سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، عدالت میں پورا ڈرافٹ، ڈیٹا پیش کرینگے۔
اے آر وائی کے پروگرام اعتراض میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ سپریم کورٹ سے یہی درخواست کریں گے معاہدوں کا فارنزک آڈٹ کیا جائے، سپریم کورٹ میں پورا ڈرافٹ اور ڈیٹا پیش کریں گے، چاہتے ہیں کہ آئی پی پیز معاہدوں کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے۔
گوہر اعجاز نے کہا کہ دنیا کی بہترین کمپنیوں سے آڈٹ کرائیں، اخراجات ہم ادا کریں گے، آئی پی پیز کی گزشتہ 20 سال کی کارکردگی کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے۔
سابق وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ 2020 میں آئی پی پیز معاہدوں پر انکوائری کمیٹی بیٹھی تھی، 2020 میں آئی پی پیز معاہدوں کا آڈٹ ہوجاتا تو آج قوم تکلیف میں نہ ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ وزیرخزانہ کو کہوں گا لوگوں کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر مسئلہ حل کریں، لوگ کہتے ہیں ہمارے بند پلانٹ سے مہنگی بجلی نہ خریدی تو اعتماد مجروح ہوگا۔
ڈاکٹرگوہراعجاز نے کہا کہ آج حالات ایسے ہیں کوئی بجلی کا بل دینے کو تیار نہیں ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اپنے لیے ادویات خریدیں یا بجلی کے بل دیں۔
انھوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے 40 خاندانوں میں اپٹما کے ممبران بھی ہیں، میں نے اپٹما کے پیٹرن کے عہدے سےاستعفیٰ دینے کے بعد آواز اٹھائی۔
بجلی کے حالیہ بلوں میں بے تحاشہ اضافے کی ذمہ دار انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے 2050 تک چلیں گے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسئلے کے حل کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’دی رپورٹرز‘میں بین الاقوامی ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا کہ سب سے پہلے حکومت اس بات کا تہیہ کرلے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ اس طرح کی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ جن آئی پی پپیز کے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا لیکن ان معاہدوں کو ان پیرا میٹرز کے اندر استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیز کے ہیٹ آڈٹ، ٹیکس اور فرانزک آڈٹس کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیٹ آڈٹ سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر کوئی بجلی گھر 10میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے لیکن کاغذات میں اس نے 15 میگاواٹ لکھا ہوا ہے، اسی صورت میں ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے، اگر حکومت ایسا نہیں کرپاتی یا ان سے بات نہیں کرتی تو یہ لوگ حکومت کو عالمی قوانین سے ڈراتے رہیں گے۔
حافظ احسان احمد نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باوجود آئی پی پیز کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آرہا بلکہ اس کے برعکس حکومتی عہدایداران ٹی وی پر آکر ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان معاہدوں میں سراسر دھوکہ ہے اس میں اختیارات کو استعمال کیا گیا، لہٰذا ان میں کچھ تینکی خامیاں بھی ہیں جن کی نشاندہی کرکے اس مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بجلی کا بحران ہے اور اس پر ستم یہ کہ اس کی قیمت میں بھی آئے روز اضافہ جاری ہے، آئی پی پیز سے کیے گئے مہنگے ترین معاہدوں کا سارا بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑ رہا ہے۔
بجلی کے بلوں میں لی جانے والی رقم کن کی جیبوں میں جارہی ہے؟ آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کو کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں اربوں روپیہ دیا جا رہا ہے جبکہ متعدد آئی پی پیز بجلی بھی پیدا نہیں کر رہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے ایک تفصیلی اور ہوشربا جائزہ پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر خزانہ گوہر اعجاز نے اپنے ایک ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پیغام میں بتایا ہے کہ حکومت ایک پاور پلانٹ سے سب سے زیادہ مہنگی بجلی 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہی ہے۔
کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جبکہ ونڈ اور سولر پلانٹس سے 50 روپے فی یونٹ سے اوپر میں بجلی خریدی جا رہی ہے۔
گوہر اعجاز کے مطابق ان مہنگے ترین آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے، دوسرے پاور پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے اور تیسرے پاور پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کررہی ہے، یہ صرف تین پاور پلانٹس کیلئے 370 ارب روپے بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے۔ اپنے ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں کے ساتھ کئے گئے ان معاہدوں کے خلاف سب کو اٹھنا چاہیے۔
کیپسٹی پیمنٹ کیا ہوتی ہے؟
ملک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلیے مختلف حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے، ان پرائیویٹ کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے یا نہ کرنے کے باوجود بھی ماہانہ اربوں روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے، جسے کیپیسٹی پیمنٹ کہا جاتا ہے۔
ماریہ میمن نے بتایا کہ گزشتہ دس سال کے دوران کیپیسٹی پیمنٹ میں ہونے والا اضافہ بھی باعث تشویش ہے، سال 2013 میں 185 ارب روپے ادا کیے گئے جبکہ سال 2024 میں یہ رقم 1800 ارب روپے کے اضافے سے 2ہزار10 ارب تک جاپہنچی اور اب ہر سال اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
کپیسٹی پیمنٹ ہمارے بجلی کے بلوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ بجلی کے بل میں کپیسٹی پیمنٹ فی یونٹ 18 روپے 39 پیسے مقرر ہے، بجلی کی فروخت میں کمی کی وجہ سے پاور پلانٹس بند بھی کردیے جاتے ہیں لیکن اس کی وصولی بھی بجلی کے بل سے ہوتی رہتی ہے۔
لوگوں کی سولر سسٹم پر منتقلی کی وجہ سے نیشنل گرڈ اسٹیشن وہ وصولی باقی لوگوں کے بجلی کے بلوں سے وصول کرتے ہیں۔
کتنے آئی پی پیز کتنی بجلی پیدا کررہے ہیں؟
بہت سے ایسے پلانٹ ہیں جن کو باقاعدگی سے کیپیسٹی پیمنٹ ہورہی ہے لیکن وہ بجلی نہیں بنا رہے، ان میں سے تین ایسے پلانٹس ہیں جو بالکل بھی بجلی پیدا نہیں کررہے،جبکہ 37 پلانٹس 25 فیصد سے بھی کم بجلی پیدا کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ 60 پلانٹس ایسے ہیں جو 25 فیصد یا اس سے کچھ زیادہ بجلی بنا رہے ہیں۔
آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں؟
ماریہ میمن کے مطابق پاکستان کے 28 فیصد آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کو نجی شعبہ اون کرتا ہے، حکومت 52 فیصد اور بیرون ممالک کی ملکیت 20فیصد ہے اس کے علاوہ 80 فیصد آئی پی پیز پاکستانیوں کی ملکیت ہے۔
اپنے ایک ایکس بیان میں سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے بتایا کہ کہ 48 فیصد آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کی بجائے 60 روپے ناجائز وصول کی جارہی ہے۔