Tag: آئی بی لیٹر

  • آئی بی  کا خط جعلی ہے، حکومت کو بدنام کیا گیا، ایف آئی آر درج کرادی، وزیراعظم

    آئی بی کا خط جعلی ہے، حکومت کو بدنام کیا گیا، ایف آئی آر درج کرادی، وزیراعظم

    اسلام آباد: وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے مدمقابل پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں، آئی بی کا لیٹر جعلی ہے، کسی نے جاری کیا تحقیقات جاری ہیں، ایف آئی آر درج کرادی۔

    قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین فارمولے کے تحت ہوتا ہے، دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں پیٹرولیم قیمتیں اس وقت دنیا میں سب سے کم ہیں، پیٹرولیم قیمتیں پڑوسی ممالک میں پاکستان سے 30 فیصد زائد ہیں۔

    انہوں نے آگاہ کیا کہ اوگرا نے مٹی کے تیل کی قیمت 20 روپے فی لیٹر بڑھانے کی سفارش کی لیکن ہم نے صرف 4 روپے فی لیٹر اضافہ کیا۔

    آئی بی لیٹر جعلی ہے، حکومت کو بدنام کیا گیا، ایف آئی آر درج کرادی، وزیراعظم

    آئی بی لیٹر کے معاملے پر وزیراعظم نے کہا کہ آئی بی اور حکومت کو بدنام کرنے کے لیے یہ بات پھیلائی گئی، آئی بی لیٹر میں جن ارکان اسمبلی کا نام آیا، وہ شکایت داخل کردیں، تحقیقات کررہے ہیں، آئی بی کو ہدایت دی ہے کہ اس جعلی ڈاکیومنٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرے کہ اس کے نام پر ایسی دستاویز کیسے نکلی؟ ایف آئی آر درج ہوچکی پیمرا بھی اس پر کارروائی کررہا ہے ایسے جعلی دستاویز سے حکومت اور ایوان کا وقار مجروح ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ خط سامنے آنے پر کابینہ کو یقین دلایا کہ وزیراعظم ہاؤس سے کوئی خط جاری نہیں ہوا،جعلی خط کس نے بنایا اس کی تحقیقات ہورہی ہیں لیکن ہماری تحقیقات کا ہدف میڈیا نہیں،میڈیا کے معاملے پر پیمرا کا فورم موجود ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ ارکان پارلیمنٹ نے تحریک استحقاق پیش کی ہے، اسپیکر قوانین کے مطابق کارروائی کریں۔

  • ارکان پارلیمنٹ سے متعلق آئی بی کا لیٹر اصلی ہے، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہوا، انکشاف

    ارکان پارلیمنٹ سے متعلق آئی بی کا لیٹر اصلی ہے، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہوا، انکشاف

    اسلام آباد: ارکان پارلیمنٹ سے متعلق انٹیلی بیورو کے لیٹر کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ لیٹر جعلی نہیں اصلی تھا اور وہ وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق دو روز قبل ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی نے اجلاس کے دوران حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ حکومت نے اپنے ہی وزرا اور ارکان اسمبلی سمیت دیگر کے خلاف دہشت گردوں سے تعلق کا الزام عائد کرتے ہوئے آئی بی کو ہمارے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے جس کا لیٹر منظر عام پر آچکا ہے۔


    یہ پڑھیں: نوازشریف نے37اراکین پارلیمنٹ کیخلاف آئی بی کو متحرک کیا، انکشاف


    ارکان اسمبلی نے اجلاس کا واک آؤٹ بھی کیا جواب میں حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ لیٹر جعلی ہے تاہم اب انکشاف ہوا ہے لیٹر اصلی تھا اور وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہوا۔

    اس معاملے پر وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد ،ریاض پیرزادہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی ملاقات ہوئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں بتایا گیا کہ آئی بی کو لکھا گیا لیٹر جعلی نہیں بلکہ بالکل درست ہے جو پی ایم ہاؤس سے جاری ہوا،ا جلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تفصیلات میں جانے سے معاملہ مزید گمبھیر ہوگا، ارکان پارلیمنٹ سے متعلق سفارت خانوں اور الیکشن کمیشن کو خط لکھا جائے گا اور ان خطوط کے ذریعے ارکان پارلیمنٹ کو کلیئر قرار دیا جائےگا۔

    ذرائع نے بتایا کہ لیٹر کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد سے وزیراعظم ہاؤس کی لا گ شیٹ غائب ہے۔


    اجلاس میں طے پایا کہ بتایا جائے گا کہ ارکان پارلیمنٹ کے دہشت گردوں سے رابطے نہیں، خط درست تھا لیکن تحقیقات نہیں کی جائے، پیر کو وزیر داخلہ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیں گے اور معاملہ رفع دفع کیا جائے گا۔

    ذرائع نے اس بیٹھک کی اندرونی کہانی میں انکشاف کیا کہ ارکان نے سیکریٹری فواد حسن فواد سے پوچھا کہ کیا وہ گرفتار ہوسکتے ہیں؟ تو جواب میں فواد نے انہیں کہا کہ وہ گرفتار بھی ہوسکتے ہیں اور نااہل بھی۔

    یاد رہے کہ اے آر وائی نیوز کے اینکر و سینئر صحافی ارشد شریف نے اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ نوازشریف نے حکومت پر تنقید کرنے والے 37 اراکین پارلیمنٹ کے خلاف انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) سے چھان بین کروائی، مذکورہ پارلیمنٹیرینز پر کالعدم تنظیموں سے رابطوں کا الزام ہے جس پر عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں آئی بی کے سربراہ سے فوری مستعفی ہونے کیا۔


    اسی سے متعلق:ارکان پارلیمنٹ سے متعلق آئی بی کی مبینہ فہرست، عدالتی انکوائری کا مطالبہ


    یہ خبر جاری ہونے کے بعد آئی بی کے افسر کی جانب سے ارشد شریف کو کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی جس پر سیاسی جماعتوں نے لیٹر کی تحقیقات اور ارشد شریف کو دھمکیوں کے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا بھی مطالبہ کیا۔