Tag: آئی پی پیز

  • آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ میں اہم انکشافاف

    آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ میں اہم انکشافاف

    اسلام آباد: جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ جاری کردی۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کے بلوں میں ناروا اضافہ، بھاری ٹیکسز اور مہنگائی کے خلاف دھرنا دینے والی جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ جاری کردی، رپورٹ آڈیٹر جنرل پاکستان کی تیار کردہ ہے جو سال 2022،23 میں تیار کی گئی ہے۔

    آڈٹ رپورٹ کے مطابق بجلی پیدا کرنیوالے ہر پلانٹ کا سالانہ کیپیسٹی ٹیسٹ لازمی ہوتا ہے، لیکن ہر سال طریقہ کار کے مطابق ٹیسٹ نہ کرنے کی وجہ سے پلانٹس کو کپیسٹی پیمنٹس خلاف ضابطہ دی جاتی رہیں۔

    آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی پالیسیاں کی وجہ سے معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ڈسکوز کو ریونیو اکھٹا کرنے کے طریقہ کار کو ٹھیک کرنا چاہئیے، نیپرا ڈسکوز کو ریوارڈ اور پینلٹی کے ٹارگٹ دے سکتی ہے تاکہ یہ اپنے نقصانات کم کر سکیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے دنیا بھر میں آئی پی پیز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن حکومت نے اس طریقہ کار کا درست استعمال نہیں کیا۔ حکومت کے غلط طریقہ کار سے پاکستان میں بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔

     حکومت نے بجلی کی قیمت کا تعین اور حکومت گارنٹی کا غلط استعمال کیا اور بجلی کی لاگت کے مقابلے میں ادائیگیاں کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں زیادہ کی گئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی کی پیداوار کو منتقل کرنے اور ڈسٹری بیوشن کا نظام بھی ناکافی تھا، ڈسٹری بیوشن نظام نہ ہونے کی وجہ  سے زائد بجلی استعمال میں نہیں لائی جاسکی، ٹرانسمیشن سسٹم صرف 23 ہزار میگا واٹ کا لوڈ اٹھا سکتا ہے جبکہ پیداواری صلاحیت 36 ہزار میگا واٹ تک بڑھا لی گئی۔

  • بجلی کے بلوں میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ماہر معاشیات نے بتادیا

    بجلی کے بلوں میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ماہر معاشیات نے بتادیا

    ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کمی کی جاسکتی ہے تاہم اس کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آئی پی پیز کو دیے جانے والے کیپسٹی چارجز اور دیگر اخراجات سے متعلق امور پر تفصیلی گفتگو کی۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات کرکے بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کردیا جائے تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔

    ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے پاکستان کے پاور سیکٹر کو ری اسٹرکچرنگ کی فوری ضرورت ہے۔

    ان کے بقول حکومت واجبات کی وصولی اور بجلی کے ترسیلی نقصانات کو روکنے کے بجائے صارفین پر اس کا بوجھ لاد دیتی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے، اس لیے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔

    بجلی کے زائد بل کا فوری حل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بل میں 18 فیصد جی ایس ٹی اور 7 فیصد انکم ودھ ہولڈنگ ٹیکس جو لیے جارہے ہیں اگر حکومت ان دو ٹیکسوں کو دو یا تین ماہ کیلئے 300یا 400 یونٹ والوں کیلئے مؤخر کردے تو کم آمدنی والے طبقے کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔

     

  • بجلی کے ہوشربا بل : اربوں بٹورنے والے آئی پی پیز کون سے ہیں؟

    بجلی کے ہوشربا بل : اربوں بٹورنے والے آئی پی پیز کون سے ہیں؟

    پاکستان میں مہنگے ترین پاور پلانٹس عوام کا خون کیسے نچوڑ رہے ہیں اس کا اندازہ ہمیں بجلی کے بلوں کو دیکھ کر ہوجاتا ہے، لوگ گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔

    پاور پلانٹس سے کیے گیے بدترین معاہدوں کے نتیجے میں آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کو جو ادائیگیاں (کپیسٹی پیمنٹ) کی جارہی ہیں اس کا سارا بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر ہے۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوزکے پروگرام دی رپورٹرز میں میزبان خاور گھمن نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی

