Tag: آئینی ترامیم

  • آئینی ترامیم : وزیراعظم  کا اتحادی جماعتوں  کے ارکان کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

    آئینی ترامیم : وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں کے ارکان کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی ترامیم پر اتحادی جماعتوں کے ارکان کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی اراکین اسمبلی کوعشائیہ پرمدعوکر لیا، عشائیہ میں سینیٹ اورقومی اسمبلی ارکان شریک ہوں گے، جس میں آئینی ترامیم پرحکومتی اراکین کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

    حکومت کی جانب سےپارلیمان میں آئینی ترمیم اتوارکوپیش کیےجانےکاامکان ہے ، حکومت اپنےممبران کی مکمل حاضری کویقینی بنارہی ہے اور وزیراعظم نےتمام اتحادی ارکان کوپیرتک اسلام آبادمیں رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    بیرون ملک جانے والوں کو بھی واپس بلالیا گیا ہے، رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز فرانس، عبدالغفور حیدری آج چین سے وطن واپس پہنچیں گے۔

    ن لیگی رہنما ،اعجاز الحق نے بتایا کہ ترامیم اتفاق رائےسےہوں تواچھی بات ہے، اداروں میں تصادم نہیں ہوناچاہیے۔

    خیال رہے آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت منظور کرانے کے لیے اسمبلی میں دو سو چوبیس ووٹ درکار ہیں، حکومتی ارکان کی تعداد دو سوچودہ ہے۔ حکومت کومزید دس ووٹ درکار ہیں۔

    سینیٹ میں دوتہائی اکثریت چونسٹھ ارکان کی بنتی ہے جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد ساٹھ ہے تاہم حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے آئینی ترامیم منظور کرانے کیلئے نمبرز پورے ہیں۔

  • جوڈیشل پیکج میں کون کون سے قانون سازی متوقع ؟

    جوڈیشل پیکج میں کون کون سے قانون سازی متوقع ؟

    اسلام آباد : حکومت کی آئینی ترامیم کی پارلیمان سے منظورکرانے کی تیاری کرلی ہے ، جوڈیشل پیکج میں کون کون سے قانون سازی متوقع ہے؟

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آج عدلیہ سے متعلق ترامیم پیش کی جائیں گی، ترامیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مدت ملازمت میں اضافے اور چیف جسٹس کی تعیناتی سےمتعلق شق سمیت مختلف امورشامل ہوں گے۔

    جوڈیشل پیکج میں ایک اہم ترمیم بھی پیش کیے جانے کا امکان ہے کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ہیں، سپریم کورٹ کے تمام ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت 65برس سے بڑھا کر 68برس کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

    موجودہ چیف جسٹس کی عمر میں توسیع ہوگی تو اطلاق دوسرے تمام ججوں کی عمر پر بھی ہوگا، اگر ایوان بالا اور ایوان زیریں سے یہ ترمیم منظور ہو گئی تو پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 2027 تک بطور چیف جسٹس قائم رہیں گے، ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ 27 نومبر 2030 تک بطور جج تعینات رہیں گے۔

    آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت منظور کرانے کے لیے اسمبلی میں دو سو چوبیس ووٹ درکار ہیں، حکومتی ارکان کی تعداد دو سوچودہ ہے۔ حکومت کومزید دس ووٹ درکار ہیں۔

    سینیٹ میں دوتہائی اکثریت چونسٹھ ارکان کی بنتی ہے جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد ساٹھ ہے تاہم حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے آئینی ترامیم منظور کرانے کیلئے نمبرز پورے ہیں۔

  • عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا رد عمل

    عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا رد عمل

    اسلام آباد: عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پر جہاں حکومتی اراکین نے متضاد بیان دیے ہیں وہاں دو اہم سیاسی شخصیات مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا رد عمل بھی سامنے آ گیا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ممکنہ آئینی ترامیم پر مؤقف دیا کہ ’’ہماری تجویز کے مطابق آئینی ترمیم آئی تو پھر دیکھیں گے۔‘‘

    بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ترمیم کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کمیٹی کرتی ہے کہ ترمیم کرنی ہے یا نہیں، جب کہ پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن بھی موجود ہے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع انفرادی معاملہ ہے۔

    یاد رہے کہ جمعرات کو جے یو آئی نے آئینی ترامیم میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے اپنے سینیٹرز کو ممکنہ ترامیم پر بلا اجازت ووٹنگ سے روک دیا تھا، پارلیمانی لیڈر سینیٹر عطاالرحمان نے ساتھی سینیٹرز کو پالیسی خط بھی لکھا کہ سینیٹرز تحریری اجازت کے بغیر کسی آئینی ترمیم پر ووٹنگ نہیں کریں گے، یہ خط سینیٹر کامران مرتضیٰ، مولانا عبدالواسع، عبدالشکور خان، اور احمد خان کو بھیجا گیا تھا۔

    عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار

    ادھر عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے بل پر حکومتی ارکان کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ آج پارلیمنٹ میں کوئی بل نہیں آ رہا ہے، آئینی ترمیم سے متعلق بل پر ابھی کوئی حتمی چیز نہیں ہوئی ہے، جب کہ مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں، اور حکومت آج ججوں سے متعلق آئینی ترمیم لا رہی ہے، آئینی ترمیم کسی شخص یا فرد واحد کے لیے نہیں، اس کا اطلاق تمام ججز کی عمر پر ہوگا۔

  • آئینی ترمیمی بل پر حکومتی ارکان کے متضاد بیانات

    آئینی ترمیمی بل پر حکومتی ارکان کے متضاد بیانات

    اسلام آباد: عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے بل پر حکومتی ارکان کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ آج پارلیمنٹ میں کوئی بل نہیں آ رہا ہے، آئینی ترمیم سے متعلق بل پر ابھی کوئی حتمی چیز نہیں ہوئی ہے، انھوں نے ہفتے کے روز اجلاس بلانے پر اعتراض پر کہا کہ اس میں کیا دو نمبری ہے؟

    دوسری طرف مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں، اور حکومت آج ججوں سے متعلق آئینی ترمیم لا رہی ہے، آئینی ترمیم کسی شخص یا فرد واحد کے لیے نہیں، اس کا اطلاق تمام ججز کی عمر پر ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ پہلے بھی کئی بار آئینی ترامیم لائی گئی ہیں، اور آئندہ بھی لائی جاتی رہیں گی۔

    عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار

    ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی ارکان بھی آئینی پیکج سے بے خبر ہیں، انھوں نے کہا کہ کسی کو نہیں معلوم آئین میں کیا ترامیم کی جا رہی ہیں، اتفاق رائے کے بغیر آئین میں ترمیم نہیں کی جانی چاہیے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ قانون سازی ہوتی ہے تو ہو جائے لیکن آئین کے مطابق ہو، ہمارے ایم این ایز کے کاندھوں پر کوئی ترمیم نہیں ہونی چاہیے، ہدایت اللہ بلوچ سمیت ہمارے چار پانچ ایم این ایز کو لاپتا کر دیا گیا ہے، ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، سپریم کورٹ سے اپیل ہے ہمارے ایم این ایز کا تحفظ آپ کی آئینی ذمے داری ہے۔

  • عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار

    عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار

    اسلام آباد: عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم آج سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں گی، آئینی ترامیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت لازمی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کی تعداد 214 ہے، ترامیم منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں حکومت کو مزید 10 ووٹ درکار ہیں۔

    سینیٹ میں حکومتی اتحاد کو 60 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اور سینیٹ کا ایوان 96 اراکین پر مشتمل ہے، جب کہ موجودہ ارکان کی تعداد 85 ہے، سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے درکار ووٹوں کی تعداد 64 ہے۔

