Tag: آئینی ترمیم

  • آئینی ترمیم پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ

    آئینی ترمیم پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوششیں جاری ہے۔

    قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آج پھر ہونے جارہے ہیں تایم دونوں ایوانوں کے ایجنڈے میں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش ہوگی، آئینی ترمیم کامسودہ پہلے وفاقی کابینہ میں منظوری کیلئے پیش ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ کار ساز پر پیپلز پارٹی کے جلسے کے باعث ارکان اجلاس میں شریک نہیں ہوسکیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی مخصوص نشستوں پر اہم فیصلہ متوقع ہے۔

    دوسری جانب آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیراعظم نے کابینہ کے سینئراراکین سے غیررسمی مشاورت کی ہے، ذرائع نے بتایا وزیراعظم نے رات گئے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات پر رفقا کو اعتماد میں لیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ مشاورت میں پی پی اور ن لیگ کے آئینی ترمیم کےمسودے پربھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں کی بحالی سے متعلق بھی حکومت پر امیدہے تاہم حکومت اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے مشترکہ مسودہ سامنے لائے گی۔

    وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے بھی اہم آئینی وقانونی امور پر بریفنگ دی۔

  • آئینی ترمیم پر جے یوآئی ف کے مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے

    آئینی ترمیم پر جے یوآئی ف کے مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے

    اسلام آباد : جمعیت علمائے اسلام کے آئینی ترامیم کے مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے، جس میں آئین میں 19 ترمیم کو منسوخ کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کی تقرری کی حد تک آئین میں 18 ویں ترمیم کو بحال کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے آئینی ترامیم کے مسودے کے اہم نکات اے آر وائی نیوز سامنے لے آیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے جےیوآئی کے مسودے کے تمام نکات سے اتفاق نہیں کیا، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے مشترکہ مسودہ تیار کیا جس پراتفاق رائے کی کوششیں جاری ہیں۔

    جے یو آئی نے تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں آئینی بینچ بننے چاہیں اور سپریم کورٹ میں بننے والے آئینی بینچ میں چیف جسٹس سمیت پانچ سینئر ترین ججوں کوشامل کیا جائے۔

    مسودے میں ہائیکورٹ کےآئینی بینچ میں چیف جسٹس سمیت تین سینئر ججوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    ابتدائی مسودے میں آرٹیکل 175 میں ترمیم آرٹیکل175 (1) کے بعد درج ذیل پر وویژن کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی اور کہا گیا ہے کہ آئینی تنازعات یا تشریح کا فیصلہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کےذریعے ہی ہوگا۔

    مسودے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں 19ویں ترمیم کو منسوخ کرنے کی بھی تجویز ہے۔

    جے یو آئی کے ابتدائی ڈرافٹ میں کہنا ہے کہ ججز کی تقرری کی حد تک آئین میں 18 ویں ترمیم کو بحال کیا جائے جبکہ آرٹیکل 184 میں ترمیم آرٹیکل 184 (3) کے آخرمیں درج ذیل شق کے اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

    جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ آئینی تنازعات یاتشریح کا فیصلہ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے ذریعے ہی ہوگا ، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 185 ون میں شامل کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 186 (2) میں موجودہ ذیلی آرٹیکل کو ذیل میں تبدیل کرکے ترمیم کی جائے۔

    تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بنچ اس سوال پر غور کرے گا اور اپنی رائے صدر کو رپورٹ کرے گا، آئین کے آرٹیکل 192 4 میں ترمیم کے آخر میں درج ذیل شقوں کو شامل کیا جائے اور ہر ہائیکورٹ میں آئینی بینچ موجود ہو جسے آئینی بینچ کہا جائے گا۔

    ابتدائی ڈرافٹ میں کہنا ہے کہ آئینی بینچ میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور 2 دیگر سینئر ترین جج شامل ہوں، آرٹیکل 203 سی ذیلی آرٹیکل (3) میں لفظ ‘ہائیکورٹ’ کے بعد اصطلاح یا وفاقی شرعی عدالت کا جج شامل کیا جائے۔

