Tag: آئینی ترامیم

  • 26 ویں آئینی ترمیم پر بڑا بریک تھرو

    26 ویں آئینی ترمیم پر بڑا بریک تھرو

    اسلام آباد :  آئینی ترامیم پر حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان معاملات طے پاگئے، ترامیم ایس سی او اجلاس کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم پر بڑا بریک تھرو سامنے آیا ، ذرائع نے بتایا کہ آئینی عدالت کے قیام پر حکومت اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان معاملات طے پاگئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان کی تجاویز سے اتفاق کر لیا ہے، ایوان صدرمیں ہونے والی ملاقات میں آئینی ترمیم پرتفصیلی مشاورت ہوئی۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم پر اپنا مسودہ دو سے تین دن میں حکومتی ٹیم کے حوالے کرے گی ، جس کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قانونی ٹیم اپنا مسودہ جے یو آئی ف سے شئیر کرے گی۔

    ذرائع کے مطابق مولانا نے آئینی عدالت کے قیام پر مشروط رضامندی ظاہر کی ہے، ججز تقرری کے طریقہ کار سمیت دیگر امور پر ترامیم بعد میں لائی جائیں گی۔

    ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں آئینی عدالت کے قیام اور اس کے ججز کے تقرر اور اختیارات سے متعلق ترمیم لائی جائے گی، آئینی ترمیم شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی۔

    خیال رہے گذشتہ روز صدر وزیراعظم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں شرکت کی تھی۔

    یاد رہے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم بل پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے سے ناکامی پر آئینی ترامیم کا بل دس سے بارہ دن کے لیے موخر کردیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا بل 10سے 12روز بعدقومی اسمبلی میں پیش ہوگا، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بل پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ کے بغیر پاس کرائیں گے، بل کافی عرصے سے زیر بحث تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نےیو ٹرن لیا۔

  • آئینی ترامیم کیخلاف کیخلاف سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر

    آئینی ترامیم کیخلاف کیخلاف سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، درخواست ایڈووکیٹ صائم چوہدری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ججزکی ریٹائرمنٹ کی عمر سےمتعلق آرٹیکل 179کوبنیادی آئینی ڈھانچہ قراردیاجائے ، قراردیاجائےحکومت عدلیہ کی آزادی اورغیر جانبداری میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

    درخواست میں آئینی ترامیم کوبنیادی حقوق ،آئین ،عدلیہ کی آزادی کےمنافی ہونے پرکالعدم قراردینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔

    درخواست میں وفاقی حکومت، اسپیکر ،چیئرمین سینٹ اوروزارت قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم بل پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے سے ناکامی پر آئینی ترامیم کا بل دس سے بارہ دن کے لیے موخر کردیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا بل 10سے 12روز بعدقومی اسمبلی میں پیش ہوگا، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بل پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ کے بغیر پاس کرائیں گے، بل کافی عرصے سے زیر بحث تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نےیو ٹرن لیا۔

  • آئینی ترامیم  آئندہ ہفتے قومی اسمبلی میں  پیش کئے جانے کا امکان

    آئینی ترامیم آئندہ ہفتے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے کا امکان

    اسلام آباد : قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم آئندہ ہفتے پیش کئے جانے کا امکان ہے، اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس آئندہ ہفتے بلانے پر غور جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آئندہ ہفتے بلانے پر غور جاری ہے، قومی اسمبلی اجلاس سات اکتوبر کو بلائے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم آئندہ ہفتے پیش کئے جانے کا امکان ہے، آئینی ترمیم 8 یا 9 اکتوبر کو پیش کی جاسکتی ہے۔

    یاد رہے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم بل پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے سے ناکامی پر آئینی ترامیم کا بل دس سے بارہ دن کے لیے موخر کردیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا بل 10سے 12روز بعدقومی اسمبلی میں پیش ہوگا، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بل پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ کے بغیر پاس کرائیں گے، بل کافی عرصے سے زیر بحث تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نےیو ٹرن لیا۔

  • 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، بلاول بھٹو

    25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، بلاول بھٹو

    اسلام آباد: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی اور مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ کرتا ہے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کی اور آئینی عدالت اور عدالتی اصلاحات سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔

    اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ 25 سے پہلے ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ترامیم کو میں لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا، مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہم سے پہلے ترامیم کا آئیڈیا عدلیہ سے شیئر کیا اور اس کے بعد مخصوص نشستیں ہی ہم سے چھن لی گئیں، شاید اسی لیے اس بار ترامیم کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

    صحافی نے سوال کیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے؟ اس پر بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائیں، فکر نہ کریں معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے۔

    سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ ہے، ہم صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں چاہتے ہیں، کراچی بدامنی کیس کو برسوں سے زیر التوا رکھا گیا ہے جسے بنیاد بنا کر عدالت نے سندھ کا بلدیاتی نظام تک بدلا، بدامنی کیا صرف کراچی میں ہے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں؟

    انہوں نے کہا کہ سندھ کیلیے بدامنی کیس میں عدالت آئین ہی الگ کر دیتی ہے، کوئی جج آ کر کہہ دیتا ہے 50 کی دہائی والا کراچی چاہیے، اب ایسے تو شہر میں معاشی مواقع ضائع ہو جائیں گے، 50 کی دہائی والے کراچی پر جائیں تو نہ بلڈنگ بنیں نہ کچھ ہو۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اختیار کا غلط استعمال کرے تو میں کم از کم بول تو سکتا ہوں لیکن عدلیہ کے غلط اختیار کے استعمال پر بولنے پر تو توہین لگ جاتی ہے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ آئینی عدالت کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ ہوں یا جسٹس منصور 3 سال کیلیے ہوں گے، جسٹس منصور علی شاہ پر یقین ہے وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے، ہم نے صدر سے سارے اختیارات لے کر وزیر اعظم کو دیے تو عدالت کے کیوں نہیں؟

  • ’’آئینی ترامیم کیلئے نمبرز پورے ہیں، جب چاہیں کرا سکتے ہیں‘‘

    ’’آئینی ترامیم کیلئے نمبرز پورے ہیں، جب چاہیں کرا سکتے ہیں‘‘

    حیدرآباد: وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کیلئے نمبرز پورے ہیں، جب چاہیں کراسکتے ہیں۔

    شرجیل میمن کی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ہر سیاسی جماعت کا اپنا نظریہ ہوتا ہے، پی پی چاہتی ہے ملک کی بہتری کیلئے تمام جماعتیں ملکر چلیں، مختلف سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں ان کی تجاویز مسودے میں شامل کریں، حکومت کے پاس آئینی ترامیم کیلئے نمبرز پورے ہیں۔

    سینئروزیر شرجیل میمن نے کہا کہ حکومت جب بھی چاہے آئینی ترامیم منظور کراسکتی ہے، پیپلزپارٹی چاہتی ہے تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے آگے بڑھیں۔

    انھوں نے کہا کہ 20،20 سال مقدمات التوا کا شکار ہیں، عام آدمی انصاف چاہتا ہے، ثاقب نثار کا دور جوڈیشری کا بدترین دور سمجھا جاتا ہے، ثاقب نثار نے پی ٹی آئی کیلئے کارکن اور پولنگ ایجنٹ کا کام کیا۔

    شرجیل میمن نے کہا کہ ثاقب نثار نے مخالفین کو ڈس کوالیفائی کیا، صادق و امین کے سرٹیفکیٹ بانٹے، ثاقب نثار نے جو کیا تو ظاہر ہے ملک میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے چند لوگ بیٹھ کر پورے ادارے کو یرغمال بنالیں، افتخار چوہدری اور ثاقب نثار نے عدلیہ کو یرغمال بنالیا تھا۔

    صوبائی وزیراطلاعات نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، کچھ لوگ سہولتکار بنے، جوڈیشری کے چند لوگوں نے مشرف کی غیرآئینی ترامیم کو آئینی قرار دیا، جوڈیشری میں چند لوگ قابض ہوکر ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل کردیتے ہیں۔

    شرجیل میمن نے کہا کہ آئینی ترامیم کے بعد چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی، تمام تجاویز پر اتفاق ہوگا تو متفقہ آئینی ترامیم سامنے آئےگی۔

    انھوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ متفقہ آئینی ترامیم کو ہی آگے لیکر چلیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں بیٹھ کر کوشش کررہا ہے کہ انتشار کیسے پیدا کرے، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔

  • آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    آئینی ترامیم کا مسودہ اور ایک ’’ہاں‘‘!

