Tag: ، ایران اور ترکی کی امداد

  • خالدہ ادیب خانم: ادب میں‌ معروف، سیاست اور سماج میں‌ اپنی جدوجہد کے لیے مشہور‌ خاتون کا تذکرہ

    خالدہ ادیب خانم: ادب میں‌ معروف، سیاست اور سماج میں‌ اپنی جدوجہد کے لیے مشہور‌ خاتون کا تذکرہ

    خالدہ ادیب خانم ترکی کی ادیب، قوم پرست اور بے باک صحافی تھیں۔ وہ اپنے سیکولر نظریات اور جدیدیت پسندی کے لیے مشہور تھیں۔

    ایک مصنّفہ، شاعرہ کی حیثیت سے خالدہ ادیب خانم جہاں‌ اپنے تخلیقی سفر کے لیے پہچانی جاتی ہیں، وہیں‌ ترکی میں‌ سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی ان کی خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ترکی کے عوام کی تحریکِ آزادی اور عظیم قربانیوں کو اپنی کہانیوں اور ناولوں میں پیش کیا اور ساتھ ہی ملک میں‌ اصلاح و تبدیلی کی غرض سے بھی کوششیں‌ کرتی رہیں۔ ڈاکٹر ایم اے انصاری نے انھیں‌ 1935ء میں ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی اور یہاں‌ انھوں نے ”ہندوستان کے اندر‘‘ کے نام سے اپنی یادداشتیں لکھیں جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

    خالدہ ادیب خانم 11 جون 1884ء کو پیدا ہوئیں۔ 1964ء میں‌ آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ ان کے والد کا نام عثمان ادیب پاشا تھا جو عثمانی سلطان عبد الحمید کے عہد میں‌ وزیرِ خزانہ تھے۔ خالدہ خانم نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1910ء میں بی اے کا امتحان نہایت اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ انھوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو 18 سال کی عمر میں پہلی کتاب ”ترکی پردے“ سامنے آئی اور بعد میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ ان کے اسلوب نے بہت جلد انھیں‌ ترکی کی صفِ اوّل کی افسانہ نگاروں کی صف میں‌ لاکھڑا کیا۔ ان کی کہانیاں اور ناول بعد میں‌ یورپ کی کئی زبانوں‌ اور انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئے۔

    جنگِ عظیم اور سلطنتِ عثمانیہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد خالدہ ادیب خانم کی کوششوں کی بدولت ملک میں‌ ترقیٔ نسواں‌ کے لیے کام شروع ہوا اور اس وقت کے مدبرین نے عورتوں کے مطالبات کی حمایت کی۔ انھوں نے وزارتِ تعلیم پر زور دیا کہ ترک عورتوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات بہم پہنچائے۔ ان سرگرمیوں کی بدولت انور پاشا اور طلعت پاشا نے خالدہ خانم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو سیاسی آئین و ضوابط کی تشکیل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنی فکر اور نظریات کا پرچار کرنے کے لیے خالدہ خانم نے ترکی کے اخبارات میں مضامین لکھے اور ذہن سازی کرتی رہیں‌ جب کہ ان کی تحریریں یورپ اور امریکا میں بھی شایع ہوئیں۔ وہ اگرچہ زمانۂ طالبِ علمی سے امریکی کالج کی طالبہ ہونے کے ناطے مغربی طرزِ زندگی کی عادی تھیں لیکن بعد میں انہوں نے ترکی لباس اور رہن سہن کو اپنا لیا۔

    وہ 1925ء میں‌ بحری سفر کرکے ہندوستان آئی تھیں‌ اور ان کا تین ماہ یہاں‌ قیام یادگار ثابت ہوا جس میں‌ انھیں‌ اردو داں طبقے اور سیاسی و سماجی شخصیات کے درمیان رہنے کا موقع ملا۔ انھوں نے ہندوستان میں ترکی کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنی تقاریر سے مختلف طبقات کو متاثر کیا۔

  • قطر کی سپر مارکیٹس اور فلائٹس خالی، ایران اور ترکی کی غذائی امداد

    قطر کی سپر مارکیٹس اور فلائٹس خالی، ایران اور ترکی کی غذائی امداد

    دوحا: عرب ممالک کے بائیکاٹ کے بعد قطر کی سپر مارکیٹیں خالی ہونے لگیں، یورپ اور امریکا سے فلائٹس خالی واپس آئیں جن میں کوئی مسافر نہیں تھا، ایران اور ترکی نے قطر کو غذائی اشیا کی ترسیل شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب سمیت سات ممالک کی جانب سے قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے بعد قطر میں خوراک کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، قطر کی سپر مارکیٹیں خالی ہونے لگی ہیں، گاہکوں کو بڑے بڑے سپر اسٹور میں بنے ہوئے شیلف خالی نظر آرہے ہیں اور وہ ہر طرف اشیا کی خریداری کے لیے بھاگ دوڑ میں نظر آتے ہیں۔

    اسی ضمن میں قطر ایئر ویز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا ہے سعودی عرب سمیت سات ممالک قطر ایئرو یز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے نہیں دے رہے جس پر یورپ اور امریکا سمیت دیگر ممالک سے جو فلائٹس آئیں وہ بالکل خالی تھیں۔


    Qatar’s supermarkets empty, flight deserted… by arynews
    اس بائیکاٹ سے قطر ایئر لائن کو زبردست مالی نقصان کا سامنا ہورہا ہے۔


    اس تشویش ناک صورتحال کے باوجود قطر میں رہائش پذیر غیر ملکی اور مقامی افراد کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ایران اور ترکی نے قطر میں غذائی اشیا کی ترسیل شروع کردی ہے۔