Tag: آئن اسٹائن

  • عظیم سائنس دان آئن اسٹائن کی وصیّت اور زندگی کی تلخیاں

    عظیم سائنس دان آئن اسٹائن کی وصیّت اور زندگی کی تلخیاں

    تاریخ میں البرٹ آئن اسٹائن کو سب سے بڑا ماہرِ طبیعیات مانا جاتا ہے جس کے سائنسی مفروضوں اور تجربات نے فزکس ہی نہیں‌ دنیائے سائنس کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا جسے اصطلاح میں‌ ماڈرن فزکس کہا گیا۔ یہ بنیادی طور پر ’تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی‘‘ اور ’’کوانٹم فزکس‘‘ کے دو ستونوں پر کھڑی تھی۔

    اوّل الذّکر آئن اسٹائن کا مفروضہ اور کوانٹم فزکس اس کی ایک دریافت ’’فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ‘‘ کا نتیجہ کہلاتی ہے۔ آئن اسٹائن کا سائنسی نظریہ اور اس کی مساوات (E= mc2) کی صورت میں دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔ اِس نظریے کی رُو سے مادّہ اور توانائی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور جنھیں آپس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ وہ ایک روز دفتر کی کھڑی سے باہر جھانکتے ہوئے ایک بلند و بالا عمارت کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ کسی شخص کو اِس عمارت سے نیچے دھکیل دیا جائے تو کیا وہ اپنے آپ کو گرتا ہوا محسوس کرے گا؟

    معاً اُسے خیال آیا کہ اگر ہوا کی رگڑ نہ ہو تو وہ شخص اپنے آپ کو گرتا ہوا محسوس نہیں کرے گا۔ وہ اپنے سوال کا جواب پاکر بہت خوش ہوا۔ 1920 میں اُس نے لکھا کہ وہ میری زندگی کی خوش گوار ترین سوچ تھی۔

    یہی وہ مفروضہ اور خیال تھا جس نے آئن اسٹائن پر گریوٹی (کششِ‌ ثقل) کو آشکار کیا تھا۔ بعد میں اس کی سب سے اہم تھیوری سامنے آئی۔ 1905ء میں آئن اسٹائن نے تھیوری آف اسپیشل ریلٹوٹی پیش کی اور 1916ء میں تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی پیش کی۔ اس کے تین سال بعد انگریز ماہرِ طبیعیات ارتھر ایڈنگٹن نے 1919ء میں اس کا عملی تجربہ کیا اور کام یابی کے بعد اس تھیوری کی تصدیق کر دی۔ نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن اسٹائن کی سب سے بڑی کام یابی تھا۔

    جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار آیا تو آئن اسٹائن کو امریکا ہجرت کرنا پڑی اور وہ ’’برلن اکیڈمی آف سائنس‘‘ میں اپنی نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ 1940ء میں اس طبیعیات دان کو امریکی شہریت بھی مل گئی۔

    آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد مقالے لکھے اور اس کی لگ بھگ ڈیڑھ سو تحریریں اور کتابیں غیر سائنسی موضوعات پر ہیں۔ اس کے خطوط بھی مشہور ہیں جنھیں اس کی وفات کے بعد نیلام کیا گیا۔ آئن اسٹائن کی ذاتی زندگی عشق و رومان، ازدواجی الجھنوں کے ساتھ اولاد کو لاحق امراض اور ذہنی و جسمانی مسائل کا سامنا کرتے گزری۔ تاہم اس کے ساتھ وہ سائنس کے میدان میں‌ غور و فکر اور تجربات بھی کرتے رہے۔

    وہ 1879ء میں جرمنی میں پیدا ہوا تھا۔ آئن اسٹائن کے والد کا نام ہَرمین آئن اسٹائن اور والدہ کا نام پاؤلِین کوچ تھا۔ والد کاروباری تھے جو 1880 میں جرمنی کے شہر میونخ منتقل ہوئے اور وہاں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی تھی۔ تاہم ایک وقت آیا جب انھیں‌ بجلی کی تیّاری اور فراہمی میں ایک مسئلے کے بعد خسارے اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں‌ کمپنی کو بیچنا پڑ گیا۔ ان کا خاندان اٹلی چلا گیا، لیکن آئن اسٹائن کو میونخ ہی میں زیرِ تعلیم چھوڑ دیا گیا۔

