Tag: آئی ایم ایف کی شرائط

  • سرکاری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں

    سرکاری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں

    اسلام آباد : آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت نے اداروں کو رائٹ سائزنگ کی رفتار تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس میں ہزاروں آسامیوں کو ختم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط اور اہداف پر رائٹ سائزنگ کی رفتار تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    رواں مالی سال کے اختتام تک 30 جون کے اہداف حاصل کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے، وفاقی حکومت رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت اقدامات پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔

    ذرائع نے بتایا کہ حکومتی رائٹ سائزنگ کا تیسرا مرحلہ تکمیل کے قریب پہنچ گیا ہے، حکومت نے تیسرے مرحلے کے لیے 5 وزارتوں، ڈویژنز کا انتخاب کیا ہوا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے تیسرے مرحلے کے لیے وزارت خزانہ اورپاور ڈویژن کی نشاندہی کی، تیسرے مرحلے میں اطلاعات و نشریات ، قومی ورثہ اور ثقافت اور تعلیم کی وزارتیں شامل ہیں۔

    ذرائع نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کے چوتھے مرحلےکے لیے تجاویز کو آئندہ ایک ہفتے تک حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ہے۔

    حکومت نے چوتھے مرحلے کے لیے 5 وزارتوں،ڈویژنز کو منتخب کیا ہوا ہے،چوتھےمرحلے میں ریلویز، مواصلات، تخفیف غربت اور سماجی تحفظ کی وزارتیں شامل ہیں جبکہ چوتھے مرحلے کے لئے پیٹرولیم ڈویژن اور ریونیو ڈویژن کو حصہ بنایا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے رائٹ سائزنگ کے پانچویں مرحلے کے لیے بھی کام شروع کر دیا ہے، پانچویں مرحلےکے لیے5 وزارتوں، ڈویژنز کاانتخاب کیاگیا ہے، اس مرحلےمیں منصوبہ بندی ، نجکاری اور اقتصادی امور کی وزارتیں شامل ہیں۔

    بے نظیر بھٹو اچانک ایدھی سینٹر پہنچیں

    رائٹ سائزنگ کے پانچویں مرحلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اورکابینہ ڈویژن کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    وفاقی کابینہ نے رائٹ سائزنگ کےدوسرے مرحلے کے لئے یکم جنوری 2025 کو تجاویز اور پہلے مرحلے کےتحت27اگست2024 کو تجاویز کی منظوری دی تھی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت وفاقی حکومت پہلے مرحلے میں اب تک 32 ہزار 70آسامیوں کو ختم کرچکی ہے اور 7ہزار826آسامیوں کو منسوخ کیا جاچکا ہے۔

  • ’’آئی ایم ایف کا پروگرام خطرے میں پڑسکتا ہے‘‘

    ’’آئی ایم ایف کا پروگرام خطرے میں پڑسکتا ہے‘‘

    حکومت پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ممکنہ طور پر ملنے والے قرض پروگرام کو بڑی کامیابی تو قرار دے رہی ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر اس پروگرام کی شرائط پر عمل درآمد بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو کیسے پورا کرسکے گی؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مہتاب حیدر نے اپنا تجزیہ بیان کیا۔

    میزبان کی جانب سے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 12 ارب ڈالر قرض رول اوور کے ممکنات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال دو بڑے ممالک امریکا اور چین کی سیاست میں پھنسی ہوئی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اب تک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضہ رول اوور ہوجانا چاہیے، اور اگر رول اوور نہ ہوا تو معاملہ اس حد تک خراب ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو قسط ادا نہیں کرسکیں گے۔

    پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اس ماہ ستمبر میں قرضہ رول اوور ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری بھی آجائے وہ اس لیے کہ ایل او آئی (لیٹر آف انٹنٹ) پر دستخط ہونا ضروری ہیں اگر 10 ستمبر تک دستخط نہیں ہوتے تو پاکستان کا معاملہ آئی ایم ایف بورڈ تک نہیں جائے گا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جوڑ توڑ کرنے کی کوشش کی تو آئی ایم ایف کا  پروگرام خطرے میں پڑسکتا ہے۔

