Tag: آئیوری کوسٹ

  • ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد دوسرے وزیر اعظم بھی چل بسے

    ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد دوسرے وزیر اعظم بھی چل بسے

    مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ میں ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد عہدہ سنبھالنے والے دوسرے وزیر اعظم بھی 8 ماہ بعد انتقال کر گئے جس سے ملک میں بے چینی کی کیفیت پھیل گئی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق آئیوری کوسٹ کے صدر الاسن اوتارا کے قریبی سمجھے جانے والے وزیر اعظم حامد بیکا یوکو اپنی 56 ویں سالگرہ کے کچھ دن بعد ہی کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔

    رپورٹ کے مطابق حامد بیکا یوکو جولائی 2020 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمادو غون کولیبالے کے انتقال کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

    صدر نے حامد بیکا یوکو کی علالت کے دوران ہی چیف آف اسٹاف پیٹرک آچی کو قائم مقام وزیر اعظم نامزد کیا تھا، تاہم اب حامد کے انتقال کے بعد ان کے مضبوط جانشین کی تقرری کے لیے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کا متبادل لانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا کام کرنے کا انداز مختلف تھا، یہاں تک کہ جو سیاسی طور پر ان کے ساتھ نہیں ہوتا تب بھی وہ ان کے معاملات سدھارتے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق حامد بیکا یوکو تنازعات اور علیحدگی کا شکار رہنے والے مغربی افریقی ملک میں میڈیا سے مربوط رشتہ رکھنے والے رہنما کے طور پر ابھرے اور تنازعات کے تمام فریقین کے درمیان ثالث بن کر سامنے آئے تھے۔

    تجزیہ کاروں نے بتایا کہ آئیوری کوسٹ کے سابق علیحدگی پسند جنگجوؤں کو بھی ان پر اعتماد تھا، وہ سنہ 2017 میں وزیر دفاع بنے تھے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی یہ وزارت اپنے پاس رکھی۔

    مقامی تاریخ دان آرتھر بنگا کا کہنا تھا کہ انہوں نے تنازعات ختم کر کے اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں فوجیوں کو بھی سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب میں سیاسی مداخلت سے دور ہونا پڑا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجیوں، اعلیٰ عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان اعتماد بڑھانے میں بھی کامیاب ہوئے تھے جس کے نتیجے میں سنہ 2017 سے اب تک بڑے پیمانے پر استحکام رہا۔

  • استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    دنیا بھر میں پھینک دیے جانے والے کچرے کا جمع ہونا اور اسے تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ری سائیکلنگ یعنی اشیا کے دوبارہ استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    ایک افریقی فنکار نے بھی اس کی نہایت شاندار مثال پیش کی۔ مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ کے شہر عابد جان سے تعلق رکھنے والے فنکار ولفرائیڈ ٹیرور نے استعمال شدہ کینز سے خوبصورت فن پارے تشکیل دے دیے۔

    یہ فنکار گلیوں میں گھوم کر جا بجا پھینکے گئے سوڈا اور بیئر کی کینز جمع کرتا ہے اور انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان سے خوبصورت فن پارے بناتا ہے۔

    فرائیڈ کو یہ خیال شہر میں پھیلی ہوئی بے تحاشہ آلودگی دیکھ کر آیا۔ شہر میں پھینکا گیا کچرا ندی نالوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ کر رہا تھا جبکہ اس سے سمندری حیات کو بھی سخت خطرات لاحق ہو رہے تھے۔

    اس شہر میں ہر سال 50 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جس میں سے صرف 10 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔

    فرائیڈ کا کہنا ہے کہ اس کی اس کوشش سے لوگوں میں بھی شعور پیدا ہوگا کہ پھینکا ہوا کچرا بھی ان کی ذمہ داری ہے، وہ سوچ سمجھ کر چیزوں کا استعمال کریں اور چیزوں کو ری سائیکل یعنی دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔

    اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب شہر کے لوگ بھی کین جمع کر کے فرائیڈ کو دیتے ہیں تاکہ وہ مزید فن پارے تخلیق کرسکے۔

  • بائیسکل سے بننے والی خالص چاکلیٹ

    بائیسکل سے بننے والی خالص چاکلیٹ

    چاکلیٹ سمیت دنیا بھر کی مینو فیکچرنگ کمپنیاں بجلی کا بے تحاشہ استعمال کرتی ہیں جس کا اثر ماحول پر بھی پڑتا ہے، تاہم دنیا میں ایک فیکٹری ایسی بھی ہے جو اپنی مصنوعات جدید ذرائع کے بجائے روایتی ذرائع سے تیار کرتی ہے۔

    مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ میں چاکلیٹ کی ایک فیکٹری مون چوکو چاکلیٹ بنانے کے لیے بھاری بھرکم مشینوں کے بجائے بائیسکل استعمال کرتی ہے۔ ایک شخص اس بائیسکل پر بیٹھ کر پیڈل چلاتا رہتا ہے جس سے چاکلیٹ بننے کا عمل انجام پاتا ہے۔

    اس فیکٹری کے بیچوں بیچ رکھی اس بڑی سی بائیسکل کے آس پاس کوکو سے بھری ٹرے (طباق) رکھی ہوتی ہیں۔ بائیسکل کے پیڈل حرکت کرتے ہیں اور طباق سے کوکو کے بیج پیسٹ کی شکل میں ایک بڑے برتن میں منتقل ہوتے جاتے ہیں۔

    فیکٹری کے سپر وائزر موئے کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی فیکٹری میں بجلی کا استعمال کم سے کم کریں اور ماحول دوست مصنوعات بنائیں۔

    اس فیکٹری میں بننے والی چاکلیٹ میں 70 فیصد کوکو اور 30 فیصد براؤن شوگر شامل ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کا تیل یا مکھن نہیں شامل کیا جاتا۔

    یہ خالص چاکلیٹ نہایت مہنگی ہوتی ہے، آئیوری کوسٹ میں یہ 15 سو سی ایف اے فرانک (مقامی کرنسی) یعنی تقریباً ڈھائی ڈالر میں فروخت کی جاتی ہے۔ مقامی افراد کی بڑی تعداد اسے خریدنے سے قاصر ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج زراعت پر منفی اثرات ڈال رہا ہے جس سے کوکو کی فصل کو بھی خطرہ ہے۔ ماہرین نے مستقبل قریب میں چاکلیٹ اور کافی کی پیدوارا میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1960 سے اب تک کوکو کے بیجوں کی پیداوار میں نصف کمی آچکی ہے۔ دوسری جانب کچھ افریقی ممالک سنہ 2050 تک اپنی کوکو کی فصل مکمل طور پر کھو سکتے ہیں۔