    کپیسٹی پیمنٹ کیا ہے؟

    کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی پی پیز کو مذکورہ کپیسٹی پیمنٹ پاکستانی روپے میں نہیں بلکہ امریکی ڈالر کی صورت میں ادا کی جارہی ہے۔

    اس حوالے سے سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز اپنے بیانات اور ایکس پیغامات کے ذریعے عوام کو آگاہی فراہم کررہے ہیں کہ کہاں کہاں حکومت وقت کیا غلطی کررہی ہے اور اگر اس غلطی کو درست نہ کیا گیا تو ملکی معاشی حالات بد سے بد ترین ہوتے چلے جائیں گے۔

    ڈاکٹر گوہر اعجاز نے اپنے ایکس پیغام میں ملک میں موجود پانچ مہنگے ترین پاور پلانٹس کا ذکر اور ان کی کارکردگی کی تفصیل بیان کی ہے۔

    مہنگے ترین پاور پلانٹس کون سے ہیں؟

    پہلا پاور پلانٹ روش کے نام سے ہے جو 1999 میں قائم کیا گیا، اس کی مدت 30سال ہے یہ پاور پلانٹ 745 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کررہا ہے۔

    دوسرا پاور پلانٹ چائنا پاور حب ہے جو 350روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کررہا ہے، اس کے بعد پورٹ قاسم الیکٹرک ہے جو 177 روپے فی یونٹ بجلی دے رہا ہے۔

    چوتھا پاور پلانٹ صبا پاور کے نام سے ہے یہ بھی سال 1999 میں 30 سال کیلئے قائم کیا گیا، اور یہ 117 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

    اس کے بعد پاک جین کے نام سے قائم کیا گیا بجلی گھر ہے جو 95 روپے کے ریٹ سے بجلی پیدا کررہا ہے، ان مذکورہ پاور پلانٹس کی تفصیل کے ساتھ جو انکشاف ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کیا وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے مہنگا پاور پلانٹ روش کو روان سال 2024 میں ماہ جنوری سے مارچ تک بغیر کسی پیداوار کے ایک ارب 28کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    اسی طرح چائنا پاور حب نامی اس بجلی گھر کو بغیر بجلی پیدا کیے اسی تین ماہ کی مدت میں 33 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اور پورٹ قاسم الیکٹرک کو بھی بغیر کسی پیداوار کے تقریباً 30 ارب روپے ادا کیے گئے۔

    اس کے علاوہ رواں سال جنوری سے مارچ تک پنجاب تھرمل پاور کو بھی صفر پیداوار کے باوجود تقریباً 10 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اسی طرح جامشورو پاور (جینکو ون) کو بھی اسی مدت میں بغیر بجلی پیدا کیے تقریباً 93 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    سیف پاور پروجیکٹ کو بھی ان ہی تین ماہ کے دوران بغیر کسی پیداوار کے 67کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ سیفائر الیکٹرک لمیٹڈ کو جنوری سے مارچ تک 59 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئےتجز یہ کار حسن ایوب نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی ایسے معاہدے کرکے یہ جرم کیا ہے ان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔

  • بجلی کی بند کمپنیوں کو اربوں کی ادائیگیوں کا شرمناک کھیل، خفیہ حکومتی معاہدوں پر جوہر علی قندھاری کا رد عمل

    بجلی کی بند کمپنیوں کو اربوں کی ادائیگیوں کا شرمناک کھیل، خفیہ حکومتی معاہدوں پر جوہر علی قندھاری کا رد عمل

    کراچی: بند آئی پی پیز کو اربوں کی ادائیگیوں کے شرمناک کھیل کا انکشاف ہوا ہے، خفیہ حکومتی معاہدوں پر کورنگی ایسوسی ایشن کے صدر جوہر علی قندھاری کا سخت رد عمل سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کورنگی ایسوسی ایشن کے صدر جوہر علی قندھاری نے کہا ہے کہ 25 فی صد آئی پی پیز نہیں چل رہیں، لیکن ان کو بجلی نہ بنانے پر بھی 10 ارب روپے ماہانہ ادائیگی کا انکشاف ہوا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ خفیہ معاہدے اب سامنے آئے ہیں، آئی پی پیز کی بجلی استعمال نہیں کی جا رہی لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے صارفین سے 24 روپے فی یونٹ کپیسٹی چارجز وصولی کی جا رہی ہے۔