  • آئی ایم ایف کی شرائط : سندھ ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ڈٹ گئے

    آئی ایم ایف کی شرائط : سندھ ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ڈٹ گئے

    اسلام آباد : سندھ ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے آئی ایم ایف کی شرائط کی مخالفت کردی، آئی ایم ایف نےنان اسٹارٹرصوبائی منصوبوں کی وفاق سے فنڈنگ پر پابندی کی شرط لگائی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے تین صوبے آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ گئے، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے آئی ایم ایف کی شرائط کی مخالفت کردی۔

    ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے نان اسٹارٹر صوبائی منصوبوں کی وفاق سے فنڈنگ پر پابندی عائد کرنے کی شرط لگائی تھی، جس پر قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے قبل ہی تنازعہ پیدا ہوگیا۔

    پنجاب کےسواباقی تمام صوبوں نےصوبائی منصوبے بند کرنے کی مخالفت کردی، سندھ,خیبر پختون خوا, بلوچستان نےوفاقی منصوبے اپنے ذمے لینے سے بھی انکار کردیا۔

    سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان صوبائی منصوبے بند کرنے کے حق میں نہیں، بیشتر صوبوں نے صوبائی منصوبوں کا معاملہ منتخب حکومت پرچھوڑنے کامشورہ دیا ہے۔

    خیبر پختون خوا نے بھی مالی مشکلات کے باعث منصوبے بند کرنےکی مخالفت کی جبکہ بلوچستان نےصوبائی منصوبوں کوجاری رکھنےکی تجویز دے دی ہے۔

    وزیراعظم کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 29 جنوری کو ہوگا، جس میں درجنوں صوبائی منصوبوں پر پابندی لگانے کی تجاویز پر غور ہوگا۔

    زیرو پراگرس کے 76 صوبائی منصوبوں کو وفاقی بجٹ سےنکالنےکی تجویزہے، ان 76 صوبائی منصوبوں کی مالیت121 ارب روپے بنتی ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے پی ایس ڈی پی سے صوبائی منصوبوں پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

  • پاکستان نے آئی ایم ایف کی کون کون سی  شرائط پوری کرلیں، تفصیلات سامنے آگئیں

    پاکستان نے آئی ایم ایف کی کون کون سی شرائط پوری کرلیں، تفصیلات سامنے آگئیں

    اسلام آباد : پاکستان کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پوری کی گئی شرائط کی تفصیلات سامنے آگئیں ، جس میں ٹیکس وصولی ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ، بجٹ خسارہ محدود رکھنے اور پیٹرولیم لیوی میں اضافہ شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع وزارت خزانہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی جائزے کیلئے اہم اہداف حاصل کرچکے، جولائی تا ستمبرکیلئے آئی ایم ایف کی ٹیکس وصولی کی شرط پوری کی گئی، ایف بی آر نے1978ارب ہدف کےمقابلے 2041ارب روپے ٹیکس جمع کیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ جولائی تا ستمبرایف بی آرنے کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کی اور لیوی کی مد میں 222 ارب روپے حاصل کیے جبکہ بی آرنےکوئی نئی ٹیکس چھوٹ بھی نہیں دی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں7 روپے50پیسے فی یونٹ تک اضافہ کیا جاچکا ہے ، یکم نومبر سےگیس ٹیرف میں تقریباً 200 فیصدتک اضافہ کیا۔

    وزارت خزانہ نے کہا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ محدود رکھنےکی شرط پوری کی گئی ، پاورسیکٹر کےسرکلرڈیٹ میں اضافہ بھی آئی ایم ایف ہدف سے کم ہوا۔

    ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے جولائی تاستمبرکیلئے سرکلرڈیٹ میں292ارب روپے تک اضافےکی اجازت دی اور اسی عرصے میں پاورسیکٹرکا سرکلرڈیٹ227 ارب روپے بڑھ کر2537ارب روپے ہوگیا۔

    ذرائع نے کہا کہ ساورن گارنٹیز کی ری اسٹریکچرنگ سےمتعلق آئی ایم ایف کا ہدف حاصل کیا گیا تاہم مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کوئی ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی گئی۔

    اس کے علاوہ پیٹرول پرپیٹرولیم لیوی فی لیٹر60 روپے کی بالائی حد تک بڑھائی گئی، صوبوں میں صحت،تعلیم پر 465ارب روپےکےاخراجات کا ہدف بھی حاصل کیاگیا ، آئی ایم ایف جائزے کی کامیابی پر پاکستان کو تقریبا 70 کروڑ ڈالرز کی قسط ملےگی۔

  • آئی ایم ایف کی شرائط پر کے الیکٹرک صارفین پر مزید اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ

    آئی ایم ایف کی شرائط پر کے الیکٹرک صارفین پر مزید اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر کے الیکٹرک صارفین پر اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر کے الیکٹرک صارفین کیلئے اضافی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    ایڈیشنل سبسڈی ختم کرنے سے کے الیکٹرک صارفین پر 125 ارب سے زائد بوجھ پڑے گا، ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ کےالیکٹرک کیلئے125ارب سےزائدکےبقایاجات التوا کا شکارتھے، ریکوری کیلئے کے الیکٹرک کیلئے سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کےایشوزکوحل کر دیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ 125 ارب کی رقم پاورسیکٹرکےگردشی قرضہ کو کم کرنےکیلئے استعمال کی جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق آزادجموں وکشمیرکیلئےاضافی سبسڈی کومرحلہ وار ختم کیا جائے گا، رواں مالی سال آزاد جموں وکشمیر کیلئے اضافی سبسڈی کی مد میں 7 ارب کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔

    آزاد جموں وکشمیر کیلئے اضافی سبسڈی ختم کرنے سے حکومت پر بوجھ کم ہوگا۔

  • آئی ایم ایف کی شرائط : حکومت کا  بجٹ میں مزید 215 ارب کے ٹیکس لگانے اور پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا اعلان

    آئی ایم ایف کی شرائط : حکومت کا بجٹ میں مزید 215 ارب کے ٹیکس لگانے اور پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا اعلان

    اسلام آباد : وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجٹ میں مزید دو سو پندرہ ارب کےٹیکس لگا رہےہیں جبکہ پٹرول اور ڈیزل پر لیوی بھی بڑھے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کیلئے ترامیمی سفارشات کا خیرمقدم کرتےہیں، اتحادی جماعتوں نے بجٹ کیلئےبہترین تجاویز دیں،اسحاق کستان کوٹیکس ریونیوبڑھانےکی اشد ضرورت ہے، ملک کےتمام شہری واجب الاداٹیکس اداکریں،یہ ملک کیلئے ضروری ہے۔

    فنانس بل ترامیم پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجٹ میں مزید دو سو پندرہ ارب کےٹیکس لگا رہےہیں ، تاہم ٹیکسز سے غریب اور متوسط طبقے پر اثر نہیں پڑے گا۔

    اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایوان بالا کی طرف سے 59 تجاویز موصول ہوئیں، ٹیکس کا بوجھ چند لاکھ ٹیکس دہندگان پر پڑتا ہے،کوشش ہے دائرہ کار بڑھایا جائے گا، غیر متوقع منافع پرپوری دنیا میں ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

    وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں99 ڈی کی ترمیم کسی ایک انفرادی کمپنی کے لیے نہیں، بجٹ میں 99 ڈی کے تحت بہت زیادہ منافع کمانے والے سیکٹرز پر ٹیکس عائد کریں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ ڈیویڈنٹ پر15 فیصد اور بونس شیئر پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، بونس شیئر کے منافع پر انکم ٹیکس کی ودہولڈنگ کی شرح 15 فیصدبرقرار رہے گی جبکہ بونس شیئرز کی صورت میں ادائیگی کرنے پر 10 فیصد انکم ٹیکس ودہولڈنگ ٹیکس عائد کر رہے ہیں۔

    اسحاق ڈار نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر وفاقی حکومت کو لیوی دینے کا محدوداختیار مل گیا ہے، حکومت صرف پٹرول اورڈیزل پر لیوی 10 روپے بڑھانے کا اختیار حاصل کرے گی، حکومت صرف پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 50 سے بڑھا کر 60 روپے کرے گی۔

  • آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد، بجلی صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری

    آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد، بجلی صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری

    اسلام آباد: آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے سلسلے میں بجلی صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری شروع کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے نیپرا سے بجلی صارفین پر 3.23 روپے اضافی سرچارج لگانے کی درخواست کر دی ہے، اضافی سرچارج کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہوگا۔

    نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کے دوران نیپرا کے ممبر مقصور انور نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت دوبارہ آ جائے اور کہے کہ ریونیو ضروریات پوری نہیں ہو رہیں، تو یہ بات پھر کہاں جا کر رکے گی؟

    نیپرا حکام نے نکتہ اٹھایا کہ یہ سرچارج 2023-24 تک کی بجائے بعد میں بھی جاری رہے گا، چیئرمین نیپرا نے کہا کہ حکومت کو اگلے سال کے لیے سرچارج بڑھانے کی کیا جلدی ہے؟

    پاور ڈویژن حکام نے کہا کہ ہم سرکلر ڈیٹ منیجمنٹ پلان کے تحت وصولیوں کے مطابق چل رہے ہیں، تاہم نیپرا کے ممبر رفیق شیخ نے اعتراض کیا کہ بجلی کمپنیوں کی نا اہلی کا بوجھ صارفین کیوں برداشت کریں؟ اگر فیڈرز آؤٹ سورس ہی کرنے ہیں تو بجلی کمپنیوں کی کیا ضرورت ہے؟

    ممبر نیپرا نے پاور ڈویژن سے استفسار کیا کہ بجلی کمپنیوں کی نااہلی کے خاتمے کے لیے حکومت کا کیا پلان ہے؟ دنیا میں ایسا کون سا کاروبار ہے جس کی ریکوری 40 فی صد ہے؟

    پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ نقصانات میں کمی کے پلان کے لیے 25 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، کاسٹ کٹنگ کے تحت آئی پی پیز سے بات چیت کرتے ہیں، نیپرا کے ممبر رفیق شیخ یہ سوال بھی اٹھایا کہ پیک آورز میں بجلی کی ڈیمانڈ کم کیوں ہو رہی ہے؟

  • عوام پھر ریلیف سے محروم ، حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی

    اسلام آباد : حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ڈیزل پر فی لیٹر لیوی میں مزید ڈھائی روپے کا اضافہ کرکے 32 روپے50 پیسے کردی۔

    تفصیلات کے مطابق عوام ایک بار پھر ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں ریلیف سے محروم رہ گئے، حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ڈیزل پر فی لیٹر لیوی میں مزید ڈھائی روپے کا اضافہ کردیا۔

    ہائی اسپیڈ ڈیزل پر فی لیٹر لیوی 30 روپے سے بڑھا کر 32 روپے50 پیسے کردی گئی جبکہ پیٹرول پر فی لیٹر پر لیوی 50 روپے برقرار رکھی گئی ہے۔

    پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح زیرو پر برقرار ہے ، وفاقی حکومت نے16 دسمبر سے بھی ہائی اسپیڈ ڈیزل پر لیوی 5 روپے بڑھائی تھی۔