    ڈرافٹ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 203ایف تھری شق (b) میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 203ایف تھری شق بی میں لفظ دی بینچ کے بعد کا لفظ ‘بطور ایڈہاک ممبر’ کو خارج کیا جائے ، آئین کے آرٹیکل 203ڈی میں ترمیم، آرٹیکل 203 بی ڈی ٹو کو ختم کیا جائے اور آرٹیکل 203 ڈی ڈی ون میں لفظ کے بعد ‘حدود’ کا جملہ اور ‘قصاص اور دیت’ کا اضافہ کیا جائے۔

    مسودے میں کہنا ہے کہ تعیناتی، دوبارہ تقرری، سروس میں توسیع اور سروسز چیف کی برطرفی مسلح افواج قوانین کے تحت ہوگی، ایک بار، دوسری بار تقرری یا سروس میں توسیع کے بعد تبدیلی نہیں ہو گی، تقرری یاسروس میں توسیع کا کوئی سوال ہو تو دونوں ایوانوں کی خصوصی کمیٹی میں رکھا جائے۔

    جے یو آئی کا کہنا ہے کہ خصوصی کمیٹی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی، خصوصی کمیٹی میں دونوں ایوانوں سے برابر نمائندگی، ہر پارلیمانی جماعت کا رکن ہوگا پارلیمانی کمیٹی سروسزچیفس کی تعیناتی اور دوبارہ تقرری یا توسیع سے متعلق تجاویز صدر کو بھیجے گی اور پارلیمان کی خصوصی کمیٹی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی ملکر بنائیں گے۔

  • قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری :  آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں

    قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری : آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں

    اسلام آباد : قومی اسمبلی اور سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام چار بجے ہوگا، اجلاس کا دس نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا تاہم ایجنڈے میں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں۔

    صدر مملکت نے سینیٹ کا اجلاس بھی آج سہ پہر تین بجے بلالیا، سینیٹ سیکریٹریٹ نے اجلاس کا 14 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا، اجلاس میں آئینی ترمیم سے متعلق ایجنڈا شامل نہیں۔

    اجلاس کے دوران کمیٹی رپورٹس اور متعدد بل منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے، نیشنل فارنزک ایجنسی بل2024 ، ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن ترمیمی بل2024 ایجنڈے میں شامل ہیں۔

    سینیٹ میں بل وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی جانب سے پیش کیا جائے گا، اجلاس میں اوورسیز پاکستانیز پراپرٹی بل2025 اور دو توجہ دلاؤ نوٹس بھی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

    گذشتہ روز مجوزہ آئینی ترمیم پر جاتی امرا میں بڑی سیاسی بیٹھک ہوئی تاہم فی الحال مکمل طور پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

    نواز شریف کی دعوت پر مولانا فضل الرحمان،آصف زرداری، بلاول بھٹو کی رائیونڈ آمد ہوئی وزیراعظم شہبازشریف، اسحاق ڈار اوردیگر رہنما بھی شریک تھے، ملاقات میں مجوزہ آئینی ترامیم پر فیصلہ کن مشاورت کی گئی۔

    ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دور ہوئے لیکن فی الحال مسلم لیگ ن کو کچھ تحفظات ہیں تاہم پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کے درمیان آئینی مسودے پر اتفاق ہو چکا ہے۔

    عشائیے اور ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی اصلاحات کی حد تک ہم نے اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ہم بہتر طور پر آگے بڑھے ہیں، دیگر نکات پر اتفاق رائے باقی ہے، پہلے والا مسودہ کسی صورت قبول نہیں ہے۔

    بلاول بھٹو کا بھی کہنا تھا کہ کل جو اتفاق رائے دو جماعتوں کے درمیان تھا آج تین جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے، آئین کے دفاع کیلئے کام کرتے رہیں گے۔

  • حکومت کی  آئینی ترمیم ایک ہی دن سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی کوشش

