یادِ رفتگاں: سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ

سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکی عملی زندگی اور ان کے نظریہ و افکار کو ہندوستانی مسلمانوں کا گراں قدر سرمایہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ انگریز سامراج کے خلاف جس ہمّت اور شجاعت سے میدانِ عمل میں ڈٹے رہے، اس کی مثال تحریک حرّیت میں بہت کم ملتی ہے۔

شاہ صاحب برصغیر کی ان چنیدہ شخصیات میں سے تھے کہ جن کا احترام ہر طبقہ میں پایا جاتا تھا۔ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی مذہبی، سیاسی اور سماجی قیادت کے علاوہ اس دور کی علمی و ادبی شخصیات اور مشاہیر میں بھی یکساں مقبول تھے اور ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ ایک طرف پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا اشرف علی تھانوی اور شاہ عبدالقادر رائے پوری تو دوسری جانب مولانا سید حسین احمد مدنی اور مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی سے ان کی محبت کا تعلق تھا۔ اس کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ محمد اقبال اور مولانا محمد علی جوہر کی عنایات اور ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک جیسے کہنہ مشق صحافیوں کے ساتھ وہ حفیظ جالندھری، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، سیف الدین، حبیب جالب جیسے شاعروں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، پطرس بخاری، نسیم حجازی جیسے ادیبوں کے احباب میں شامل تھے۔ شاہ صاحب کی گوناگوں صفات اور ان کا ہر ایک کے لیے نرم گوشہ رکھنا انھیں اپنے دور کی مقبول شخصیت بناتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ دینی حلقوں کے محبوب تو تھے ہی، مگر دوسری طرف اشتراکی راہ نما کامریڈ محمد اشرف، منشی احمد دین، سبط حسن بھی ان کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ شاہ صاحب نے 21 اگست 1961ء کو ملتان میں رحلت فرمائی اور وہیں آسودہ خا ک ہیں۔

سید عطاء اللہ شاہ بخاری 23 ستمبر1892ء میں صوبہ بہار(انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نجیب الطرفین تھے۔ اوائل عمری میں ہی اردو زبان و بیان کے رموز سے بہرہ ور ہوئے۔ علم کی پیاس پٹنہ سے امرت سَر کے مردم خیز خطے میں لے آئی، تعلیم کا سلسلہ جاری تھاکہ ہندوستان میں تحریکِ خلافت کا آغاز ہوگیا۔ امرت سر ان دنوں سیاست کا مرکز تھا۔ شاہ صاحب بھی سیاست کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے، تعلیم کا سلسلہ موقوف کیا اور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

وہ بہترین خطیب اور ایک زبردست مقرر تھے۔ انھوں نے انگریز راج کے خلاف عوام کی ذہن سازی کی۔ اور ان میں حکومت برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حریت پسندوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے تھے۔ جب انگریزی رعب و دبدبہ عوام کے دل و دماغ پر مسلط ہوچکا تھا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے خیبر سے لے کر کلکتہ تک اور مدراس سے لے کر ہمالیہ تک نئی امنگ پیدا کی۔ ملک کی فضا کو انقلاب زندہ باد کی گونج میں تبدیل کر دیا۔ تحریک ترکِ موالات، تحریک خلافت، تحریک کشمیر، تحریک ختم نبوت ہو یا تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آواز سب تک پہنچی اور لوگ اپنے اس محبوب اور سرفروش راہ نما کی آواز اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ انگریز سامراج کی جیلیں بھرتی چلی گئیں۔ اذیتیں دیتے دیتے انگریز تھک گیا مگر مسلمانوں‌ نے آزادی کا نعرہ لگانا نہیں چھوڑا۔ شاہ صاحب نے اس کام کے لیے شہروں شہروں طوفانی دورہ کیا۔ تحریکِ نمکین کے موقع پر لاہور سے چلے تو امرت سر، جالندھر اور لدھیانہ سے ہوکر سہارن پور، پھر امروہہ اور یوپی، سی پی سے ہوکر بہار اور یہاں سے پھر بنگال میں دیناج پور کے مقام پر گرفتاری دی اور ایک تاریخی فقرہ کہا کہ ’’میں نے پورے ہندوستان کی سرزمین کو انگریزوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے اور اب آگے سمندر ہے لہٰذا اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں۔‘‘

