وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں مزید کچھ شواہد ملے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں مزید کچھ شواہد ملے ہیں۔ بڑی تعداد میں مزید اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں اور ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزکشنز ہیں۔ ان ٹرانزکشنز پر جواب دہی کیلیے سابق خاتون اول کی سہیلی کو واپس لانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ریاست کے نام پر جو 190 ملین پاؤنڈ آئے وہ خاص کمپنی یا فرد واحد کے اکاؤنٹ میں گئے تھے۔ ریاست کو پیسہ بھی نہیں ملا اور انھوں نے استثنیٰ بھی خود ہی لے لیا، یہ رقم ابھی بھی عدالت عظمیٰ کے خاص اکاؤنٹ میں موجود ہے سپریم کورٹ کو اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے اور اسے سرکار کو واپس دلائے۔
ان کہنا تھا کہ کرپشن کسی بھی معاشرے کیلیے ناقابل قبول ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے عالمی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ جب تک احتساب نہیں ہوگا کرپشن ختم نہیں ہوسکتی، یہ نہیں ہو سکتا کہ کچھ لوگوں کے خلاف احتساب ہو اور باقیوں سے پوچھ گچھ نہ ہو۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ فوج میں بھی آرمی ایکٹ سمیت دیگر قوانین ہیں۔ ججز سے متعلق کیسز بھی سپریم جوڈیشل کونسل جاتے ہیں۔ اس قانون میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے۔ آڈیو لیکس آئیں تو حکومت نے ججز پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا، ان لیکس میں بھی کرپشن کا عنصر ملتا ہے لیکن افسوس کہ کمیشن کی پروسیڈنگ کو روک دیا گیا۔ قانون کا اطلاق ہونے سے پہلے ہی قانون سازی کو نہیں روکا جا سکتا لیکن پارلیمان کے قانون کو نہیں مانا جا رہا ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ انصاف سب کیلیے اور احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قانون کا راستہ روکا گیا ہے۔ ججز کے معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ساتھ نیب بھی دیکھ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ میں نا اہل کیا گیا جس کا اس کیس میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ آنے والے دنوں میں نا انصافیوں پر داد رسی سے ہی عدلیہ کی ساکھ بحال ہوگی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم ان لوگوں کیساتھ نہیں کھڑے جو فرد واحد کو اختیارات سونپنا چاہتے ہیں بلکہ ہم اپنی پارلیمان اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