    حکومت کی آئینی ترمیم ایک ہی دن سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی کوشش

    اسلام آباد حکومت کی آئینی ترمیم ایک ہی دن سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی کوشش جاری ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کل طلب کر لئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کل طلب کر لیے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آئین کے آرٹیکل 54 (ایک) کے تحت طلب کیے گئے۔

    قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام چار بجے طلب کیا گیا ہے جبکہ سینٹ کا اجلاس کل سہ پہرتین بجے بلایا گیا ہے، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں 26ویں آئینی ترامیم منظور کی جائے گی۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم ایک ہی دن سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی تاہم آئینی ترامیم سینیٹ سے پہلے منظور کرانے پر غور کیا جارہا ہے۔

    سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے سے پہلے وفاقی کابینہ چھبیس ویں آئینی ترامیم کی منظوری دے گی جبکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس سترہ کے بجائے کل ساڑھے بارہ بجے بلالیا گیا، اجلاس میں آئینی ترامیم کے مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

  • آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے سمیت پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نکات بالآخر سامنے آگئے۔

    حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولا سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا۔ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی، اس ضمن میں حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماری میمن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور حکومت سمیت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مسودوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

    مجوزہ ترمیم کے حوالے سے حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔

    مجوزہ ترمیم نے کہا کہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا جبکہ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو دو ارکان لئے جائیں گے۔

    صوبائی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرِ قانون، بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ہو گی، جج کی اہلیت رکھنے والے کے لئے نام پر مشاورت کے بعد وزیرِ اعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے۔

    مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم کو دیے جائیں گے۔

     آئینی ترمیم

    مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کے لئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔

    مجوزہ ترمیم کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہو گا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔

    مولانا فضل الرحمان

    جمیعت علماء اسلام (ف) کا آئینی مسودہ

    وفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے جے یو آئی (ف) نے 24 ترامیم تجویز کی ہیں، جس کے تحت آرٹیکل 175اے میں ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 5 سینئر ججز پر مشتمل بینچ اور ہائیکورٹس میں چیف جسٹس سمیت 3 سینئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ کی تجویز دی۔

    جے یو آئی (ف) نے 175 اے میں ترمیم، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی، آرٹیکل 38، 203 اور 243 میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔

    مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ کو آئینی تنازعات یا تشریح کا اختیار ہوگا، صوبائی آئینی بینچ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ہوگی، صدر کی جانب سے بھیجے گئے سوال کی سماعت آئینی بینچ میں ہوگی۔

    جے یو آئی (ف) نے مجوزہ مسودہ میں تجویز دی ہے کہ سرکاری و نجی سطح پر یکم جنوری 2028سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے جبکہ ملک میں اسلامی مانیٹری سسٹم متعارف کروایا جائے۔

     بلاول بھٹو زرداری

    پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ

    پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دی کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔

    پیپلز پارٹی کے آئینی مسودے میں آرٹیکل 175اے میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو 5 ججز پر مشتمل ہوگی، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اس کی سربراہی کریں گے۔

    پی پی مسودے کے مطابق ہر صوبے سے باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف مقرر ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس کی اپنی مدت 3سال ہوگی جو روٹیشن پالیسی کی بنیاد پر ہوگی۔

    اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی بھی فورم پر اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ چار صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس صوبائی آئینی عدالت ہوں گے اور باقی ججز کا تعین حکومت قانون کے مطابق کرے گی۔

    صوبائی آئینی عدالت کا فیصلہ وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہوسکے گا، پیپلز پارٹی کے مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ججز کی تقرری کیلیے آئینی کمیشن آف پاکستان کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔

    آئینی کمیشن میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس 2 سینئر ججز، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون ، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ اور قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے دو ارکان میں سے ایک حکومت کا اور دوسرا اپوزیشن کا ہوگا، جن کی نامزدگی اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے اور اسی طرح سینیٹ سے ایک رکن حکومت اور ایک اپوزیشن کا ہوگا۔