    سینیٹ میں خیبر پختونخوا کی نشستیں خالی ہیں، موجودہ صورت حال میں سینیٹ میں دو تہائی اکثریت چونسٹھ ارکان کی بنتی ہے جب کہ حکومتی ارکان کی تعداد ساٹھ ہے۔

    حکومتی سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے تمام ترامیم براہ راست منظورکرانے کی حکمت عملی پر غور کیا ہے، حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نمبرز پورے ہیں۔

    ادھر قومی اسمبلی اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ ایجنڈے میں آئینی ترامیم کا بل شامل نہیں ہے، آئینی ترامیم کا بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

  • حکومت  کی آئینی ترامیم کی پارلیمان سے منظوری کی تیاری

    حکومت کی آئینی ترامیم کی پارلیمان سے منظوری کی تیاری

    کراچی : عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کل سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش ہوں گی ، حکومتی ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نےآئینی ترامیم کی پارلیمان سےمنظوری کی تیاری کرلی ، ذرائع نے بتایا کہ عدلیہ سےمتعلق آئینی ترامیم کل سینیٹ اورقومی اسمبلی میں پیش ہوں گی۔

    اس سلسلے میں حکومتی ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کو اسلام آبادمیں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    حکومتی حلقوں کی جانب سے دوتہائی اکثریت کے حصول کا دعویٰ کیا جارہا ہے ، حکومت تمام ترامیم براہ راست منظور کرانے کی حکمت عملی پر غور کررہی ہے۔

    ایم کیوایم نے 2 ارکان قومی اسمبلی کو کراچی سے فوری اسلام آبادبلالیا ہے ۔ پارلیمانی ذرائع نے کہا ہے کہ تمام آئینی ترامیم کو آج حتمی شکل دےدی جائےگی، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس اتوار کو بھی ہوں گے۔

    یاد رہے جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آئینی ترامیم میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ارکان پارلیمنٹ کو ہدایات جاری کر دیں۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ حکومت جمہوریت سے متصادم قانون سازی کرنے جا رہی ہے، ایسی قانون سازی میں حکومت کسی اپوزیشن جماعت کی حمایت نہیں لے سکے گی۔

  • اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت

    اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے بنیادی ڈھانچے کو وجہ بنایا جاسکتا ہے ؟

    تحصیل دار اور سیکرٹری کی تقرری میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں تو ججوں کی تقرری میں کیوں ہے ؟ کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی لارجر بینچ نے کی تو مختلف بار ایسوسی ایشنز کے وکیل حامد خان نے ججز تقرری برائے پارلیمانی کمیٹی کے خلاف اپنے دلائل جاری رکھے ۔

    جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آدھے گھنٹے کی بحث میں اٹھارویں ترمیم منظور کر لی گئی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بنیادی ڈھانچہ کسی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے کافی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آنے والی نسل سابقہ نسل کی پیروی کرنے کی پابند نہیں ہے ،سیاست دانوں پر اتنا عدم اعتماد ظاہر نہیں کرنا چاہیئے ۔

    ایک سیاست دان نے یہ ملک بنایا ہے ،سیاست دانوں نے آئین دیا ،سیاست دانوں نے ملک چلانے کا نظام دیا ۔ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ آئین میں حقوق کا پورا پیراگراف موجود ہے لیکن اگر ان حقوق کو نافذ کرنے کا طریقہ کار ہی نہ ہو تو ایسے حقوق کا کیا فائدہ ؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں جوڈیشل ونگ بنائے جانے کا راستہ ہم نے روک دیا ہے ۔دوران سماعت وطن پارٹی کے وکیل بیرسٹرظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ انیسویں ترمیم عدالتی کے دباﺅ پر ہوئی ۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے صرف سفارشات دی تھیں ۔فاضل وکیل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کیس میں دی گئی تمام سفارشات غیر قانونی تھیں ۔بعد ازاں مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی جبکہ حامد خان آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