    جو معاہدے ہوئے وہ حکومت کی ضمانت کے طور پر خفیہ رکھے گئے، جوہر علی قندھاری نے کہا کہ ملک میں 25 فی صد آئی پی پیز بند ہیں، اور بند آئی پی پیز کو ماہانہ دس ارب روپے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے تنبیہہ کی ’’ہماری نظریں ہماری لیڈر شپ پر ہیں اگر انھوں نے کہا تو انڈسٹری بند کر دیں گے، مسئلہ حل نہ ہوا تو اسلام آباد جا کر انڈسٹری کی چابیاں حکومت کے حوالے کر دیں گے۔‘‘

    3 ماہ میں‌ سرکاری بجلی گھروں کو اربوں روپے کی ادائیگیوں کا انکشاف

    کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر جوہر علی قندھاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق ہم لاعلم تھے، لیکن اب حقائق سامنے آئے ہیں کہ آئی پی پیز کا کتنا بوجھ ہے اور کون اس بوجھ کو ڈھو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ غیر فعال آئی پی پیز کے پاور پلانٹ کے کپیسٹی چارجز کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

    جوہر علی قندھاری کے مطابق ملک میں 106 آئی پی پیز کام کر رہی ہیں، 52 فی صد آئی پی پیز حکومتی، 23 فی صد سی پیک منصوبے کے تحت اور 25 فی صد نجی شعبے کی ملکیت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جو بجلی استعمال نہیں ہوتی اس کا بھی بل میں بوجھ ڈالا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کیا ہم ان 40 آئی پی پیز کے مفادات کا تحفظ کریں یا 24 کروڑ عوام کی حالت زار کو دیکھا جائے، ان 40 آئی پی پیز کو نوازا گیا اور بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ یہ سوال بھی ہے کہ اتنا بڑا راز پہلے کیوں سامنے نہیں لایا گیا، 2000 ارب سے زائد کپیسٹی چارجز پچھلے مالی سال میں وصول کیے جا چکے ہیں اور رواں مالی سال 2100 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں وصول کیے جائیں گے، اس طرح کے طرز عمل سے مقامی انڈسٹری، برآمدات اور ملک کو کون نقصان پہنچا رہا ہے؟

    انھوں نے کہا کہ کاٹی کے ممبران کا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کپیسٹی چارجز عوام پر سراسر ظلم ہے اسے ختم کیا جائے، سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ حکومت کا کام جرائم پر قابو پانا ہے لیکن آئی پی پیز کے جرم میں حکومت براہ راست ملوث ہے، آئی پی پیز کے جرم کے ذریعے حکومت نے براہ راست برآمدات کو نشانہ بنایا ہے۔

  • آئی پی پیز کو رواں سال کے پہلے 3 ماہ  میں 450 ارب روپے کی بھاری ادائیگیاں

    آئی پی پیز کو رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 450 ارب روپے کی بھاری ادائیگیاں

    اسلام آباد: آئی پی پیز کو رواں سال کے پہلے3 ماہ کے دوران 450 ارب روپے کی بھاری ادائیگیوں کا انکشاف سامنے آیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز  نے کپیسٹی پیمنٹس کا ڈیٹا شیئرکر دیا، جس میں رواں سال کے پہلے3 ماہ میں آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیوں کا انکشاف ہوا۔

    گوہراعجاز نے بتایا کہ مختلف آئی پی پی کو  جنوری سے مارچ 2024 کے دوران ماہانہ 150 ارب روپے اداکیےگئے جبکہ  آدھے 10 فیصد سے بھی کم کپیسٹی پر چل رہی ہیں۔

    سابق نگراں وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ 4 پاور پلانٹس بجلی پیدا کیے بغیر10 ارب روپے ماہانہ لے رہے ہیں، ہماری کمائی 40 خاندانوں میں کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کی جاتی ہے، جب یہ پاور پلانٹس بجلی پیدا کریں جب ہی ان کو پیسے دیےجائیں۔

    گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا کہ نیپرا میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دی جائے اور حکومت عوام کے پیسے پرکاروبار نہ کرے، صارفین کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔

  • آئی پی پیز بجلی پیدا نہیں کررہے تو پیسے کیوں دیں؟ حنیف عباسی

    آئی پی پیز بجلی پیدا نہیں کررہے تو پیسے کیوں دیں؟ حنیف عباسی

    ن لیگ کے مرکزی رہنما حنیف عباسی نے بغیر بجلی پیدا کیے آئی پی پیز کو رقم ادائیگی کی مخالفت کردی، ان کا کہنا ہے کہ بجلی پیدا نہیں کررہے تو ایسے ہی پیسے نہیں دیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آئی پی پیز کے کردار پر کڑی تنقید کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر معاہدے غلط بھی ہوگئے ہیں تو کہہ دیں کہ ہم پیسے نہیں دیں گے، انہوں نے ان معاہدوں سے کھربوں روپے کمالیے، میاں منشا ملک کیلئے کچھ ارب روپے چھوڑ دیں گے تو کیا قیامت آجائے گی؟

    مختلف ٹیکسز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سوئی گیس اور سولر پینلز پر ٹیکس لگانا ظلم ہے، یہ ٹیکس نہیں لگانا چاہیے۔

    گزشتہ دنوں انوار الحق کاکڑ سے متعلق زیر گردش خبر سے متعلق حنیف عباسی نے بتایا کہ سابق نگران وزیر اعظم سے سامنا ہوا تو گندم سے متعلق بات چیت ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ کیا آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں، تو میں نے کہا کہ میں کیسے آپ کو گرفتار کرسکتا ہوں۔

    حنیف عباسی نے واضح کیا کہ انوارالحق کاکڑ سے تو کوئی فارم47کی بات ہی نہیں ہوئی، انہوں نے کسی اور جگہ فارم47کی بات کی ہو تو الگ ہے۔

    حنیف عباسی نے مزید کہا کہ ن لیگ کی مرکز میں حکومت اور پنجاب میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزارت اعلیٰ ہے، ہم الیکشن کہاں ہارے ہیں؟ ہم تو الیکشن جیتے ہیں اسی لیے ہماری حکومت ہے، پنجاب اور مرکز میں سب سے بڑی جماعت ن لیگ ہے۔

  • آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف

    آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف

    اسلام آباد: آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود ادائیگی کیے جانے پر متعلقہ حکام سے آئی پی پیز کے تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

    چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے اجلاس میں چیئرمین نیپرا سے استفسار کیا کہ بعض آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جا رہے ہیں، جب عوام بجلی لے نہیں رہے تو آئی پی پیز کو پیسے کیوں دیے جا رہے ہیں؟

    چیئرمین نیپرا نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے سی پی پی اے کیپسٹی پیمنٹ چارجز کرتی ہے۔

    چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ دنیا میں زیادہ بجلی استعمال کرنے والے کو ریلیف ملتا ہے، لیکن پاکستان میں زیادہ بجلی استعمال پر ٹیرف ڈبل ہو جاتا ہے، انھوں نے ہدایت کی کہ نیپرا آئی پی پیز کی فہرست اور معاہدے کی کاپیاں پی اے سی کو دیں، تاکہ پتا چلے کہ کس کو آئی پی پیز سے کتنا پیسہ ملتا ہے؟

    انھوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیوں کیے جا رہے ہیں کہ بجلی لیں یا نہ لیں ادائیگی ضرور کریں گے۔

    رکن پی اے سی شیخ روحیل اصغر نے چیئرمین نیپرا سے چوری سے متعلق استفسار کیا کہ اس وقت ملک میں کتنی فی صد بجلی چوری ہو رہی ہے؟ چیئرمین نے جواب دیا کہ ڈسکوز کو 13 فی صد بجلی لائن لاسز کی رعایت ہے مگر نقصان 17 فی صد پایا گیا ہے، اور اس وقت زیادہ بجلی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) میں چوری ہو رہی ہے، جو 65 فی صد ہے۔

    نیپرا چیئرمین نے بتایا کہ بجلی صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دینے سے نقصان ہو رہا ہے، صارفین اپنی بجلی بھی پیدا کررہے ہیں اور بیچ بھی رہے ہیں، اور صارفین کے لیے بجلی کافی موجود ہے، ملک میں 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    بجلی کی طلب 28500 میگا واٹ سے بھی تجاوز کر گئی

    سلیم مانڈوی والا نے پوچھا اگر 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر لوڈ شیڈنگ کیوں ہے؟ نیپرا چیئرمین نے جواب دیا کہ تیل کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا نہیں ہو رہی، ہم نیٹ میٹرنگ صارفین سے 12 روپے 50 پیسے فی یونٹ بجلی لیتے ہیں، پہلے ان کو 16.50 روپے فی یونٹ بجلی دی جا رہی تھی، اب 7.75 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی ہوئی ہے۔