  • وکلاء کا آئینی ترامیم کی حمایت کا اعلان

    وکلاء کا آئینی ترامیم کی حمایت کا اعلان

    اسلام آباد : وکلاء نے آئینی ترامیم کی حمایت کا اعلان کردیا ،سابقہ سیکریٹری اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے آئینی ترامیم اور قانونی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابقہ سیکریٹری اسلام آباد ہائیکورٹ ایڈووکیٹ راجہ فیصل یونس نے آئینی ترمیم کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہے، جو ہر گزرتے دن کیساتھ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

    ایڈووکیٹ راجہ فیصل یونس کا کہنا تھا کہ عوام کا پاکستان کےعدالتی نظام سے اعتماداٹھتا جارہاہے، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے آئینی ترامیم اور قانونی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

    سابقہ سیکریٹری اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ دنیا بھر میں آئینی عدالتیں موجود ہیں ، پاکستان میں آئینی عدالتوں کا قیام ہونا بہت ضروری ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتی نظام اورجج کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہیں یہ ایک مافیا ہے اس کا سدباب ضروری ہے، عوام کوجلد از جلد انصاف مہیا کرنے ہے ایک کامیاب ریاست کا پہلا مقصد ہوتا ہے۔

    خیال رہے صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ قانون بن چکا ہے۔

    مجوزہ آئینی ترامیم میں کیا ہے؟

    ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی ترامیم میں 20 سے زائد شقوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ آئین کی شقیں 51، 63، 175، 187 اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔

    مجوزہ آئینی ترامیم کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائے گی اور عہدے پر جج کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس پاکستان لگائے گی۔

    اس میں مزید بتایا گیا کہ آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی، آئینی عدالت میں آرٹیکل 184، 185، 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی جبکہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی تر میم کیے جانے کا امکان ہے۔

    علاوہ ازیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جا سکے گا، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو اکٹھا کیا جائے گا۔

    منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے۔

    اس کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے کی ترمیم اور بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز آئینی ترامیم میں شامل ہیں۔

  • پاکستان بار کونسل کا خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم پیش کرنے پر اظہار تشویش

    پاکستان بار کونسل کا خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم پیش کرنے پر اظہار تشویش

    اسلام آباد : پاکستان بار کونسل نے حکومت کی جانب سے خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم متعارف کرانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، بیان میں اراکین نے شدید نکتہ چینی کی۔

    پاکستان بار کونسل کے 6 ارکان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مجوزہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے، ان کامقصد عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔

    پاکستان بارکونسل ارکان نے کہا کہ مذکورہ ترامیم قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں، ترامیم بغیر کسی بحث کے آئین کو ختم کرنے کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ پوری مشق ربڑ اسٹیمپنگ کی مشق معلوم ہوتی ہے، غلط مقاصد کے لیے ایک متبادل عدالتی نظام بنانے کے لیےمشق کی جارہی ہے۔

    پی بی سے کے چھ اراکین نے اپنے جاری بیان میں مزید کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں، اور وکلاء سمیت قانونی برادری کو اس موقع پر متحد ہونا چاہیے۔

    مذکورہ چھ ارکان میں محمود چوہان، عابد شاہد زبیری، اشتیاق اے خان، شہاب سرکی، طاہرفراز اور منیر کاکڑ شامل ہیں۔

  • مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم پر منانے کیلئے حکومتی کوششیں جاری

    مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم پر منانے کیلئے حکومتی کوششیں جاری

    اسلام آباد : آئینی ترمیم پر حمایت کیلئے مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوششیں جاری ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابل دیکھ کرمشاورت کےبعدہمارافیصلہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان کوآئینی ترمیم پرمنانے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، ذرائع نے بتایا کہ رات گئے رات گئے حکومتی وفد نے سربراہ جے یو آئی سے اہم ملاقات کی ، ملاقات اسلام آبادمیں ان کے گھر پر ہوئی

