دنیا میں سب سے زیادہ ’’931‘‘ قتل کرنیوالے بہرام ٹھگ کی کہانی

دنیا میں کئی سیریل کلرز بھی مشہور ہوئے لیکن آج ہم آپ کو اب تک زمین پر سب سے زیادہ قتل کرنے والے شخص کی کہانی بتائیں گے۔

دنیا جب سے وجود میں آئی اس کے کچھ عرصے بعد ہی زمین پر قتل و غارت گری شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔ ہزاروں برس میں لوگوں نے اپنے دور میں کئی سیریل کلرز دیکھے اور سنے ہوں گے لیکن شاید بہت کم لوگ اس قاتل کو جانتے ہوں گے جس نے دنیا میں سب سے زیادہ 930 انسانوں کو قتل کیا۔

یہ خطرناک قاتل غیر منقسم ہندوستان کا ٹھگ بہرام تھا جس نے انگریزوں کے دور میں گورے حکمرانوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اس کے خوف سے صرف ہندوستانی ہی نہیں کانپتے تھے بلکہ برطانیہ سرکار بھی پریشان ہوگئی تھی۔

ٹھگ بہرام کو بہت سے لوگوں نے ’ٹھگوں کا بادشاہ‘ کہا ہے۔ وہ شمالی وسطی ہندوستان یعنی اس زمانے کے اودھ کے علاقے میں قاتلوں کے ایک گروہ کی قیادت کیا کرتا تھا اور آج سے لگ بھگ دو صدی قبل اس نے پورے ہندوستان میں اپنی دہشت پھیلا رکھی تھی۔

ایک ہندی روزنامے امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق اودھ کے علاقے میں 1790 سے 1840 کے درمیان 50 سال کے عرصے میں بہرام ٹھگ اور اس کے گروہ کے ارکان نے 930 افراد کو رومال سے گلا دبا قتل کیا۔

جب ہندوستان کے وسطی علاقے میں ٹھگوں کا خوف حد سے زیادہ بڑھ گیا اور بہرام برطانوی حکمرانوں کے لیے چیلنج بن گیا تو حکومت برطانیہ نے ٹھگوں اور ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا جس کا نام ’اریڈیکیشن آف ٹھگز اینڈ ڈکیت‘ رکھا گیا جس کا انچارج جیمز پیٹن کو مقرر کیا گیا۔

ایک انگریز افسر فلپ میڈوز ٹیلر نے ’اے کنفیشن آف اے ٹھگ‘ نامی ایک کتاب 1839 میں بہرام ٹھگ اور اس کے گروہ کی گرفتاری کے بعد لکھی جس نے اس سال اینگلو انڈین بیسٹ سیلر کا ایوارڈ جیتا۔

اس کتاب میں فلپ نے بہرام اور اس کے گروہ کے دیگر اراکین کے اعترافات کو لکھا ہے  اور جیمز پیٹن کے حوالے سے کہا ہے کہ ٹھگ بہرام 931 افراد کے قتل میں ملوث تھا اور اس نے گرفتاری کے بعد اس کا اعتراف کیا تھا۔

اس کتاب کے مطابق بہرام اور اس کے گروہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے قتل کے لیے کچھ اصول وضع کر رکھے تھے جن کے مطابق وہ عورتوں، فقیروں اور بچوں پر حملہ نہیں کرتے تھے اور ان کے لیے اولین شرط بغیر خون بہائے قتل کرنا تھی جب کہ وہ اس وقت تک کسی مسافر پر حملہ نہیں کرتے جب تک اس سے کچھ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔

یہ گروپ پراسرار طریقے سے تاجروں، زائرین اور سیاحوں پر حملہ کرنے اور ان کو قتل کرنے کے طریقے تلاش کرتا تھا۔ ٹھگوں میں کچھ مخصوص صلاحیتیں تھیں اور وہ کسی بھی قافلے میں اپنے ہُنر سے گُھل مِل جاتے تھے۔ مسافروں سے دوستی کرتے اور پھر رات گئے اپنے شکار کو بے خبر پا کر وہ رومال سے اس کا گلا گھونٹ دیتے تھے۔ اس رومال میں ایک سکہ بھی بندھا ہوتا تھا جو شاید شہ رگ کو دباتا تھا۔