    اس کی ذہنی نشو و نما سست تھی، وہ دو سال کی عمر میں بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنے لگا، لیکن خاندان متفق تھا کہ یہ بچّہ شاید ہی کوئی ڈگری حاصل کر سکے گا، اگرچہ اس حوالے سے کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی ایک بڑی وجہ بچپن کے متعلق آئن اسٹائن کے اپنے متنازع بیانات بھی ہیں، مگر اس کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آنے والے اس کے دادا کے خطوط سے پتا لگتا ہے کہ وہ عام بچّوں کی طرح چالاک اور ہوشیار تھا، مگرابتدا میں اسے بولنے میں دشواری کا سامنا ضرور رہا تھا۔

    یہ عادت ساری عمر اس کے ساتھ رہی، جس کے باعث وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اور اپنی بات کو متعدد بار دہرایا کرتا تھا، اس بارے میں خود آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سوچ یا خیال اچانک ذہن میں وارد ہو کر اسے بہت زیادہ متاثر کرتا تو وہ اسے بار بار دہرا تا تھا۔

    1921ء میں آئن اسٹائن کو اس کی تحقیق پر نوبل پرائز دیا گیا تھا۔ دنیا کو سائنس میں‌ بے پناہ ترقّی اور اپنے مفروضوں کی بنیاد پر طالبِ علموں اور ماہرین کے دماغوں کو نئی سمت دکھانے والے نے خود کو پیوندِ خاک بنانے کے بجائے ہوا کے دوش پر روشنی کی رفتار سے سفر کرتے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ 1955ء میں‌ چل بسا اور اس عظیم سائنس دان کی وصیت کے مطابق اس کا مردہ جسم جلا دیا گیا، بعد میں اس کی راکھ کسی نامعلوم مقام پر بکھیر دی گئی تھی۔ اگر اس کی وصیّت پر عمل نہ کیا جاتا تو آج وہ کہاں دفن ہوتا؟ کیا جرمنی میں اس کا مدفن بنایا جاتا یا پھر امریکا میں اس عظیم سائنس دان کی قبر پر عقیدت مند پھول رکھنے جاتے؟

  • نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین شخص جو ساری زندگی کلرک بنا رہا

    نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین شخص جو ساری زندگی کلرک بنا رہا

    سترہویں صدی کے ریاضی دان آئزک نیوٹن اور بیسویں صدی کے طبیعات دان آئن اسٹائن کا شمار تاریخ کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے جن کی دریافتوں نے سائنس کو نئی جہت دی، لیکن کیا آپ جانتے ہیں دنیا میں ایک شخص ایسا بھی گزرا ہے جو ان افراد سے زیادہ ذہین تھا؟

    یہ کہانی ہے امریکا کے ولیم جیمز سائیڈس کی جو نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین تھا لیکن آج تاریخ کے صفحات میں اس کا کوئی ذکر نہیں، کیونکہ اس نے دنیا کی بہتری کے لیے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور اپنی غیر معمولی ذہانت ضائع کردی۔

    نیوٹن کا آئی کیو لیول 190 اور آئن اسٹان کا 160 تھا، لیکن ولیم کا آئی کیو 260 تھا۔

    سنہ 1898 میں نیویارک میں پیدا ہونے والے ولیم کے والدین بھی نہایت ذہین تھے، اس کے والد سائیکاٹرسٹ تھے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔

    صرف 18 ماہ کی عمر میں ولیم نیویارک ٹائمز کا پورا اخبار پڑھ لیا کرتا تھا، 8 سال کی عمر میں ولیم خود سے ہی 8 زبانیں سیکھ چکا تھا جن میں لاطینی، یونانی، فرنچ، روسی، جرمن، ہیبرو، ترک اور آرمینین زبان شامل تھی۔

    یہی نہیں اسی عمر میں اس نے خود سے ایک زبان بھی ایجاد کرڈالی تھی جو ان تمام زبانوں کا مجموعہ تھی، اس زبان کو وینڈر گڈ کا نام دیا گیا۔

    سنہ 1909 میں جب ہارورڈ یونیورسٹی نے ولیم کو داخلہ دیا اس وقت اس کی عمر 11 سال تھی، وہ ہارورڈ کی تاریخ کا کم عمر ترین طالب علم تھا۔ اگلے ہی سال سے اس نے اپنے ریاضی کے استادوں کو ریاضی کے لیکچر دے کر انہیں دنگ کردیا۔

