Tag: آئینی بحران

  • پنجاب میں حکومت کی تشکیل سے قبل آئینی بحران نے سراُٹھا لیا

    پنجاب میں حکومت کی تشکیل سے قبل آئینی بحران نے سراُٹھا لیا

    لاہور : پنجاب اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بغیر اجلاس بلانے سے نیا آئینی بحران کھڑا ہوگیا۔

    تفصیلت کے مطابق پنجاب میں حکومت کی تشکیل سے قبل آئینی بحران نےسراُٹھا لیا، نومنتخب پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے حوالے سے گورنر پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان قانونی محاز آرائی شروع ہونے کا خدشہ ہے۔

    اس حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بغیر اجلاس بلانے سے نیا آئینی بحران کھڑا ہوگا۔

    سبطین خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اگر مخصوص نشستوں کی تقسیم سے قبل بلانے اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کسی اور جماعت کو دینے پر آئینی بحران شدت اختیار کرے گا۔

    یاد رہے پنجاب میں ارکان اسمبلی کے حلف اور حکومت سازی کے معاملے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس فروری کے آخری ہفتے میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    الیکشن ڈے کے بعد 21 دن کے اندر آئینی طور پر اسمبلی اجلاس طلب کرنا لازم ہے ، پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ نے اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لیں ہیں۔

    پنجاب اسمبلی کے طلب کردہ اجلاس میں ارکان کا حلف، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔

  • گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ  میں  آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ میں آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    رواں ہفتے حکومتی نمائندے اور اراکینِ پارلیمنٹ آئینِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے پُرجوش انداز میں تقاریر بھی کیں جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کے وعدے اور دعوے کیے گئے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں اسی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی جاری تھا جو ان سیاست دانوں کے دہرے معیار کا ثبوت ہے۔

    یوں تو قیام پاکستان کے 9 سال بعد 1956 میں ملک کو پہلا آئین ملا تھا لیکن اس کی عمر صرف دو سال ہی رہی۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد چار سال تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ 1962 میں اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا مملکت کا دوسرا آئین یکم مارچ 1962 کو نافذ ہوا جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی۔ 8 جون کو راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لا کو حتمی شکل دی گئی۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام لایا گیا اور تمام اختیارات صدر کو حاصل تھے تاہم یہ صدارتی آئین بھی صرف 7 سال تک ہی چل سکا۔

    ملک بھر میں احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنے سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لا کے قدموں میں دبوچ لیا گیا۔ آئین سے بار بار روگردانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کردیا اور مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس صدمے نے پوری قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو 1973 میں تیسری بار لیکن ایک متفقہ آئین دے کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنے قیام کی تیسری دہائی میں دو لخت ہونے کے بعد پاکستان کی بکھری قوم کو 50 سال قبل 10 اپریل 1973 کے دن ملک کا پہلا متفقہ آئین ملا۔ اس آئین کی تشکیل میں تمام جمہوری سیاسی قوتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن کریڈٹ بہرحال ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بکھری اور اضطراب میں مبتلا قوم کو ایک متفقہ آئین دے کر پھر سے اٹھانے اور دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ملک بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔

    اس آئین میں ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ انسانی حقوق کے ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق، اداروں کی حدود، پارلیمانی اختیارات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا اس میں احاطہ کیا گیا اور ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کی گئی۔ آئین نافذ ہوا لیکن نفاذ کے صرف چند سال بعد ضیا الحق نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا جو ان کی موت تک لگ بھگ 11 برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد مشرف دور حکومت کے 9 سال بھی آئین کی پامالی میں گزرے۔

    لیکن اگر آئین سے کھلواڑ کا نوحہ صرف آمرانہ دور حکومت تک محدود ہوتا تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی کہ آمروں کے لیے تو آئین ہمیشہ ایک کھلونا ہی رہا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی آئین کی تشکیل سے لے کر اب تک ہر جمہوری دور میں کم یا زیادہ کی جاتی رہی ہے اور آئین کی محافظت کے دعوے دار ہی اس کے خلاف اقدامات کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ہر جمہوری دور میں حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا لیکن ہر طرف یہی آوازیں‌ اٹھ رہی ہیں‌ کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں آئین کی خلاف ورزیاں اور دستور کی شقوں سے جو چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اس کی مثال سابق جمہوری ادوار میں نہیں ملتی۔

    ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کی خلاف کارروائیاں، مقدمات، جیلیں آئین میں دیے گئے انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی تھیں۔ پھر جب ضیا الحق کی آمریت کے بعد 11 سال جمہوریت کا چراغ ٹمٹاتا رہا اس میں بھی اس وقت کی دو بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ) میوزیکل چیئر کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں تو انہوں نے بھی اقتدار کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے آئین سے کھلواڑ جاری رکھا۔

