Tag: آئرن

  • آئرن جسم کے لیے ضروری، لیکن اس کی زیادتی کیا مسائل پیدا کرسکتی ہے؟

    آئرن جسم کے لیے ضروری، لیکن اس کی زیادتی کیا مسائل پیدا کرسکتی ہے؟

    آئرن ہمارے جسم کے لیے بے حد ضروری ہے لیکن اس کی زیادتی جمس کو بیمار بھی کرسکتی ہے۔

    ہیمو کروماٹوسیس کا عارضہ دراصل ایک جینیاتی نقص ہے جس میں کھانا ہضم کرنے کے دوران آنتیں زیادہ مقدار میں آئرن جذب کرلیتی ہیں۔

    آئرن خون کا ایک اہم جزو ہے اور یہ ہیموگلوبین کے ایک مرکب کے طور پر پورے جسم میں آکسیجن پہنچانے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے لیکن آئرن کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

    عام طور پر ہم روزانہ جو خوراک کھاتے ہیں ان سے تقریباً ایک یا دو ملی گرام آئرن جذب کرتے ہیں، یہ مقدار ہمارے جسم کی مطلوبہ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس کچھ افراد، اس مقدار سے چار گنا زیادہ آئرن جذب کرتے ہیں اور ہر گزرتے سال کے ساتھ آئرن کی اس مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    اس طرح اس قسم کے افراد کے جسم میں ادھیڑ عمری تک 20 گرام تک آئرن جمع ہو سکتا ہے جبکہ زیادہ تر ادھیڑ عمر لوگوں میں آئرن کی مقدار صرف 4 گرام ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ جسم آئرن کی کچھ مقدار جلدی خلیات کے جھڑنے اور خواتین ماہانہ ایام کی صورت میں ضائع کرتی ہیں لیکن اس طرح جسم سے اتنی مقدار میں اضافی آئرن خارج نہیں ہوتا جتنی ضرورت ہوتی ہے۔

    جسم میں اضافی آئرن کے جمع ہونے سے پورے جسم پر اس کے وسیع تر مضر اثرات پڑتے ہیں۔ جو لوگ ہیموکروٹوماسیس میں مبتلا ہیں، ان میں سے تین چوتھائی کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔

    اس سے جگر کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جلد کی رنگت جگہ جگہ سے تبدیل ہوسکتی ہے۔

    جسم میں زیادہ آئرن رکھنے والے افراد میں صنفی خواہشات کم ہو سکتی ہیں، قوت مردمی میں کمی کی شکایت عام ہوتی ہے اور 45 فیصد مریض ان صنفی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ آئرن کی زیادتی سے لبلبے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں آدھے افراد ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اس کی وجہ سے دل کے پٹھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جوڑوں میں بھی درد ہو سکتا ہے، خون میں آئرن کی زیادتی سے اس قسم کی سنگین نوعیت کی پیچیدگیاں سامنے آسکتی ہیں، لیکن خوش قسمتی سے اس کا علاج بہت آسان ہے۔

  • آئرن کی کمی سے دل کی صحت کو سخت خطرات

    آئرن کی کمی سے دل کی صحت کو سخت خطرات

    جسم میں آئرن کی کمی بے شمار پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غیر معمولی تھکاوٹ، جلد زرد ہوجانا، سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، سر چکرانا اور سر درد وغیرہ شامل ہے تاہم حال ہی میں اس کا ایک اور نقصان سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جسم میں آئرن کی کمی اینیمیا (خون کی کمی) کا شکار بنانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے مگر درمیانی عمر میں اس کے باعث ہارٹ اٹیک سمیت امراض قلب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سر انجام نہیں دے پاتے۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں آئرن کی کمی سے آئندہ ایک دہائی کے دوران امراض قلب، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے امراض کا خطرہ 10 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشاہداتی تحقیق تھی جس کے نتائج کو دیکھ کر ہم ٹھوس طور پر نہیں کہہ سکتے کہ آئرن کی کمی امراض قلب کا باعث بن سکتی ہے، مگر شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی اور امراض قلب کے خطرے میں تعلق موجود ہے جس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا تھا کہ آئرن کی کمی کے باعث دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے شکار افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر آئرن سپلیمنٹس سے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    ان نتائج کو دیکھتے ہوئے اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین نے آئرن کی کمی اور دل کی صحت پر اثرات کا مشاہدہ عام آبادی پر کیا گیا۔