ان کے علاوہ جگہ جگہ تقریبا ایک لاکھ افراد نے گرفتاری دی تھی جب کہ آپؒ نے اپنی زندگی کے تقریباً دس سال قید افرنگ کی نذر کیے۔ آپ مخالفین اسلام کے لیے دو دھاری تلوار تھے جو ہمیشہ کفر و باطل کی طاقتوں کے سر پر لٹکتی رہی۔ اسی طرح منکرین ختم نبوت کو آپؒ کی للکار نے کہیں ٹھہرنے نہ دیا۔ عطا اللہ شاہ بخاری حق گوئی، بہادری، شجاعت، خود داری اور غیرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے جو دل و دماغ پر نقش ہوکر رہ گئی۔ آپ کے ساتھ ہی تاریخ کا وہ دور بھی ختم ہوگیا جو آپؒ کی انوکھی خطیبانہ خوبیوں اور آپؒ کے عزم و استقلال سے روشن تھا۔

انگریز دور میں جیل میں شاہ صاحب کے مختلف واقعات بھی ہمیں تاریخ کی کتب میں ملتے ہیں جن میں چند یہ ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ کو دیناج پور جیل بھیج دیا گیا۔ آپ کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیت العلمائے ہند کے چند رہنما بھی تھے۔ جیل کے دروازے پر وارڈر نے تلاشی لینی شروع کر دی۔ جیل میں سیاسی قیدیوں کے لیے روپے لے جانا سخت منع تھا۔ جن لیڈروں کے پاس رقم تھی انہوں نے واپس کر دی۔ شاہ جی کے پاس بھی ۶۲ روپے کی رقم تھی۔ انہیں جیل میں رقم کی اہمیت کا علم تھا۔ اس لیے ہر قیمت پر یہ روپے اندر لے جانا چاہتے تھے۔ ساتھیوں نے منع کیا، مگر آپ باز نہ آئے۔ آخر تلاشی کرتے کرتے ان کی باری بھی آ گئی۔ انہوں نے بڑے رومال کے پہلو میں روپے باندھ رکھے تھے۔ وارڈر کے دیکھتے دیکھتے انہوں نے رومال اگلے قیدی کے کندھے پر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ تلاشی دینے کے لیے بلند کر دیے۔ اس طرح یہ ۶۲روپے جیل میں پہنچ گئے۔ شاہ جی نے اس رقم سے سگریٹ خرید کر ان سیاسی قیدیوں میں تقسیم کر دیے، جو محض سگریٹ نہ ملنے کے باعث معافی مانگ کر رہا ہو جاتے۔

اسی جیل کا واقعہ ہے۔ ایک روز مولانا آزاد نے بڑے اہتمام سے چائے بنائی اور شاہ جی کو پیش کی۔ شاہ جی نے چائے پی لی اور چپ ہو رہے۔ شاہ جی کو خاموش دیکھ کر انہوں نے خود کہا: میرے بھائی! چائے کیسی رہی؟ شاہ جی بولے کہ ایک چیز کی کمی تھی۔ مولانا آزاد کا ماتھا ٹھنکا اور چہرے پر شکنیں آ گئیں۔ فرمانے لگے: وہ کیا میرے بھائی؟ شاہ جی نے کہا: اس میں زعفران نہیں ۔ مولانا نے اطمینان کا سانس لیا اور فرمایا: ہاں میرے بھائی! پھر وعدہ کیا کہ اگلے روز مزعفر چائے پلائیں گے۔ دوسرے روز زعفران سے معطر چائے تیار تھی، مگر عین اس وقت سپرنٹنڈنٹ دور سے آتا دکھائی دیا۔ مولانا بڑے گھبرائے کیونکہ جیل کے ضوابط کے مطابق دو طرح سے مجرم تھے ایک یہ کہ انہیں مولانا کے پاس آنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ وارڈر کو جل دے کر ان تک پہنچے تھے۔ دوم یہ کہ چائے کا لطف اٹھایا جا رہا تھا۔ آخر مولانا اٹھے اور دور جا کر سپرنٹنڈنٹ کا نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ سپرنٹنڈنٹ کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ وہ پھولا نہ سمایا اور مولانا سے باتیں کرتا ہوا دوسری جانب چلا گیا۔ ادھر شاہ جی مزے سے چائے پیتے رہے۔

شاعروں اور ادیبوں سے آپ کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ سخن فہمی کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ اس لیے شعرا آپ کو اپنا کلام سنانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