    1997 کا وہ دور تو سب کو یاد ہوگا جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں 1973 کے آئین میں 15 ویں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنی ذات کے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ پر ن لیگی اراکین پارلیمنٹ کے حملے نے پوری دنیا میں پاکستان کے جمہوری امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

    آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو بااختیار بنایا جو کچھ حلقوں کے نزدیک اب بھی متنازع ہے اور وہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ یہ بحث الگ کہ اس کے کیا فوائد یا کیا نقصانات تھے۔ 1973 میں آئین کے نفاذ سے اب تک صرف دو بار جمہوری حکمرانوں نے آئین کو طاقت دی۔ ایک جب صدر کے اسمبلی توڑنے کے 58 ٹو بی کے اختیارات کو نواز شریف دور حکومت میں ختم کیا گیا کیونکہ اس آٹھویں آئینی ترمیم سے نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی نڈھال تھے اور اقتدار سے محرومی کا زخم کھا چکے تھے۔ دوسرا مرتبہ سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے آئین کو طاقت ور ثابت کیا، لیکن اس کے بعد دیکھا جائے تو ہمیں 50 سالہ تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو آئین کے احترام اور عملدرآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مثالی رہی ہو۔ بلکہ ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر جمہوری حکمران نے بھی اپنے مفاد میں قانون اور آئین کو موم کی ناک سمجھا اور جہاں مفاد نظر آیا وہیں اس کو موڑ لیا یا اسی تناظر میں اس کی تشریح کر ڈالی اور کروا لی۔

    2023 شروع ہوا تو 1973 کے آئین پاکستان کی وارث کہلانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سال آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور یہ خوش آئند ہے کہ مہذب قومیں اپنے دستور کی پاسداری سے ہی پہچانی جاتی ہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا۔

    پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ اور 1973 کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے جوش ولولے سے آئین کے تحفظ اور پاسداری کے عزم پر مبنی خوش کن تقاریر کیں لیکن اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل منظور کر لیا جس کو آئینی ماہرین آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی ایک سماعت شروع ہوچکی ہے اور اگلی سماعت عیدکے بعد مقرر ہے۔ اس پر فیصلہ بھی آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے راہ متعین کرے گا۔

    اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی معاشی بحران کے ساتھ عدم برداشت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 90 کی دہائی سیاسی کھلاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پاکستان میں واپس لوٹ آئی ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے لگ بھگ تین ماہ ہونے کو ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن ہر حال میں ہونے ہیں اور اس سے کوئی فرار ممکن نہیں لیکن لگتا ہے کہ اس وقت پوری حکومتی مشینری اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہے۔

    حکومت اور الیکشن کمیشن نے پہلے معاشی ابتری اور امن و امان کی صورتحال کو وجہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جس پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی جب کہ گورنر کے پی تو تاریخ دینے کے کچھ دن بعد ہی مُکر گئے۔ پھر اچانک الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو شیڈول الیکشن منسوخ کرتے ہوئے نئی تاریخ 8 اکتوبر دی۔ پی ٹی آئی کے عدالت سے رجوع کرنے پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم اور حکومت کو فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے گولڈن جوبلی سال میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت اور ان کی اتحادی پی پی پی سر تسلیم خم کرتے اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کیے جاتے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بہانے بنائے۔ قومی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے فنڈز دینے سے انکار کرتے ہوئے بل مسترد کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت اور اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے پَر کاٹنے اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کا اختیار چھیننے یا اس کی افادیت کم کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرایا اور منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا اور جب وہاں سے اعتراض لگ کر واپس آیا تو بجائے اس کے کہ ان اعتراضات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جاتا اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عجلت میں منظور کرا لیا جو 10 روز بعد ازخود قانون بن جائے گا۔

    بہرحال، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کرے۔ اگر اس پر بھی سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کی طرح عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں جاری آئینی بحران کہیں زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔

  • پیروکی پہلی خاتون صدر نے عہدہ سنبھال لیا

    پیروکی پہلی خاتون صدر نے عہدہ سنبھال لیا

    لیما: لاطینی امریکا کے ملک پیرو کے صدر پیڈرو کاستیلو کی برطرفی کے ایک روز بعد نائب صدر دینا بولوارتے نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا، وہ پیرو کی پہلی خاتون صدر ہیں۔

    گزشتہ روز  پیرو کے صدر پیڈرو کاستیلو مواخذے کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عہدے سے فارغ ہوگئے تھے، پیڈرو کاستیلو نے بطور صدر کانگریس کو تحلیل کرنےکا اعلان کیا تھا۔

    کئی گھنٹوں کی سیاسی غیر یقینی صورت حال کے بعد بالآخر نائب صدر دینا بولوارتے نے ملک کے نئے صدر کا عہدہ سنبھال لیا، 60 سالہ بولوارٹ 26 جولائی 2026 تک صدر رہیں گی۔

    واضح رہے کہ کل پیرو کے صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی کوشش گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا گیا تھا۔