    تحقیق میں 3 تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن میں 12 ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے جن کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان میں سے 55 فیصد خواتین تھیں۔

    دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر میں تمباکو نوشی، ذیابیطس، موٹاپے اور کولیسٹرول کا جائزہ خون کے نمونوں سے لیا گیا جبکہ اسی سے آئرن کی کمی کی جانچ پڑتال بھ کی گئی۔

    بعد ازاں محققین نے ان افراد میں امراض قلب، فالج اور کسی بھی وجہ سے اموات کا جائزہ لیا اور ہر ایک کا تجزیہ آئرن کی کمی سے کیا گیا۔ 60 فیصد افراد آئرن کی مکمل کمی کا شکار تھے اور 64 فیصد میں فنکشنل آئرن کی کمی کو دریافت کیا گیا۔

    13 سال سے زیادہ عرصے تک ان افراد کا جائزہ لینے پر دریافت ہوا کہ فنکشنل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 24 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، 26 فیصد میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت جبکہ 12 فیصد میں کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ دریافت کیا گیا۔

    اس کے مقابلے میں آئرن کی مکمل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 20 فیصد تک دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو دور کرلیا جائے تو امراض قلب کے خطرے کو 11 فیصد، دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت کے خطرے کو 12 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو درمیانی عمر کی آبادی میں آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے کیونکہ دوتہائی میں یہ فنکشنل کمی ہوتی ہے، جس سے آئندہ 13 سال میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

  • خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    ہمارے جسم میں موجود معدنیات کی مناسب مقدار جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے، ان کی کمی یا زیادتی پیچیدہ طبی مسائل کا سبب بن سکتی ہے، انہی میں سے ایک آئرن بھی ہے۔

    آئرن جسم میں کئی اہم کام سر انجام دیتا ہے، اس کے ذریعے جسم کو آکسیجن کی منتقلی ہوتی ہے اور پٹھوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے، جسم میں خون کی کمی کی سب سے بڑی وجہ آئرن کی کمی ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 33 فیصد غیر حاملہ خواتین، 40 فیصد حاملہ خواتین اور 42 فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق آئرن کی کمی بالغ افراد پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے تھکاوٹ، ناقص جسمانی کارکردگی، کام میں عدم دلچسپی وغیرہ۔

    حاملہ خواتین میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہیمو گلوبن، وزن اور حمل کی مدت میں کمی ہو سکتی ہے۔

    ڈائٹ آف ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والی ماہر غذا عبیر ابو رجیلی نے خواتین میں آئرن کی کمی کی علامت کے بارے میں بتایا ہے۔

    تھکاوٹ

    اگر آپ انتہائی تھکاوٹ کے ساتھ موڈ کی خرابی اور کمزوری محسوس کرتی ہیں، جس سے آپ کو سوچ بچار میں مشکل پیش آتی ہے اور جسمانی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں تو آپ آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    آنکھوں کے گرد حلقے

    آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہونا خون میں آئرن کی کمی کی علامت ہے، اگر آپ اس مشکل کا شکار ہیں تو آپ کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

    چکر آنا اور سر درد

    جسم میں آئرن کی کمی سر درد اور جسم میں درد کا سبب بنتی ہے لیکن یہ اتنا عام نہیں جتنی دوسری علامات ہیں۔

    دل کی دھڑکن میں تیزی

    دل کی دھڑکن میں تیزی جسم میں آئرن اور خون کی کمی کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے، کیونکہ ہیمو گلوبن کی کمی آکسیجن کی کمی کا سبب بنتی ہے۔

