شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن اقبال کو جن لوگوں سے گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے۔ انہی گنے چنے لوگوں میں ایک سر راس مسعود تھے۔ راس مسعود کی پہچان کا ایک بڑا حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عظیم مصلح اور ادیب سرسیّد احمد خان پوتے تھے۔
اردو کے فاضل ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر راس مسعود 1937ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ سر راس مسعود کے حالاتِ زندگی، علمی و ادبی ذوق اور ان کی اپنے شعبہ میں خدمات کا ذکر کئی اہلِ قلم نے کیا ہے۔ اردو کے صاحبِ طرز ادیب سیّد یوسف بخاری دہلوی کی کتاب ”یارانِ رفتہ“ سے یہ اقتباس ان کی شخصیت کی جھلک دکھاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"سر راس مسعود کی شخصیت اور اُن کی زندگی کے کارنامے جو جریدہ عالم پر ثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔ اکتوبر 1935 میں اپنے عزیز دوست پروفیسر محمد اختر انصاری علیگ کے ہاں علی گڑھ میں مہمان تھا۔ اسی مہینے کے آخری ہفتہ میں مولانا حالی مرحوم کا صد سالہ جشن (سال گرہ) پانی پت میں ہونے والا تھا۔ وہ جذبہ تھا یا صوتِ حالی، اسی خیالی رو میں اختر کے ہمراہ بہہ کر پانی پت میں جا نکلا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ رضا کار جلسہ گاہ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں خیموں کی ایک عارضی بستی میں لے گئے۔ باقی رات ہم نے ایک خیمے میں گزاری۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نواب صاحب بھوپال کے استقبال کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔
میں گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا کہ ناگاہ میرے کانوں میں ”یوسف“ کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرے قریب میرے عم بزرگوار شمس العلما سید احمد، امام جامع مسجد دہلی کھڑے تھے۔ فرمایا ”تم بھی جلسے میں آئے ہو؟“
”جی ہاں“ میں نے جواباً عرض کیا۔ فرمانے لگے۔ ”سنو نواب حمید اللہ خاں کے ہمراہ راس مسعود بھی آرہے ہیں، میرے ساتھ رہنا، موقع پاکر تمہیں اُن سے بھی متعارف کرا دوں گا۔ یہ مسعود رشتے میں میرا بھتیجا ہے۔“ یہ ہم رشتہ ہونے کی بات پہلے بھی میرے کانوں میں پڑچکی تھی۔ لیکن اُس کی کڑیاں آج تک پوری طرح نہیں ملیں۔ خیر میں تو اس لمحے کا پہلے ہی سے متمنی تھا۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا۔
”میں نواب سَر راس مسعود کو اپنی کتاب ’موتی‘ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے اُن کو اپنا رومال دکھایا جس میں وہ کتاب لپٹی ہوئی تھی۔ ”اچھا! تو تم اس لیے یہاں آئے ہو۔“ معاً گاڑی آگئی۔ والیِ بھوپال کے شان دار استقبال اور اُن کی روانگیِ جلسہ گاہ کے بعد امام صاحب نے راس مسعود سے میرا تعارف کرایا، ”مسعود! یہ میرے چھوٹے بھائی حامد کا بڑا لڑکا یُوسف ہے۔ یہ تمہیں اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہے۔“ سَر راس مسعود نے یہ سُن کر میرا سلام لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا، ”ہاہا! میرے بھائی کا بچہ یوسف ثانی! آؤ جانی میرے گلے لگو۔“
پھر کتاب لے کر فرمایا، ”میں اسے کلکتہ سے واپس آکر اطمینان سے پڑھوں گا۔ بھوپال پہنچ کر تمہیں اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔“ اس کے بعد ہم دونوں جلسہ گاہ میں گئے۔ امام صاحب آگے آگے میں اُن کے پیچھے پیچھے، جب اسٹیج کے قریب آئے تو امام صاحب کو اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میں فرش پر پہلی قطار میں ایک خالی کرسی پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ سَر راس مسعود نے اپنی گردن کے اشارے سے مجھے اوپر بلایا۔ پھر اُنگلی سے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس کے مصداق یہ جگہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔
اس ایک روزہ اجلاس کی تمام کارروائی مقررہ نظام کے مطابق انجام پذیر ہوئی۔ اس نشست میں ان آنکھوں کو ڈاکٹر اقبال کا پہلا اور آخری دیدار نصیب ہوا۔ وہیں میرے کانوں میں وہ نوائے سروش بھی گونجی جس کی مجھے ایک مدّت سے تمنا تھی۔ وہ خطبہ حمیدیہ بھی سُنا جو والیِ بھوپال نے ارشاد فرمایا تھا اور وہ اعلان عطیہ بھی جو مرحوم راس مسعود نے والیِ بھوپال کے ایما پر کیا تھا۔ جلسے کے اختتام سے قبل راس مسعود نے حاضرین اسٹیج میں سے بعض کو وہ رقعات بھی تقسیم کیے جو جلسے کے بعد ظہرانہ کے متعلق تھے۔ رقعات دیتے وقت جب وہ میرے قریب آئے تو بااندازِ سرگوشی فرمایا، ”یوسف! تم بھی جلسے کے بعد ہمارے ہی ساتھ کھانا کھانا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کاش اُس دعوت کا وہ فوٹو مجھے حاصل ہوتا جس میں، میں امام صاحب کے پہلو میں اور اُسی صف میں یکے بعد دیگرے نواب صاحب بھوپال، سر راس مسعود اور ڈاکٹر اقبال جیسے اکابرِ وقت شریک طعام تھے۔”
تذکرہ نویسوں نے راس مسعود کے حالاتِ زندگی یوں تحریر کیے ہیں…. وہ سیّد محمود کے گھر 15 فروری 1889ء کو پیدا ہوئے، راس مسعود نے گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور پانچ سال کی عمر میں اسکول جانے لگے۔ بعد میں ان کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور کچھ عرصے بعد انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔
راس مسعود عملی زندگی میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ آزادی کی تحریک کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔ وہ 1929ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے تھے۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ تحریکِ آزادی سے متعلق جلسوں میں تقریر کے ساتھ قلم کا سہارا بھی لیا۔ ان کی چند تصنیف اور تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔ ان کتابیں تعلیمی نظام، نصاب اور کتابچے طریقہ ہائے تدریس کے ساتھ مختلف اصلاحات کی سفارش پر مبنی ہیں۔ راس مسعود نے حیدرآباد دکن میں بھی ملازمت کی اور بھوپال میں بھی وقت گزارا تھا۔
علّامہ اقبال ان سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ وہ راس مسعود کی علمی کاوشوں اور مسلمانوں کے لیے ان کی تڑپ اور مساعی سے بہت خوش ہوتے تھے۔ 1933ء میں جب علامہ اقبال افغانستان کے دورہ پر گئے تو راس مسعود بھی ان کے ہمراہ تھے۔ راس مسعود کی اچانک موت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی زندگی کا بڑا نقصان تھی۔ علامہ اقبال نے ان کی وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی۔ انھیں نظام دکن نے "مسعود جنگ” کے خطاب سے نوازا جب کہ حکومتِ ہند نے راس مسعود کو "سر” کا خطاب دیا تھا۔