    پیرو کے مسلح افواج نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا غیر آئینی قرار دے دیا، پیرو کے ارکان پالیمنٹ کا مؤقف تھا کہ صدر نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی کوشش کر کے آئینی بحران پیدا کیا۔

    پیرو کی خاتون سیاست دان ڈینا بولوارتے نے ان کی جگہ لیتے ہوئے عبوری صدر کی حثیت سے حلف اٹھا لیا۔

    ڈینا بولوارتے نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج سے آئندہ 26 جولائی سن 2026 تک کے لیےصدارت کا عہدہ سنبھال رہی ہوں، انہوں نے کہا کہ میں یہ جانتے ہوئے یہ عہدہ قبول کر رہی ہوں کہ میرے اوپر بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔

    پیرو کی پہلی خاتون صدر نے کہا کہ میری پہلی ترجیح پیرو کے تمام لوگوں کے درمیان ممکنہ وسیع تر اتحاد کی کوشش ہوگی۔ 

  • حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک برقرار، پنجاب میں آئینی بحران شدت اختیار کر گیا ‏

    حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک برقرار، پنجاب میں آئینی بحران شدت اختیار کر گیا ‏

    لاہور: ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آئینی بحران شدت اختیار ‏کرگیا ہے، کئی روز گزر جانے کے بعد بھی نئی حکومت کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے، 24 دن گزرنے کے باوجود 12 کروڑ عوام کا صوبہ بغیر کسی حکومت کے چل رہا ہے، اور تمام انتظامی امور ٹھپ پڑے ہیں۔

    پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے ‏باوجود دو بار ملتوی ہو چکی ہے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے صدر مملکت کو نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد ہفتہ کے روز گورنر ہاؤس میں حلف برداری کے لیے تمام انتظامات مکمل ‏کر لیے گئے تھے، تاہم گورنر پنجاب کی طبیعت بگڑنے کے باعث انھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا، جس کے باعث حلف برداری ‏کی تقریب نہ ہو سکی۔

    گزشتہ روز گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مبینہ آئینی خلاف ورزیوں کی نشان دہی ‏کی ہے، اور اس سلسلے میں انھوں نے تحفظات پر مبنی ایک رپورٹ صدر پاکستان کو بھیج دی ہے، انھوں نے رپورٹ میں ‏انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوا، ووٹنگ کا ریکارڈ ٹیمپرڈ ہے۔

    خیال رہے کہ صوبہ پنجاب میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اور اسپیکر پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمل بھی تاخیر ‏کا شکار ہے، 6 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی جب کہ اسپیکر کے ‏خلاف 7 اپریل کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی۔

    اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے اسمبلی کا اجلاس 28 اپریل کو طلب کر رکھا ہے، جس میں 3 روز باقی ہیں، تاہم حکومت ‏اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک اب تک برقرار ہے۔

  • آئینی بحران سے بچنے کیلئے نئے وزیراعظم کی تقرری کی جائے، سابق چیف جسٹس

    آئینی بحران سے بچنے کیلئے نئے وزیراعظم کی تقرری کی جائے، سابق چیف جسٹس

    اسلام آباد: سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے مطالبہ کیا ہے کہ آئینی بحران سے بچنے کے لیے فوری طور پر نئے شخص کو نامزد کر کے وزیراعظم کی تقرری کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی بھی وزیر کو وزیراعظم کے اختیارات نہیں دیے جاسکتے تاہم آئینی بحران سے بچنے کے لیے وزیر اعظم کی سفارش پر دوسرے کسی شخص کو وزیراعظم کے عہدے پر تعینات کیا جاسکتاہے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کی جگہ کام کرنے کا باضابطہ کوئی نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا گیا اگر ایسا کیا گیا ہے تو یہ صریحاً آئین پاکستان کے خلاف ہوگی۔

    سابق چیف جسٹس نے آئینی حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جنگ یا ایمرجنسی کی صورت حال میں وزیر اعظم ہی صدر کو اپنی تجاویز بھیج سکتا ہے اور اپنی جگہ کسی اور شخص کو منصب پر بٹھانے کی تجویز دے سکتا ہے۔

    بجٹ سیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بجٹ کی منظوری وزیراعظم کی موجودگی میں ہی ہوسکتی ہے۔

    اس موقع پر انہوں نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

    مزید پڑھیں :  لندن میں قیام کے دوران وزیراعظم اجلاسوں کی صدارت ویڈیو لنک سے کریں گے

     واضح رہے وزیر اعظم پاکستان آج کل معالجین نے ان کی خراب طبی رپورٹس آنے پر جلد از جلد اوپن ہارٹ سرجری کی ہدایت کی ہے، ترجمان وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق میاں محمد نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری منگل کے روز برطانیہ کے اسپتال میں کی جائے گی۔

    دوسری جانب خواجہ آصف نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آپریشن کے بعد وزیر اعظم دو ہفتے آرام کے بعد سفر کے قابل ہوں گے۔