    16 سال کی عمر میں وہ اپنی بیچلرز کی ڈگری مکمل کرچکا تھا،تب تک وہ نہایت مشہور ہوچکا تھا اور اس کا ذکر اخبارات کی زینت بننے لگا تھا لیکن ولیم اس زندگی سے ناخوش تھا، وہ تنہائی پسند تھا اور اس شہرت اور توجہ سے بھاگ کر ایک عام زندگی گزارنا چاہتا تھا۔

    اس کے والد ولیم کی صلاحیتوں کو جانتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ آگے تعلیم حاصل کرے اور اپنی ذہانت کا استعمال کرے، لیکن ولیم نے اپنے باپ کے اصولوں سے بغاوت کردی۔

    دونوں کے درمیان تعلقات اس قدر خراب ہوگئے کہ ولیم گھر چھوڑ کر چلا گیا اور سنہ 1923 میں جب والد کی موت ہوئی تو ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بھی نہ آیا۔

    وہ اپنے خاندان سے دور رہ کر ساری زندگی کلرک کی اور دیگر چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا، لیکن وہ جہاں بھی جاتا لوگ اس کی صلاحیتوں کو پہچان جاتے، حتیٰ کہ اخباروں نے چھاپنا شروع کردیا کہ ولیم اپنی بچپن کی ذہانت اور صلاحیت کھو بیٹھا ہے اسی لیے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے۔

    جنگ عظیم اول کے دوران جب وہ جنگ کے خلاف احتجاج کر رہا تھا تو اسے گرفتار کرلیا گیا، اسے 18 ماہ کی سزا سنائی گئی لیکن والدہ نے اس کی ضمانت کروا لی۔ وہ ایک بار پھر سے تنہائی کی زندگی گزارنے لگا۔

    ولیم نے شادی نہیں کی، اپنے خاندان سے بھی قطع تعلق کیے رکھا اور گمنامی میں زندگی بسر کرتا رہا، بالآخر وہ شخص جو دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا، سنہ 1944 میں صرف 46 سال کی عمر میں خاموشی سے اس دنیا کو چھوڑ گیا۔

    ہارورڈ سے اپنی ڈگری مکمل کرلینے کے بعد ولیم نے ایک کتاب دا اینیمیٹ اینڈ دا ان اینیمیٹ لکھی تھی، اس کتاب میں اس نے زندگی کی شروعات، علم کائنات اور اس حوالے سے دیگر سائنسدانوں کے نظریات پر اظہار خیال کیا۔

    تاہم یہ کتاب اسے تاریخ کے صفحات میں زندہ نہ رکھ سکی اور دنیا کا ذہین ترین انسان وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔

  • بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    البرٹ آئن سٹائن کے نام سے کون واقف نہیں۔ انھیں انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک اور بیسویں صدی کا سب سے بڑا ماہرِ طبیعیات مانا جاتا ہے جو 18 اپریل 1955ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آئن اسٹائن کی وجہِ شہرت ان کا عمومی اضافیت کا وہ نظریہ ہے جسے دنیا عمومی نظریۂ اضافت کہتی ہے۔ اس سائنس دان نے کششِ ثقل کے بارے میں 1915ء میں اپنا مقالہ پیش کیا تھا جسے آج جدید طبیعیات میں کششِ ثقل کی قابلِ اعتماد وضاحت مانا جاتا ہے۔

    آئن اسٹائن کی پیدائش ایک یہودی جوڑے کے گھر ہوئی تھی جو جرمنی کے شہر اُولم میں مقیم تھا۔ 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہونے اس بچّے نے ایک کیتھولک عیسائی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد اپنے کاروبار کے سبب اٹلی چلے گئے اور 16 سال کی عمر میں‌ آئن اسٹائن بھی اٹلی پہنچ گیا جہاں اس نے خاصا وقت گزارا اور تعلیم کے ساتھ ملازمت کے لیے بھی کوشاں رہا۔

    فزکس میں دل چسپی اور سائنسی تحقیق نے اسے 1906ء میں زیورخ یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی میں کام یاب کروایا، اور سائنسی مقالات کی وجہ سے اسے شناخت ملنے لگی، اس کے علمی و تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے زیورخ یونیوسٹی نے نظریاتی طیبیعیات میں اسے ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔

    بعد ازاں پراگ یونیوسٹی سے پروفیسر کے درجے میں‌ ملازمت کی پیشکش ہوئی، تو وہ پراگ چلا گیا۔ اگلے برسوں میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کروایا جس کے سبب اسے بہت شہرت اور اہمیت حاصل ہوگئی اور پھر برلن یونیورسٹی سے پروفیسر اور ایک نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر کے لیے پیشکش کردی گئی اور یوں وہ جرمنی چلا آیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی جس کے بعد ہٹلر اقتدار میں آگیا اور تب آئن اسٹائن نے ایک موقع پر امریکا جانے کا فیصلہ کیا اور وہیں انتقال کیا۔ آئن اسٹائن کو 1922 میں‌ نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کی عظمت ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس نے وہ نظریہ اضافت پیش کیا جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، تاہم اس کامیابی اور عظمت کے پیچھے حقیقتاً ایک عورت کا ہاتھ ہے جسے دنیا فراموش کر چکی ہے۔

    آئن اسٹائن کی عظمت اور کامیابی کا سہرا اس کی بیوی ملیوا کو جاتا ہے، جو اس وقت سے آئن اسٹائن کے ساتھ تھی جب وہ طالب علم تھا اور خود بھی اپنے اندر چھپے جوہر کو نہیں پہچان پایا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ ملیوا آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ ذہین تھی، تاہم اسے آئن اسٹائن جیسی نصف شہرت بھی نہ مل سکی۔

    ملیوا میرک سربیا کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے بچپن سے ہی طبیعات اور ریاضی پڑھنے کا شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسے سوئٹزر لینڈ کی زیورخ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور یہیں اس کی ملاقات آئن اسٹائن سے ہوئی۔

    ملیوا طبیعات کے شعبے میں واحد طالبہ تھی۔ داخلے کے امتحان میں ریاضی میں ملیوا نے آئن اسٹائن سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ یہی نہیں فائنل ایگزام میں بھی اپلائیڈ فزکس کے مضمون میں اس کا اسکور آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ تھا۔

    دوران تعلیم ملیوا اور آئن اسٹائن میں محبت کا تعلق قائم ہوچکا تھا اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے تاہم آئن اسٹائن کے والدین اس رشتے کے مخالف تھے۔

    والد کا اعتراض تھا کہ آئن اسٹائن شادی کرنے سے پہلے کوئی ملازمت حاصل کرے جبکہ ان کی والدہ نے ایک نظر میں ملیوا کی حد درجہ ذہانت کو بھانپ لیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ شادی کے بعد وہ بہت جلد ان کے بیٹے پر حاوی ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    اس دوران مختلف شہروں میں رہائش کی وجہ سے دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی جس میں فزکس کی مشکل گتھیاں بھی زیر بحث آتیں۔ ملیوا مشکل سوالات کے اس قدر مدلل جوابات دیتی کہ آئن اسٹائن بھی اس کے سامنے اپنی کم عقلی کا اعتراف کرتا۔

    کچھ عرصے بعد ان دونوں نے مل کر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو ملیوا نے اپنا نام چھپوانے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ اس وقت کی معاشرتی تنگ نظری تھی۔

    دونوں ہی یہ بات جانتے تھے کہ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ اس مقالے کی مصنف ایک خاتون ہے تو اس کی سائنسی حیثیت صفر ہوجائے گی اور لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔

    دوسری وجہ یہ تھی کہ ملیوا چاہتی تھی کہ اس مقالے کی بدولت آئن اسٹائن کا نام بنے اور انہیں کچھ رقم بھی حاصل ہو تاکہ وہ شادی کرسکیں۔

    ملیوا کا آئن اسٹائن کا ساتھ دینے اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک دونوں ساتھ رہے۔ سنہ 1903 میں دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور یہاں سے ان دونوں کی نئی زندگی اور فزکس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

    شادی کے بعد دونوں اپنی شامیں طبیعات کے مشکل اور پیچیدہ سوال حل کرنے میں گزارتے جبکہ رات دیر تک تحقیق و تدوین کا کام کرتے۔ دونوں کے مشترکہ دوستوں کا کہنا ہے کہ آئن اسٹائن کی ہر تحقیق اور مقالے میں انہوں نے ملیوا کو برابر کا حصہ دار دیکھا۔

    بے روزگاری کے دور میں جب آئن اسٹائن کو ایک ضخیم مقالہ نظر ثانی کے لیے پیش کیا گیا تو وہ لگاتار 5 ہفتے تک اس پر کام کرتا رہا اور کام کرنے کے بعد 2 ہفتوں کے لیے بستر پر پڑ گیا۔ اس دوران ملیوا نے آئن اسٹائن کے کام کو دوبارہ دیکھا اور اس میں بے شمار درستگیاں کیں۔