    چیئرمین کمیٹی نور عالم نے کہا کہ لگتا ہے چیئرمین نیپرا آپ کی بجلی مفت ہے، انھوں نے جواب دیا میری بجلی مفت نہیں، میرا خود 68 ہزار روپے بل آیا ہے، میرا بل میری تنخواہ کے اعتبار سے زیادہ ہے، نور عالم نے پوچھا آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا میری تنخواہ 7 لاکھ اور کچھ ہزار ہے۔

    نور عالم نے کہا میری تنخواہ تو ڈیڑھ لاکھ ہے، آپ کی تو بہت زیادہ ہے، چیئرمین اوگرا آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ اوگرا چیئرمین نے جواب دیا میری تنخواہ 11 لاکھ روپے ہے، لیکن میں جہاں سے آیا ہوں وہاں یورو میں تنخواہ لیتا تھا۔

  • وفاقی کابینہ کا سندھ حکومت کی جانب سے 6 سال پرانی گندم ریلیز کی رپورٹ پر اظہار تشویش

    وفاقی کابینہ کا سندھ حکومت کی جانب سے 6 سال پرانی گندم ریلیز کی رپورٹ پر اظہار تشویش

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کابینہ نے سندھ حکومت کی جانب سے 6 سال پرانی گندم ریلیز کیے جانے کی رپورٹ پر اظہار تشویش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج وفاقی کابینہ اجلاس میں پرانی گندم ریلیز کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والی چشم کشا رپورٹ زیر گفتگو آئی، رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے 6 سال پرانی 32 ہزار ٹن گندم ریلیز کی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ کی جانب سےگندم بر وقت ریلیز نہ کی گئی، سندھ حکومت نے گندم اور چینی کے اسٹاک کی معلومات بھی فراہم نہیں کیں، اس قدام سے اجناس کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ دیکھنے میں آیا، اور گندم کی بڑی مقدار ضائع ہونے سے عام آدی مشکلات کا شکار ہوا۔

    دریں اثنا، وفاقی کابینہ نے ٹیکس قوانین میں ترمیم آرڈیننس 2021 کی منظوری دی، ان ترامیم کا مقصد ڈیجیٹل روشن پاکستان منصوبے میں سہولت کاری ہے، اب تک روشن پاکستان اکاؤنٹ میں 500 ملین ڈالر کی رقم آ چکی ہے۔ کابینہ نے مختلف شہروں میں مزید 30 احتساب عدالتوں کے قیام کی بھی منظوری دے دی۔

    کابینہ کمیٹی توانائی کے اجلاس میں لیےگئے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی، کابینہ کو آئی پی پیز سے ہونے والے حکومتی مذاکرات پر بریفنگ دی گئی، جس میں کہا گیا کہ مذاکرات سے آئندہ 20 سال میں ملک کو 800 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، آئی پی پیز کو تقریباً 400 ارب روپے کی ادائیگی پری آڈٹ کے بعد کی جا رہی ہے، یہ رقم حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو واجب الادا ہے۔

    بتایا گیا کہ محمد علی رپورٹ میں سامنے آنے والی 57 ارب کی رقم سے متعلق کمیٹی قائم ہوئی، جو 2 جج صاحبان اور آڈیٹر پر مشتمل ہے جو جائزہ لے کر فیصلہ دے گی، اس کمیٹی کے فیصلے کے خلاف آئی پی پیز اپیل کے حق سے دست بردار ہو چکے ہیں، 12 آئی پی پیز 92 ارب روپے کا کیس جیت چکے تھے، مذاکرات کے نتیجے میں حکومت نے 32 ارب روپے بچائے ہیں، جس کا فائدہ بجلی نرخوں میں کمی کی صورت میں عوام کو میسر آئے گا۔

    بریفنگ کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں حکومت اپنے کسی حق سے دست بردار نہیں ہوئی، وفاقی کابینہ نے مذاکراتی کمیٹی کی کاوشوں کو سراہا، وزیر اعظم نے کہا ملک کے کسی بھی حصے میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے، اور تکنیکی وجہ پر ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے ہر واقعے کا بغور جائزہ لیا جائے۔

  • بجلی سستی کرنے پر توجہ مرکوز ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کر لیے: عمر ایوب