    ذرائع کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو کہا گیا ان کی تجویز پر غور کررہے ہیں ، جس پر سربراہ جے یو آئی نے ایکسٹینشن پر موقف کو دہرایا لیکن اہلیت اور پینل کی تجویز پر مشاورت کا کہا۔

    مولانا نے کہا ہے چیف جسٹس کیلئے پینل اور پارلیمانی کمیٹی کوجوڈیشل کمیشن کےبرابرلانےپرغور کریں گے اور آپ کابل دیکھ کرمشاورت کےبعدہمارافیصلہ ہوگا۔

    گذشتہ روز سربراہ جے یو آئی نے پارلیمنٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف دیا تھا کہ ’’ہماری تجویز کے مطابق آئینی ترمیم آئی تو پھر دیکھیں گے۔‘‘

    مزید پڑھیں :عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار

    خیال رہے عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم آج سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں گی، ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت لازم ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 214 ہے ، ترامیم منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں حکومت کومزید دس ووٹ درکار ہیں کیونکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 224 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔

    سینیٹ میں موجودہ ارکان کی تعداد اس وقت85 ہے، موجودہ صورتحال میں سینیٹ میں دوتہائی اکثریت 64 ارکان کی بنتی ہے جبکہ سینیٹ میں حکومتی اتحاد کو 60 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

  • آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، بیرسٹرعلی ظفر

    آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، بیرسٹرعلی ظفر

    کراچی: بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، صرف آرمی ایکٹ میں معمولی ترمیم کرنا ہوگی، پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے یہ ترمیم کرسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بحران ختم ہوگیا ہے اب فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ نے جن امور کی نشاندہی کی، اس کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، صرف آرمی ایکٹ میں معمولی ترمیم کرنا ہوگی، پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے یہ ترمیم کرسکتی ہے۔

    علی ظفر نے کہا کہ 6 ماہ میں یہ قانون سازی ہوسکتی ہے، نیا آرڈیننس لایا جاسکتا ہے یا عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، قانون ایک بار بننے کے بعد سب پر اس کا نفاذ ہوگا، قومی مفاد کا معاملہ ہے امید ہے اپوزیشن تعاون کرے گی۔

    سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع کردی

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کی مشروط اجازت دی تھی۔

    عدالت عظمیٰ نے قانون سازی کے لیے معاملہ پارلیمنٹ بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

  • مخالفین ووٹ کےبجائےسازش سےاقتدارمیں آنا چاہتے ہیں‘ سعد رفیق

    مخالفین ووٹ کےبجائےسازش سےاقتدارمیں آنا چاہتے ہیں‘ سعد رفیق

    لاہور: وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے ترمیم نہ کی توانتخابات کا بروقت انعقاد نہیں ہوپائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کا اعلان ہوچکا، انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر کرانا آئین سے متصادم ہوگا۔

    خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آئینی ترمیم سےگریزاں جماعتیں انتخابات سےخوفزدہ ہیں، مخالفین ووٹ کے بجائے سازش سے اقتدارمیں آنا چاہتے ہیں۔

    وزیرریلوے کا کہنا ہے کہ ‏ہر 10 سال بعد نئی مردم شماری آئینی ذمہ داری ہے جبکہ قومی ڈیٹا بیس اپ ڈیٹ کیے بغیرمستقبل کی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔


    مردم شماری کے بجائے آدم خوری کی گئی، فاروق ستار


    انہوں نے کہا کہ ‏آخری مردم شماری 1998 میں مسلم لیگ ن لیگ ہی کے دورمیں کرائی گئی، پیپلز پارٹی نے اپنے دورمیں مردم شماری کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔

    خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ نے جلد مردم شماری کا آئینی حکم دیا، رکاوٹوں کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت نے نئی مردم شماری کرائی۔

    وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سیٹیں کم ہوئیں، ہم نے گلہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف آئینی ترمیم کے لیے تعاون کریں تاکہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جا سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