    جب آن اسٹائن کو ایک ادارے میں لیکچر دینے کی ملازمت ملی تو یہ ملیوا ہی تھی جو راتوں کو جاگ کر اگلے دن کے لیکچر کے نوٹس بناتی اور اگلی صبح آئن اسٹائن ان کی مدد سے لیکچر دیتے۔

    جب بھی ملیوا سے سوال پوچھا جاتا کہ جن تھیوریز اور تحقیق کی بنا پر آئن اسٹائن کو صدی کا عظیم سائنسدان قرار دیا جارہا ہے، ان میں ملیوا کا بھی برابر کا حصہ ہے تو وہ کیوں نہیں اپنا نام منظر عام پر لانا چاہتی؟ تو ملیوا کا ایک ہی جواب ہوتا کہ وہ آئن اسٹائن کو کامیاب اور مشہور ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور اسی میں اس کی خوشی پنہاں ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو

    ملیوا کی اس جاں نثاری اور خلوص کے باوجود آئن اسٹائن اس سے بے وفائی سے باز نہ رہ سکا اور سنہ 1912 میں ان کی شادی کے صرف 9 برس بعد آئن اسٹائن اپنی ایک کزن ایلسا کے دام الفت میں گرفتار ہوگیا۔

    دو برس بعد ملیوا نے آئن اسٹائن سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا اور واپس زیورخ چلی آئی۔ سنہ 1919 میں دونوں کے درمیان باقاعدہ طلاق کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اسی سال آئن اسٹائن نے ایلسا سے شادی بھی کرلی۔

    اس وقت تک آئن اسٹائن کو نوبیل انعام دیے جانے کی باز گشت شروع ہوچکی تھی۔ دونوں کے درمیان طے پایا کہ اگر آئن اسٹائن کو نوبیل انعام ملا تو وہ اس کو نصف بانٹ لیں گے۔

    نوبیل انعام ملنے کے بعد آئن اسٹائن کا ارادہ بدل گیا اور اس نے ملیوا کو خط لکھا کہ انعامی رقم کے حقدار صرف اس کے بیٹے ہوں گے جس پر ملیوا بپھر گئی۔ اس وقت ملیوا شدید بیماریوں اور معاشی تنگ دستی کا شکار تھی لہٰذا اسے رقم کی سخت ضرورت تھی۔

    ملیوا نے کئی پرانے خطوط اور دستاویز آئن اسٹائن کو روانہ کیے اور اسے یاد دلایا کہ اگر ملیوا اور اس کی ذہانت آئن اسٹائن کے ساتھ نہ ہوتی تو وہ کبھی اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔

    جواب میں آئن اسٹائن نے ایک طنزیہ خط لکھتے ہوئے ملیوا کے اس خیال کو احمقانہ کہا۔ علیحدگی کے بعد آئن اسٹائن کے اس رویے کا ملیوا کو مرتے دم تک افسوس رہا، وہ اپنے بیٹے ہینز البرٹ اور والدین کو خطوط لکھتی اور اس بات کا اظہار کرتی تاہم یہ بھی کہتی کہ وہ اس بات کو اپنے تک رکھیں اور آئن اسٹائن کو رسوا نہ کریں۔

    ملیوا کی موت کے بعد ہینز کی بیوی نے ان خطوط کو شائع کرنے کی کوشش کی جو ملیوا نے اپنے بیٹے کو لکھے اور اس میں آئن اسٹائن کی خود غرضی کا ذکر کیا، تاہم آئن اسٹائن کے وکیل کی جانب سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔

    مجموعی طور پر ملیوا ایک سادہ عورت تھی جسے شہرت یا نام و نمود کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ اپنے محبوب شوہر کو اونچے ترین مقام پر فائز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی خداداد صلاحیت اور بے پناہ قابلیت کو بھی شوہر کے لیے استعمال کیا۔

    وہ پہلی انسان تھی جس نے آئن اسٹائن کی ذہانت کو پرکھا باوجود اس کے، کہ وہ خود اس سے کہیں زیادہ ذہین تھی۔ اس نے ہر قدم پر آئن اسٹائن کا ساتھ دیا اور اس کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ملیوا نہ ہوتی تو آئن اسٹائن کبھی عظیم سائنس دان نہیں بن سکتا تھا۔

  • وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت وہ ستون ہے جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کا دماغ دیگر انسانوں کی نسبت بڑا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    تاہم وہ کیا چیز تھی جس نے آئن اسٹائن کو دنیا کا عظیم سائنسداں بنایا؟ اسی بات کو جاننے کے لیے جب آئن اسٹائن کی موت کے بعد ان کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو اس میں دنگ کردینے والے حقائق سامنے آئے۔

    آئن اسٹائن سنہ 1955 کی ایک صبح 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ایک ڈاکٹر تھامس ہاروے کو ان کا چیک اپ کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے آئن اسٹائن کی موت کی تصدیق کی۔

    گو کہ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے اور ان کا جسم سائنسدانوں کو مختلف تجربات کے لیے نہ دیا جائے تاہم ماہرین کم از کم ان کے دماغ کی جانچ کرنا چاہتے تھے اسی لیے ان کی موت کے ساڑھے 7 گھنٹے بعد ان کے دماغ کو جسم سے علیحدہ کرلیا گیا۔

    ایسے میں آئن اسٹائن کے ڈاکٹر تھامس نے موقع دیکھ کر ان کا دماغ چرا لیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    تھامس نے اس عظیم دماغ کو 240 ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف جارز میں ڈال دیا اور اسے 40 برس تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔

    بالآخر 40 برس بعد تھامس اس دماغ کو منظر عام پر لے آیا اور تحقیق کے لیے اسے سائنسدانوں کے حوالے کردیا۔

    سائنسدانوں نے اس دماغ کی جانچ پڑتال کی تو نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی ایک جھلی پیرائٹل اوپرکیولم غائب تھی۔

    دماغ کو ایک حد میں رکھنے والی اس جھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئن اسٹائن کے دماغ کا یہ حصہ عام دماغ سے 20 فیصد بڑا ہوگیا تھا۔

    دماغ کی اس غیر معمولی نشونما کی وجہ سے آئن اسٹائن میں ریاضی کو سمجھنے اور مختلف تصورات قائم کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں عام دماغ کی نسبت 17 فیصد زیادہ نیورونز موجود تھے۔ ان اضافی نیورونز نے آئن اسٹائن کی دماغی کارکردگی میں اضافہ کردیا تھا جبکہ وہ اپنے تصورات کو تعمیری صورت میں ڈھالنے پر بھی قادر ہوگئے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کیفیات ایک غیر معمولی دماغ کی نشانی ہیں جنہیں ’ابنارمل‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن خوش قسمت تھے کہ ان کی ’ابنارملٹی‘ نے انہیں دنیا کا عظیم سائنسداں بنا دیا۔

    آئن اسٹائن کہا کرتے تھے، ’دنیا کا ہر شخص ذہین ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کسی مچھلی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کے درخت پر چڑھنے سے لگانا چاہیں تو وہ ساری عمر اپنے آپ کو نالائق گردانتی رہے گی‘۔

    آپ اس عظیم سائنسداں کی بات سے کتنے متفق ہیں؟

  • کیا ذہانت کی یہ نشانی آپ میں موجود ہے؟

    کیا ذہانت کی یہ نشانی آپ میں موجود ہے؟

    یوں تو ذہین افراد میں بے شمار خصوصیات ہوتی ہیں، تاہم حال ہی میں ماہرین نے ایک تحقیق کے بعد ذہین لوگوں کی ایک اور خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ افراد جو بہترین حس مزاح رکھتے ہیں اور اپنے بے ساختہ جملوں سے محفل کو گرمائے رکھتے ہیں ان کا آئی کیو لیول ان افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو حس مزاح نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایسے خواتین و حضرات جو ہنسی مذاق کے عادی ہوتے ہیں انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی زندگی میں موجود رشتے بھی دیرپا ہوتے ہیں کیونکہ وہ پریشان کن اور تناؤ زدہ صورتحال کو اپنی حس مزاح سے کم کر سکتے ہیں۔

    معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد ذہین ہونے کے ساتھ بچوں جیسی حس مزاح رکھتے تھے اور لوگوں سے ہنسی مذاق کر کے اور بے ساختہ فقرے کہہ کر بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

    چلتے چلتے آپ کو آئن اسٹائن کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے چلیں۔

    آئن اسٹائن اپنی زندگی میں مختلف جامعات اور درس گاہوں میں لیکچر دینے جایا کرتے تھے جہاں وہ اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافت کے بارے میں بتاتے۔

