صوفی سرمد کا تذکرہ جن کا سَر جامع مسجد کے چبوترے پر قلم کر دیا گیا!

اردو شاعری میں منصور کے ساتھ ساتھ سرمد کا نام بھی استعارہ کے طور استعمال ہوا ہے۔

سرمد شہید کون ہیں؟ اور انھیں منصور حلاج ثانی کیوں کہا جاتا ہے، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض محققین نے انھیں ایرانی النسل لکھا اور بعض نے یہودی لیکن پھر ان کا اسلام لانا ثابت کیا ہے۔ آزاد خیال یا مذہبی انتہا پسندوں نے ان کو یہودیوں کا جاسوس تک لکھا یعنی ہر ایک نے اپنی تحقیقی اور علمی بصیرت کے مطابق ان کو دیکھا ہے۔ لیکن آخر ان کو کن وجوہات کی بنیاد پر تختہ دار پر لٹکایا گیا اس بارے میں‌ بھی کئی باتیں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرمد کاشانی مغل بادشاہ شاہ جہاں کے آخری عہد میں دلی آئے تھے۔ انھوں نے جامع مسجد کے مشرقی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس اپنا مسکن بنایا تھا۔ وہ اپنے وقت کے بہت مقبول صوفی تھے۔ آخری وقت میں وہ برہنہ رہنے لگے تھے اور کلمہ صرف ’لا الہ‘ تک ہی پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی اور باتیں بھی ان سے علماء اور مذہبی طبقات کی برہمی کا باعث تھیں، لیکن درباری علماء کے فتاویٰ کام کر گئے اور سرمد کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ اورنگزیب نے انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عصری کتب سے پتا چلتا ہے کہ بادشاہ عالمگیر اورنگزیب کے حکم پر جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے، چبوترے پر 1660 میں ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔

مولانا ابو کلام آزاد رقم طراز ہیں کہ “اسلام کے فقہاء کا قلم ہمیشہ تیغِ بے نیام رہا ہزاروں حق پرستوں کا خون ان کے فتووں کا دامن گیر رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی بادشاہ خوں ریزی پر اترتا ہے تو دارالافتاء کا قلم اور سپہ سالار دونوں یکساں طور پر کام دیتے ہیں۔” وہ مزید رقم طراز ہیں کہ جو اسرارِحقیقت کے قریب ہوئے انہیں مصیبتیں اٹھانی پڑیں بالآخر سر دے کر نجات ملی ۔ سرمد بھی اسی تیغ کا شہید ہے۔

صوفی سرمد کا مزار اسی مقام پر بنا ہوا ہے جہاں ان کا سر قلم کیا گیا تھا۔ آج بھی عقیدت مند اس مزار پر حاضری دیتے ہیں۔

(ماخذ: رباعیات سرمد شہید۔ مولانا ابو الکلام آزاد)