    بجلی سستی کرنے پر توجہ مرکوز ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کر لیے: عمر ایوب

    اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت نے بجلی سستی کرنے پر توجہ مرکوز کر لی ہے، پاور سیکٹر میں اصلاحات کے لیے حکومت کو 3 ہفتے درکار ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عمر ایوب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے توانائی کے شعبے کے مسائل پر توجہ نہیں دی، اب شعبے میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، آئندہ 3 ہفتوں میں پاور سیکٹر کی مزید تفصیلات پیش کریں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ حکومت کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے طے پائے ہیں، اور وسیع تر ملکی مفاد میں ہم آہنگی کے ساتھ معاملات طے کیے گئے ہیں، ان نئے معاہدوں سے گردشی قرضوں میں کمی آئے گی اور صنعتوں کو فروغ ملے گا۔

    عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکومت نے 2002 اور 2006 کے معاہدوں پر نظرثانی کی ہے، پاور سیکٹر میں مسائل ہمیں ورثے میں ملے، سابقہ حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے پاور گیس سیکٹر ٹھیک کرنا ہے، ماضی کی حکومتیں غیر سنجیدہ تھیں، ہم بلوچستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اقدامات کرنے والے ہیں۔

    وزیر توانائی نے کہا بجلی کی پیداوار کی لاگت اور ترسیل میں اصلاحات کی جا رہی ہیں، اس کے نتیجے میں صارفین کو سستی بجلی فراہم ہوگی، حکومت کے بجلی پیداواری اداروں سے معاملات طے ہو رہے ہیں، زرعی شعبے اور چھوٹی صنعتوں کی بہتری کے لیے بجلی سستی کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے، بجلی سستی ہوگی تو پیداواری لاگت کم ہو سکے گی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سابقہ حکومتوں نے فیول مکس متاثر کیا، کل فیول مکس کا 70 فی صد مہنگی فیول کی طرف تھا، اس لیے مہنگے فیول سے بجلی بھی مہنگی بن رہی تھی۔

  • ماضی کی غلط پالیسیاں، بجلی پلانٹس کو 1 ہزار ارب زائد ادائیگیوں کا انکشاف

    ماضی کی غلط پالیسیاں، بجلی پلانٹس کو 1 ہزار ارب زائد ادائیگیوں کا انکشاف

    کراچی: ماضی کی غلط پالیسیوں کا ایک اور بڑا نقصان سامنے آ گیا، بجلی پلانٹس کو 1 ہزار ارب زائد ادائیگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آئی پی پیز کے حوالے سے ایک چشم کشا رپورٹ وزیر اعظم کو مارچ کے آخری ہفتے میں پیش کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ ماضی میں بجلی پلانٹس کو ایک ہزار ارب روپے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں، 1994 کی پالیسی کے تحت 16 آئی پی پیز نے 51.80 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی، اور 415 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر آئی پی پیز نے 4 سال میں ہی سرمایہ واپس حاصل کیا، کمپنیوں نے اوسطاً 87 فی صد منافع حاصل کیا، یعنی 9 گنا منافع اور 7 گنا ڈیویڈنڈ لیا۔

    2007 میں شوکت عزیز کے دور کی ای سی سی نے کوتاہی کر کے آئی پی پیز کو 16.48 ارب روپے کمانے کا موقع فراہم کیا، ان کمپنیوں نے سرمایہ کاری روپوں میں کی اور منافع ڈالروں میں وصول کیا۔

    دوسری طرف موجودہ حکومت نے شفاف انکوائری کی ایک اور مثال قائم کر دی ہے، اس رپورٹ میں کابینہ ارکان عبدالرزاق داؤد اور ندیم بابر کی کمپنیوں کا بھی تذکرہ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عبدالرزاق داؤد کی کمپنی نے 30 ارب روپے کمائے، ندیم بابر کی کمپنی نے بھی اربوں کا منافع سمیٹا، دونوں کابینہ ارکان کی موجودگی میں وزیر اعظم عمران خان کو رپورٹ پیش کی گئی۔

    دریں اثنا، وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیا ہے کہ معاہدوں پر آئی پی پیز سے بات نہ کریں، عالمی کیسز بن سکتے ہیں، رپورٹ میں میاں منشا کی پاور کمپنیوں کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا، نشاط اور چونیاں پاور نے 20 ارب سے زائد بٹورے۔