعات بھول جانے پر یقین رکھتی ہیں۔ لمحۂ موجود سے محظوظ ہونے کا طریقہ کھوج نکالا ہے۔ شعرا میں غالب، فیض اور راشد کی مداح۔ قرۃ العین حیدر کی معترف۔ روسی ادب کی دل دادہ۔ دوستوفسکی کا ”جرم و سزا” پسندیدہ ناول۔ پاؤلو کوئلیو کی ابتدائی تحریریں اچھی لگیں، مگر اُن کے نزدیک اب وہ فقط پیسے کے لیے لکھ رہے ہیں۔ کشور کی آواز بھاتی ہے۔ ”پیاسا” اور ”کاغذ کے پھول” پسندیدہ فلمیں۔ گرودت کو سراہتی ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں ضمیر نیازی اور منہاج برنا کا نام لیتی ہیں۔