اسلام آباد (17 جولائی 2025): وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کیلیے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی جو اصلاحات اور نجکاری کیلیے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی۔
وزیر توانائی اس کمیٹی کے چیئرمین جبکہ وزارت صنعت کے سیکریٹری کنوینر ہوں گے۔ وزیر خزانہ، وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور وزیر اقتصادی امور کمیٹی ارکان میں شامل ہوں گے۔
کمیٹی 30 روز کے اندر وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی جبکہ چینی کی پیداوار، درآمد، برآمد، قیمتوں، سبسڈی اور ذخیرہ اندوزی پر قوانین کا جائزہ لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کے معاملے میں نظرثانی ٹینڈر جاری
اعلیٰ سطحی کمیٹی کسانوں، صارفین کے حقوق، مقامی ضرورت اور تجارتی تقاضوں کے تحت پالیسی مرتب کرے گی، صارفین کے تحفظ اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے خطرے سے بچاؤ کیلیے سفارشات دے گی جبکہ نجکاری شفاف بنانے کیلیے اسٹیک ہولڈرز، بشمول صنعتکاروں، کسانوں اور اداروں سے مشاورت کرے گی۔
وآضح رہے کہ آئی ایم ایف نے چینی پر سبسڈی اور ٹیکس کی چھوٹ دینے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے 7 ارب ڈالر قرض پروگرام متاثر ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ امپورٹڈ چینی 249 روپے میں پاکستان پہنچے گی اور 55 روپے فی کلو سبسڈی دینا پڑے گی لیکن آئی ایم ایف نے سبسڈی دینے اور ٹیکس کی چھوٹ دینے سے منع کر دیا کیونکہ امپورٹڈ شوگر کا بڑا حصہ گھریلو کے بجائے صنعتی صارفین کے استعمال میں جائے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت نے چینی کی درآمد پر دی گئی ٹیکس چھوٹ واپس لینے پر غور شروع کر دیا، درآمد کا فیصلہ مکمل طور پر ختم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔
بتایا گیا کہ نجی شعبے کیلیے دی گئی ٹیکس چھوٹ واپس لینے پر بھی جاری ہے، حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی کی درآمد پر تمام ڈیوٹیز معاف کر دی تھیں۔