    سانس لینے میں دشواری

    جب ہیمو گلوبن کی سطح جو پورے جسم کو آکسیجن فراہم کرتی ہے، کم ہوجاتی ہے تو اس سے چلنے یا کسی بھی سرگرمی کے وقت تھکاوٹ اور سانس میں رکاوٹ کا احساس ہوتا ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں پٹھوں کو کام کرنے کے لیے مطلوبہ آکسیجن نہیں مل رہی ہے۔

    آئرن کی کمی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایات کے مطابق دوا و غذا کاا ستعمال کریں۔

  • وہ علامات جو جسم میں آئرن کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    وہ علامات جو جسم میں آئرن کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    جسم میں آئرن کی کمی اینیمیا (خون کی کمی) کا شکار بنانے کا اہم سبب ہے، آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔

    ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سر انجام نہیں دے پاتے۔

    یہاں آپ کو جسم میں آئرن کی کمی کی کچھ نشانیاں بتائی جارہی ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی آپ فوری اقدام اٹھا سکتے ہیں۔

    جسمانی تھکن آئرن کی کمی کی سب سے عام علامت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آئرن کی کمی سے ہیمو گلوبن بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے جو آکسیجن پھیپھڑوں سے جسم کے دیگر حصوں تک پہنچاتا ہے۔ جب اس پروٹین کی کمی ہوتی ہے تو مسلز اور ٹشوز کم آکسیجن کی وجہ سے تھکاوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔

    خون کے سرخ خلیات میں موجود ہیمو گلوبن جلد کو صحت مند سرخی مائل رنگت فراہم کرتا ہے، آئرن کی کمی کے نتیجے میں ہیمو گلوبن کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جلد زرد ہوجاتی ہے۔

    سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، خصوصاً جسمانی سرگرمیوں کے دوران، آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہے۔ اس کی وجہ بھی ہیموگلوبن کی مقدار میں خون کے سرخ خلیات کی کمی ہونا ہے۔

    آئرن کی کمی کے نتیجے میں سر درد یا آدھے سر کا درد عام ہوجاتا ہے، جس کی وجہ دماغ تک آکسیجن مناسب مقدار میں نہ پہنچنا ہے، یہ دباؤ سر درد یا آدھے سر کے درد کا باعث بنتا ہے۔

    دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی بھی آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہوسکتی ہے، ہیمو گلوبن کی سطح میں کمی کے نتیجے میں دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی ہوجاتی ہے یا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل بہت تیز دھڑک رہا ہے۔ سنگین معاملات میں ہارٹ فیلیئر کا بھی خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

    جب جلد اور بالوں کو آئرن کی کمی کا سامنا ہو تو وہ خشک اور زیادہ نازک ہوجاتے ہیں، بلکہ گنج پن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے یا بال تیزی سے گرنے لگتے ہیں۔

    ناخن کا بھربھرا ہوجانا بھی آئرن کی کمی کی ایک ایسی علامت ہے جو زیادہ عام نہیں بلکہ یہ اینیمیا کی سطح پر نمودار ہوتی ہے۔ اس اسٹیج پر ناخن غیر معمولی حد تک پتلے ہوجاتے ہیں اور ان کی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔

    اگر موسم سے قطع نظر ہاتھ اور پیر ٹھنڈے ہو رہے ہوں تو یہ واضح طور پر اینیمیا یا آئرن کی کمی کی علامت ہے۔

    آئرن کی کمی کی ایک عجیب ترین علامت عجیب چیزوں کو کھانے کی خواہش پیدا ہونا بھی ہے جیسے لکڑی، مٹی یا برف وغیرہ۔

    ماہرین کے مطابق مندرجہ بالا علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ان کے ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر کے مشورے سے فوری آئرن بڑھانے والی ادویات لی جائیں۔

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