    خیال رہے ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں بریک تھرو کے لیے سرگرم ہے اور جنوری میں آئی ایم ایف سے معاملات طے پا سکتے ہیں۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈیزل پر لیوی مزید بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے آئندہ ماہ بھی ڈیزل پر مکمل ریلیف نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

    وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ 2 ماہ میں یعنی فروری 2023 تک 20 روپے مزید پیٹرولیم لیوی بڑھائی جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیزل پر فی لیٹر 50 روپے لیوی عائد کرنے کا معاہدہ ہے، لیوی بڑھانے سے ٹیکس محصولات ہدف حاصل نہ ہوا تو سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

  • حکومت  کی  آئی ایم ایف کی شرائط پر پٹرولیم سبسڈی ختم کرنے کی تیاریاں

    حکومت کی آئی ایم ایف کی شرائط پر پٹرولیم سبسڈی ختم کرنے کی تیاریاں

    اسلام آباد : حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر سبسڈی ختم کرنے کا پلان تیار کرے گی اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران سبسڈی ختم کرنے کا پلان پیش ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی تیاریاں کررہی ہے ، وزارت خزانہ رواں ہفتے کے دوران سبسڈی ختم کرنے کا پلان تیار کرے گی۔

    ذرائع نے کہا کہ بجلی کے فی یونٹ پردی گئی سبسڈی بھی ختم کئے جانے کا امکان ہے ، آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران سبسڈی ختم کرنے کا پلان پیش ہوگا۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات 18 مئی سے شروع ہوں گے ، آئی ایم ایف کیساتھ قطر میں 10روز تک مذاکرات جاری رہیں گے، مذاکرات میں آئندہ بجٹ تجاویززیرغورآئیں گی۔

    حکومت اسوقت پٹرولیم مصنوعات پر65ارب روپے کی سبسڈی دےرہی ہے ، جس میں پٹرول پر21 ارب اورڈیزل پر 44 ارب روپے کی سبسڈی شامل ہیں۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پرسبسڈی مرحلہ وار ختم کئےجانے کا امکان ہے ، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم ہونے مہنگائی کی شرح بڑھنے کا امکان ہے۔

  • پاکستان کے تین شہروں کے بجلی صارفین سے 916 ارب وصولی کا پروانہ جاری

    پاکستان کے تین شہروں کے بجلی صارفین سے 916 ارب وصولی کا پروانہ جاری

    اسلام آباد؛ گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر کے بجلی صارفین سے 916 ارب وصولی کا پروانہ جاری ہو گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق حکومت نے بجلی نرخ بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد شروع کر دیا، نیپرا نے بجلی کی 3 سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کے ٹیرف میں اضافہ کر دیا۔

    گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر کے صارفین سے 916 ارب وصولی کی جائے گی، نیپرا کے فیصلے کے اطلاق کی حتمی منظوری حکومت دے گی، حکام کا کہنا ہے کہ نیپرا کے فیصلے کی روشنی میں بجلی کا یونیفارم ٹیرف لاگو کیا جائے گا۔

    نیپرا نے عوام پر پھر بجلی بم گرا دیا

    نیپرا کے مطابق ملتان ریجن کے صارفین سے 553 ارب روپے وصول کرنے کی منظوری دی گئی ہے، میپکو کا مالی سال 2019-20 کا اوسط ٹیرف 16.52 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے، جب کہ مالی سال 2018-19 کا اوسط ٹیرف 16.88 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا۔

    گیپکو صارفین سے مجموعی طور پر 334 ارب روپے وصولی کی منظوری دی گئی ہے، گیپکو کا مالی سال 2019-20 کا اوسط ٹیرف 15.69 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے، جب کہ مالی سال 2018-19 کا اوسط ٹیرف 15.14 روپے مقرر کر دیا گیا ہے۔

    سکھر کے صارفین سے ڈسٹری بیوشن ٹیرف مد میں 16 ارب سے زائد وصول ہوں گے۔