    ملک کے سیاسی افق پر اس وقت جو سب سے اہم معاملہ چھایا ہوا ہے، وہ مجوزہ آئینی ترامیم کا ہے۔ آئینی ترامیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر موجودہ وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت حکومت سمیت ’’سب‘‘ کی جان مولانا فضل الرحمان کے پاس موجود طوطے (ہاں) میں ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جب ملک میں آئینی ترامیم کا زور اپنے پورے شور کے ساتھ اٹھا، تو حکومت کی جانب سے اس آئینی ترامیم کے مسودے کو اس طرح چھپایا گیا کہ جیسے یہ کوئی قانون سازی کا مسودہ نہیں بلکہ ایک نامحرم دوشیزہ ہو جس کا دیدار اپوزیشن پر تو حرام، لیکن خود حکومتی وزرا بھی اس کی جھلک دینے سے محروم رہے۔ اس آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے، جہاں حکومت اور اس کے حمایتیوں نے اپنا ہر حربہ استعمال کیا۔ وہیں اپوزیشن جماعت بالخصوص تحریک انصاف نے بھی اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کا یقین کی حد تک گمان یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے گا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جنہیں سول عدالتوں سے ہر مقدمے میں بریت یا ضمانت مل رہی ہے، انہیں فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔

    آئینی ترامیم کے پہلے راؤنڈ میں تو بظاہر پی ٹی آئی کی جیت ہوئی اور فضل الرحمان کے آئینی ترامیم کا مسودہ مسترد کرنے اور منظوری کی حمایت سے دو ٹوک انکار کے بعد کچھ دن یہ معاملہ دب گیا۔ اسی دوران صدر مملکت کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری دے دی جو حیران کن طور پر اسی قانون سازی کی نفی ہے، جس کی موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال پی ٹی ایم کی حکومت میں منظوری دی تھی جب کہ قومی اسمبلی سمیت وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے حکومتوں کے زیر سایہ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کا خط لکھ کر ایک اور لڑائی کا میدان کھول دیا ہے بلکہ حقیقت میں تو مولانا فضل الرحمان کی ویٹو کی پوزیشن ختم کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے سے جہاں حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہوگئی تھی اور مولانا کی 8 نشستوں کی قدر وقیمت بڑھ گئی تھی۔ اب ان خطوط پر عملدرآمد کی صورت میں جہاں حکومت کو واپس دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے وہیں مولانا کے نہ ماننے کی صورت میں ان سے کنارا بھی کیا جا سکتا ہے، جب کہ پی ٹی آئی کا ایوان سے صفایا ہوسکتا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان کا سیاست میں کردار کچھ جماعتوں کے نزدیک متنازع رہا ہے اور ماضی میں وہ اکثر ہر حکومت کے پشتی بان کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی لیے وہ بالخصوص اپنے اپنے وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ تاہم پہلے حکومت کا حصہ نہ بن کر انہوں نے اپنے ناقدین خاص طور پر پی ٹی آئی کو حیران کیا اور اب آئینی ترامیم پر تمام تر پرکشش حکومتی پیشکشوں کے باوجود اب تک ہاں کی اقرار نہ کرنے سے ان کا سیاسی قد جو پہلے ہی بلند ہے، مخالفین کی نظر میں بھی بلند ہوگیا ہے اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کی مولانا کے بارے میں ماضی میں جو رائے تھی، وہ غلط تھی۔ اس معاملے کے ذریعے پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں جو دوریاں ہوچکی تھیں وہ بھی قربت میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو ملکی سیاست کے لیے اچھا شگون کہا جا سکتا ہے۔

    اس آئینی ترامیم میں ایسا کیا ہے کہ جس کی منظوری کے لیے حکومت اور اس کے حمایتی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں، تو پی ٹی آئی اس کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔ میڈیا پر اس حوالے سے جو بھی مسودے گردش کر رہے ہیں ان کے بارے میں حکومتی وزرا خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اصل نہیں۔ اصل کیا ہے شاید یہ حکومت کو بھی علم نہیں، یا پھر کچھ خاص کو ہی علم ہے لیکن ایک بات جو اب سیاسی رہنماؤں بالخصوص بلاول بھٹو اور پی پی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دی ہے، کہ وہ آئینی عدالت قائم کر کے رہیں گے کیونکہ ملک میں عوام انصاف کے لیے رُل رہے ہیں لیکن عدالتوں کو سیاسی مقدمات نمٹانے سے فرصت نہیں۔