    ایسے ہی ایک روز لیکچر دینے کے لیے ایک کالج کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ان کے ڈرائیور نے ان سے کہا، ’سر آپ کا یہ لیکچر میں اتنی بار سن چکا ہوں کہ یہ مجھے لفظ بہ لفظ یاد ہوگیا ہے۔ اب تو میں بھی لیکچر دے سکتا ہوں‘۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    آئن اسٹائن نے ڈرائیور کی بات سن کر کہا، ’اچھا ایسی بات ہے تو آج کا لیکچر تم دو۔ وہ لوگ مجھے شکل سے نہیں پہچانتے، لہٰذا تم باآسانی آئن اسٹائن بن کر وہاں لیکچر دے سکتے ہو‘۔

    ڈرائیور نے ایسا ہی کیا اور آئن اسٹائن بن کر لیکچر دیا جس میں ایک بھی غلطی نہیں تھی۔ لیکچر کے اختتام پر اپنے علم پر نازاں ایک گھمنڈی پروفیسر نے اپنے تیئں آئن اسٹائن کا امتحان لینے کے لیے ایک نہایت مشکل سوال پوچھا۔

    سوال سن کر ڈرائیور نے کہا، ’اتنا آسان سوال؟ میں تو حیران ہوں آپ نے اتنا آسان سوال پوچھا ہی کیسے۔ اس کا جواب تو میرا ڈرائیور بھی دے سکتا ہے‘۔

    یہ کہہ کر اس نے آئن اسٹائن کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت ڈرائیور کے روپ میں بیٹھے تھے۔ آئن اسٹائن نے کھڑے ہو کر پروفیسر کے سوال کا مفصل جواب دیا جس سن کر پروفیسر بے حد شرمندہ ہوا۔

  • کتے کی طرح بھونکنے اور گانا گانے والا طوطا

    کتے کی طرح بھونکنے اور گانا گانے والا طوطا

    طوطے ہمیشہ سے ہی انسانوں سے باتیں کرنے اور مختلف آوازیں نکالنے کے عادی ہوتے ہیں، تاہم یہ کانگو افریقی طوطا کتے اور بلی سمیت بے شمار آوزوں کی نقل اتار سکتا ہے جسے سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئن اسٹائن نامی یہ طوطا کتے، بلی، الو اور چڑیوں کی آوازوں سمیت بے شمار آوازیں نکال سکتا ہے۔

    نہایت شاندار ذہانت کا حامل یہ طوطا آبشار، دروازے کی دستک اور اوپیرا گانا بھی گنگنا سکتا ہے۔ اس طوطے کو 200 کے قریب الفاظ بھی حفظ ہیں۔

    اس طوطے کی سالگرہ کے موقع پر اس کے ٹرینر ایڈم پیٹرسن نے اس کی ویڈیو جاری کی ہے جسے سوشل میڈیا پر بہت پسند کیا جارہا ہے۔

    ویڈیو میں طوطا ’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘ گا کر اپنے آپ کو سالگرہ کی مبارکباد بھی دے رہا ہے۔

  • ماضی کا پیچھا کرتا دیوانہ

    ماضی کا پیچھا کرتا دیوانہ

    قدیم تاریخی عمارتوں اور مقامات کو دیکھنا اور ان کا دورہ کرنا ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ ان مقامات پر جا کر خیال آتا ہے کہ کئی سال پہلے یہاں مشہور ہستیاں موجود تھیں اور انہوں نے اس جگہ اپنا وقت گزارا۔

    امریکا میں بھی تاریخ کا ایسا ہی ایک شوقین شخص ہے جو پرانے مقامات کا دورہ کر کے گئے وقت کو یاد کرتا ہے۔

    یہ شخص فلموں کا بھی بے حد دیوانہ ہے۔ یہ پرانی ہالی ووڈ فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر کی سیر کرتا ہے اور اس سیر کے دوران وہ ان مناظر کو بھی دوبارہ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے جو فلم میں دکھائے گئے۔

    اس کے ساتھ ساتھ اس نے چند تاریخی تصاویر کی بھی دوبارہ تخلیق کی کوشش کی۔

    بغیر کسی محنت کے تخلیق کیے جانے والے یہ مناظر فلم جیسے تو نہیں ہوتے تاہم لوگوں کی دلچسپی کا باعث ضرور بنتے ہیں۔ آئیے آپ بھی وہ مناظر دیکھیں۔