اس حوالے سے ایک مشہور کتاب ’کنفیشن آف اے ٹھگ‘ میں سید امیر علی نامی ٹھگ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بہرام 200 ٹھگوں کا سردار تھا اور اس نے گروہ کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک گروہ قافلے کے پیچھے کچھ فاصلے پر چلتا اور دوسرا مسافروں کے قافلے سے شناسائی کرتا اور ان کے ساتھ چلتا تھا جب کہ تیسرا گروہ ان سب سے آگے پہنچ کر قبر بناتا اور جب گروہ کے سربراہ کو محسوس ہوتا کہ اب حملہ کرنے کا وقت آگیا ہے تو وہ کسی کوڈ ورڈ کے تحت اشارہ کرتے یا کسی نام کو باربار دہراتے جس سے ٹھگ حملے کے لیے تیار ہو جاتے اور سردار بہرام کے کے اشارے کا انتظار کرتے۔

ان اشاروں میں ’سرتی کھا لو‘، ’پان کھلا دو‘، ’حُقہ پلا دو‘ جیسے اشارے شامل تھے۔ بہرام جب ان الفاظ کا استعمال کرتا گروہ کے افراد مسافروں پر حملہ کر دیتے اور اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بہرام کے پاس پیش کرتے جہاں بہرام رومال میں بندھے سکے سے تب تک اُن کا گلا گھونٹتا رہتا جب تک اُن کی جان نہیں چلی جاتی۔ ہر قتل اور لُوٹ مار کے بعد سامان برابر تقسیم ہوتا تھا۔

سید امیر علی کے مطابق کچھ دنوں بعد ڈولی نام کی ایک لڑکی نے بہرام کے گروہ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد بہرام نے قتل کے انداز میں تبدیلی کی۔ اب وہ اپنے شکار کو حُقہ پلا کر منشیات سے بے ہوش کرتا اور پھر اُن کا سامان لُوٹ کر انہیں قتل کر دیتا تھا تاہم کچھ عرصے بعد دونوں میں لڑائی ہونے لگی جس کے بعد بہرام نے سید امیر علی کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

جب علاقے میں ٹھگی اور قتل کی وارداتیں روز روز ہونے لگیں اور حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو یہ خبر برطانیہ تک پہنچ گئی اور پھر حکومت نے اس کی جانچ اور تدارک کے لیے پانچ تفتیش کار بھیجے لیکن امیر علی کے مطابق بہرام نے اپنے گروہ کے ساتھ مل کر ان سب کو قتل کر ڈالا۔ جس کے بعد 1822 میں ایک انگریز افسر ولیم ہنری سولومن کو تحقیقات کے لیے ہندوستان بلایا گیا اور انہیں ٹھگ اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کرنے والے محکمے کا انچارج بنایا گيا۔

تاہم برطانیہ سرکار کی ٹھگوں کو پکڑنے کی ساری کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ اسی دوران لاڑد ولیم بینٹک کو ہندوستان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔ انہوں نے سلومن کو بہرام کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے لوگ بھرتی کرنے اور انہیں ہتھیاروں سے مسلح کرنے کا حکم دیا۔ 1834 میں بہت کوششوں اور تلاش کے بعد سید امیر علی ولیم ہنری کے ہاتھ لگ گیا جس نے پوچھ گچھ کے دوران اپنے خاندان کی حفاظت کے خوف سے بہرام کے بارے میں تمام معلومات فراہم کیں۔

بالآخر 1839 میں بہرام کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد اس نے ولیم ہنری سے کہا کہ ’مجھے مارنا مت میں سب کچھ بتاتا ہوں‘ اور 931 ہلاکتوں کا اعتراف کر لیا۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جب پولیس نے قتل کے حساب کا سوال کیا تو اس کا جواب بہرام نے کچھ یوں دیا کہ ہر قتل کے بعد ہم آپس میں سامان تقسیم کرتے تھے اور اس وجہ سے قتل کی گنتی 931 ہے یعنی اتنی ہی مرتبہ سامان آپس میں تقسیم ہوا۔ بہرام کی گرفتاری کے کچھ وقت بعد ہی اس کی ٹیم کے ارکان کو بھی پکڑ لیا گیا۔

بہرام اور اس کے گینگ کو 1840 میں جبل پور میں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے وقت اس کی عمر 75 سال تھی۔

بہرام ٹھگ کا 931 افراد کو قتل کرنے کا عالمی ریکارڈ ہے اور قتل کے لیے استعمال ہونے والے سکے کے ساتھ رومال ایک میوزیم میں محفوظ ہے۔