    بات اس حد تک تو درست ہے، لیکن باقی میڈیا میں زیر گردش مصدقہ وغیر مصدقہ مسودے کے مطابق اگر آئینی عدالت میں چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کرے اور وہ چیف جسٹس آف پاکستان کہلائے۔ سپریم کورٹ کو اس کا ماتحت کر دیا جائے اور اس کا چیف صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کہلائے جب کہ اس کی تقرری بھی آئینی عدالت کا چیف جسٹس کرے۔ ہائی کورٹ کے ججز کا کہیں بھی تبادلہ کر دیا جائے اور جہاں ان کا تبادلہ ہو وہاں وہ چیف جسٹس نہیں بن سکتے، سمیت ایسے کئی مجوزہ اقدامات بتاتے ہیں کہ اگر کام ٹھیک بھی ہے تو کرنے کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور کسی بھی عمل کی صداقت کا پیمانہ تو نیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری کے شور میں چند روز یہ معاملہ دبا رہنے کے بعد اب دوبارہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اطراف سے فضل الرحمان کی جانب سے ان کے موقف کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے جب کہ فضل الرحمان کی حال ہی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو نے بھی کچھ ابہام پیدا کر دیا ہے تاہم جے یو آئی رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اس معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں اور جو بھی ملک وقوم کے لیے بہتر ہوگا وہی فیصلہ کریں گے لیکن ایک بات اب ابھی دہرائی گئی ہے کہ جے یو آئی کو آئینی ترامیم کا مسودہ اب تک نہیں ملا جب کہ چالیس ترامیم میں سے صرف ایک ترمیم کے بارے میں فضل الرحمان کو آگاہ کیا گیا ہے۔

    ماہر قانون عابد زبیری نے تو انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے مطابق سپریم کورٹ کے جو احکامات ہیں سب اس کو ماننے کے پابند ہوں گے۔ وہاں سے حکومت نے سپریم کورٹ کا لفظ ہی نکال دیا ہے اور اس کی جگہ وفاقی آئینی عدالت لکھ دیا گیا ہے یعنی سپریم کورٹ اس ترمیم کی منظوری کے بعد ایک ماتحت عدالت گی اور آئینی عدالت کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی حیثیت ایک سول کورٹ جیسی رہ جائے گی، جس کے چیف کی حیثیت بھی سول کورٹ کے جج جتنی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں صرف چھوٹے موٹے دیوانی فوجداری جیسے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے پاور اور اختیارات کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ترمیمی مسودے کے مطابق ہائی کورٹس نیشنل سیکیورٹی کے مسائل بھی نہیں حل کرسکے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عمر 68 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے کسی کا بھی تقرر چیف جسٹس کیا جا سکے گا۔

    کچھ قانونی ماہرین آئینی عدالت کو انتہائی ضروری بھی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے 50 سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، لیکن جہاں ہر معاملے پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگے تو پھر ہر تبدیلی پر شکوک اور انگلیاں تو اٹھتی ہیں۔

    26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو ابھی زیر بحث ہے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف اس وقت عالمی سطح پر 130 ویں نمبر پر ہے اور وہ نچلے چند نمبروں سے ہی اوپر ہے۔ ایسے میں انصاف کو سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان پنڈولم بنا دینے سے پاکستان کے حصے میں مزید جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر انا اور سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر یکجا ہوں اور آئینی ترامیم کا ایسا پیکیج لائیں جس سے کا کوئی فریق نشانہ بھی نہ ہو اور عوام کو بروقت انصاف بھی مل سکے، لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا۔

    نوٹ: (یہ مصنف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)

  • گورنر جیسے عہدوں کیلئے اپنا مؤقف  نہیں چھوڑ سکتے، عبد الغفور حیدری

    گورنر جیسے عہدوں کیلئے اپنا مؤقف نہیں چھوڑ سکتے، عبد الغفور حیدری

    اسلام آباد : جے یو آئی رہنما عبد الغفور حیدری کا کہنا ہے کہ ہم اصول چھوڑ کر گورنر جیسےعہدوں کیلئے اپنا مؤقف نہیں چھوڑ سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق جمیعت علما اسلام ف کے رہنما عبد الغفور حیدری نے پارلیمنٹ ہاؤس میں غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم پر حکومت کواتنی جلدی تھی کہ اتحادیوں کوبھی اعتمادمیں نہیں لیا، آئینی ترامیم پر مذاکرات کی درخواست کےبعدپارٹی رکن کےساتھ ڈرافٹ شیئر ہوا تھا۔

    جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حلف دیا گیا تھا کسی کے ساتھ ڈرافٹ شیئر نہیں کرنا، پیپلز پارٹی کے دوستوں نے کہا ڈرافٹ دیکھ لیں پھر مذاکرات کرتےہیں لیکن حکومت خود سنجیدہ نہیں تو معاملات کیسے چلیں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ ہمیں قائل کرنےمیں مایوسی کےبعدانہوں نے رابطہ نہیں کیا، پی پی کا ڈرافٹ نہیں ملا، ہم سمجھ رہے تھے، شاید پیپلز پارٹی حکومت سے ملکر درمیانی راستہ نکالنا چاہتی ہے لیکن حکومتی ڈرافٹ سے اخذ کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تھیں۔

    جمیعت علما اسلام ف کے رہنما نے کہا کہ آئینی عدالت کیلئے فیصلہ تب ہوگا جب ہمیں ڈرافٹ ملےگا، ہم اصول چھوڑ کر گورنر جیسےعہدوں کیلئے اپنا مؤقف نہیں چھوڑ سکتے۔

    ان کا مزید بتانا تھا کہ آئینی ترامیم پر پی ٹی آئی کوبھی ڈرافٹ بنانے کاکہاہے، ہمیں حکومت نے الگ ڈرافٹ بتایا اور پی پی نے کہا ان کے پاس الگ ڈرافٹ ہے، ادارے کو متنازع بنایا جائے تو اس سے اچھا تاثر نہیں جاتا۔

  • فواد چوہدری نے آئینی ترامیم کو پرویز مشرف کے پی سی او سے بدتر قرار دے دیا

    فواد چوہدری نے آئینی ترامیم کو پرویز مشرف کے پی سی او سے بدتر قرار دے دیا

    اسلام آباد : سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے آئینی ترامیم کو پرویز مشرف کے پی سی او سے بدتر قرار دے دیا اور کہا اس کی منظوری سے آئینی بحران مزید بڑھ جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ جمیں تبدیلی کرکےبینچ بنانے کا اختیار بدلا گیا، آئینی ترمیم کرکےاب سپریم کورٹ کوبھی ختم کیا جارہا ہے۔

    سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ تبدیلی پرفوری فل کورٹ اجلاس ہوناچاہیےتھا، سپریم کورٹ کے مستقل ججزکوبیٹھناچاہیےردعمل دیناچاہیے، جسٹس منصورعلی شاہ کی رائےآچکی ہےانہوں نے اسے مداخلت قراردیا، جسٹس منیب اختراوردیگرججزنےجواس وقت مؤقف اپنایادرست ثابت ہوا۔

    انھوں نے کہا کہ عجیب بات ہےحکومت کیخلاف مقدمےہیں اورحکومت ہی بینچ بنائےگی، کل بھی شہرہ آفاق فیصلہ آیاکہ جن پردھاندلی کاالزام ہےٹریبونل بھی وہی بنائیں گے۔

    سابق وزیر نے مزید کہا کہ پاکستان میں آئین وقانون اوراخلاقیات کابنیادی کام ہی ختم ہوگیاہے، بظاہر ایسالگ رہاہےکہ سپریم کورٹ بھی ایک محکوم ادارہ بنتاجارہاہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم پی سی او ہے آج نہیں تو کل ججز وکلا کھڑے ہوں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کابہت نقصان ہورہاہےسیاسی عدم استحکام ہے،معاشی عدم استحکام کیساتھ اب آئینی بحران بھی پیداکیےجارہےہیں، آئینی بحران نئی مجوزہ ترامیم کی منظوری کےبعدمزیدبڑھ جائےگا۔

    انھوں نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم پرججزاوروکلاردعمل دینگے،حکومت کوپیچھےہٹ جاناچاہیے، محکوم ادارے میں کون فرائض انجام دیگا،بھارت میں ججزنےپریس کانفرنس کردی تھی ، ایسالگتا ہے پاکستان کے ججز پر مزید دباؤ ڈالا گیا تو پریس کانفرنس قریب ہی ہے۔

    سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ ججزکومکمل پُش کیاجارہاہے،اسلام آبادہائیکورٹ کےججزکےساتھ کیاہواسب نے دیکھا، حکومت کوسوچناچاہیےمسئلہ بانی پی ٹی آئی کوسزادینےکانہیں ہے، مسئلہ یہ ہےکہ حکومت کے پاس بانی پی ٹی آئی کےبیانیےکاکوئی جواب نہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست زرداری، بلاول، نواز اور شہبازشریف سے بہت آگے چلی گئی ہے اور مسئلہ عدلیہ پر آگیا ہے اب تو وکلا کو نکلنا ہوگا، جلسوں سے کام نہیں چلے گا۔

  • حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو فوجی عدالت کے حوالے کرنا چاہتی ہے، سلمان اکرم راجہ

    حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو فوجی عدالت کے حوالے کرنا چاہتی ہے، سلمان اکرم راجہ

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو فوجی عدالت کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرام راجہ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں بات کرتے ہوئے کہا آئینی عدالت بنتی ہے تو بدقسمتی ہوگی ،چپقلش کا ماحول ہے، شب خون مار کر اس وقت آئینی عدالت بنانا مناسب نہیں ، آئینی عدالت اتفاق رائے سے بننی چاہیے۔

    سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ میں اصولی طورپر بھی آئینی عدالت کےخلاف ہوں ، یہ بالکل غلط ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اوپر ایک عدالت بنادیں، ہر ایک کا فرض ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم مانیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں یہ آئینی عدالت بنانے کی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنے کی ترمیم ہے ، یہ چاہتے ہیں ایسی آئینی عدالت ہو جس کا چیف جسٹس وزیراعظم خود لگائے گا۔

    رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ آئینی عدالت بنا کر پی ٹی آئی پرپابندی کیلئے ریفرنس لاناچاہتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ملٹری عدالت کے حوالے کرنا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سب کچھ کرکے حکومت آئین کا حلیہ بگاڑنا چاہتی ہے، ایسا آئینی نظام جس کی بنیاد دھوکہ دہی ہو وہ نہیں چل سکتا، بدقسمتی سے یہاں پر ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے لوگوں کےاہلخانہ کو اغواکیاجاتاہے۔

    پی ٹی آئی کے رہنما نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم اسوقت ناقابل قبول ہے ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے ، اس وقت جو کچھ بھی ہورہاہے اس کا مقصد صرف بدنیتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانتے تو نظام گرجاتاہے ، حکومت آئین کا مذاق اڑارہی ہے تو کیسے ہمارے بچے آئین پسند رہیں گے، میں سمجھتاہوں جھوٹ ،فریب کا نظام نہیں چل سکتا، کہیں نا کہیں سے آواز اٹھے گی جو چنگاری بنے گی ہم کھڑے رہیں گے۔

    سینئر رہنما کا مزید کہنا تھا کہ نظرآرہاہےکہ لوگوں کو ادراک ہورہاہے کہ بنیادی اصولوں کیساتھ کھڑا ہوناہوگا، انسانی حقوق پر اس وقت بڑےبڑےدانشور چپ کرکے کیوں بیٹھے ہیں۔

  • حکومت کا آئینی ترامیم کے معاملے پر بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

    حکومت کا آئینی ترامیم کے معاملے پر بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے آئینی ترامیم پر بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیا ، وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ ترمیم پر بریفنگ دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے آئینی ترامیم کے معاملے پر بار ایسوسی ایشنز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیا ، ،ذرائع نے بتایا کہ وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ بارایسوسی ایشنز کو ترامیم پربریفنگ دیں گے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

    دوسری جانب وزیر قانون نے گزشتہ رات سے چلنے والی اتحادیوں کیساتھ پریس کانفرنس کی خبرکی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کیساتھ پریس کانفرنس کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بار کونسلزاسٹیک ہولڈرزہیں ان کو اعتماد میں لیں گے، اس معاملے پر بارکونسلز اجلاس میں آج شرکت کرکےحکومتی مؤقف واضح کروں گا اور بارکونسلزنمائندوں کیساتھ ہی ممکنہ طورپرمیڈیاسےگفتگو کروں گا۔