    مشہور سائنسدان آئن اسٹائن کی اپنی اہلیہ کے ساتھ تصویر۔

    معروف گلوکار مائیکل جیکسن کا مشہور گانا ’تھرلر‘۔

    مشہور فلم ’رش آور‘ کا ایک منظر۔

    مشہور فلم ’بلیڈ رنر‘ کا ایک منظر‘۔

    مشہور اداکارہ آڈرے ہپ برن کی فلم ’بریک فاسٹ ایٹ ٹیفنیز‘ کا منظر۔

    پچاس کی دہائی کی مشہور ہالی ووڈ اداکارہ مارلن منرو ایک تصویر کے لیے پوز دیتے ہوئے۔

    سینڈرا بلاک کی فلم ’اسپیڈ‘ کا ایک منظر۔

    فلم جیمز بانڈ کا ایک منظر۔

    #Eminem music video locations for ‘My Name Is’ . Directed by #PhilipAtwell . #rap #hiphop #90s #musicvideo

    A photo posted by Phil Grishayev (@phil_grishayev) on

    ایمینم کی ایک میوزک ویڈیو کا منظر۔

  • تاریخ کے دریچے کھولتی چند نادر تصاویر

    تاریخ کے دریچے کھولتی چند نادر تصاویر

    دنیا کا ہر بڑا شخص پیدا ہوتے ہی مشہور اور کامیاب نہیں بن جاتا۔ کامیابی حاصل کرنے سے پہلے اس کی زندگی بھی ہماری اور آپ کی طرح معمولی انداز میں گزرتی ہے بس فرق صرف انتھک محنت اور لگن کا ہوتا ہے۔

    آج ہم آپ کو مشہور شخصیات کی کچھ نادر و نایاب تصاویر دکھا رہے ہیں جن کو دیکھ کر شاید آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے۔ کیونکہ آپ نے ان معروف اور کامیاب شخصیات کو کبھی ایسا تصور نہیں کیا ہوگا۔ یہ تصاویر ان کے کامیاب ہونے سے قبل یا جدوجہد کے ابتدائی دور کی ہیں۔

    ان میں بہت سی تصاویر میں آپ اپنی زندگی سے مماثلت بھی پا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجایئے کہ آپ بھی بہت جلد کامیاب افراد کی فہرست میں شامل ہونے والے ہیں۔

    10

    ذرا بائیں جانب کونے میں کھڑے شخص کو غور سے دیکھیئے۔ یہ کوئی اور نہیں روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن ہیں اور یہ تصویر 60 کی دہائی میں کھینچی گئی۔

    1

    مشہور باکسر، اداکار اور کیلیفورنیا کے سابق گورنر آرنلڈ شیوازینگر کی کامیابی کی کہانی سے کون واقف نہیں۔ فلم ٹرمینیٹر کے مرکزی اداکار آرنلڈ کی یہ تصویر سنہ 1968 کی ہے جب وہ پہلی بار نیویارک آئے۔

    3

    سنہ 1977 ۔ دنیا کے امیر ترین شخص اور مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ان کی نوجوانی کے زمانے میں بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
    4

    سنہ 1977 ۔ امریکی صدر بارک اوباما اپنی باسکٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے ہمراہ۔

    2

    سنہ 1981 ۔ مشہور باکسر محمد علی ایک خودکشی پر مائل شخص کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    5

    سنہ 1928 ۔ مشہور فلم ساز کمپنی ایم جی ایم کا لوگو جس میں ایک شیر چنگھاڑتا ہوا نظر آتا ہے، کچھ یوں فلمایا گیا۔

    6

    سنہ 1931 ۔ اپنے شعبوں کی دو باکمال شخصیات، خاموش فلموں کے اداکار چارلی چپلن (بائیں) اور معروف سائنسدان آئن اسٹائن (دائیں)۔

    7

    برطانوی ملکہ الزبتھ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کا حصہ رہیں۔

    8

    سنہ 1981 ۔ جراسک پارک جیسی شاندار سائنسی فلمیں تخلیق کرنے والے ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ۔ ان کی گود میں بیٹھی بچی ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ ڈریو بیری مور ہے۔

    9

    سنہ 1991 ۔ سائنس اور کمپیوٹر کی دنیا کو نئی جہتیں دینے والے دو عظیم دماغ، بل گیٹس (دائیں) اور ایپل کے بانی اسٹیو جابز (بائیں)۔

    تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