Tag: آئی ڈی پیز

  • گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    پشاور: ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر اور اس کے خلاف مسلح افواج کی جنگ نے جہاں ایک طرف تو ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی وہیں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوگئے تھے۔ گو کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، لیکن اب ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہاں کی خصوصاً خواتین، جو کبھی آئی ڈی پیز تھیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2009 میں شروع کیے جانے والے سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ اس وقت اندرونی طور پر ہجرت کرنے والے افراد (انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسن) کی سب سے بڑی تعداد تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    یہ لوگ برسوں کا جما جمایا گھر چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں آ بسے اور یہاں سے ان کی زندگی کا ایک تلخ دور شروع ہوا۔

    اپنے علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والے افراد ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی قطاروں کی خواری اٹھانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنی پڑی، اور بچے تعلیم، کھیل اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔

    یہ وہ حالات تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    سنہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن شمالی وزیرستان، اور فاٹا کے علاقوں میں شروع کیا گیا اور اس بار یہاں کے لوگوں کو دربدری اور ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

    آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں 20 لاکھ کے قریب افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ دربدری، بے بسی اور بے چارگی کا ایک اور دور تھا تاہم اس بار انتظامات کچھ بہتر تھے۔

    ایک سال کے اندر ہی متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ تمام متاثرین کی حتمی واپسی کے لیے دسمبر 2016 کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی بھی آپریشن سے متاثر ہونے والے قبائلین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

    کیا واپس جانے والوں کے لیے زندگی پہلے جیسی ہے؟

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس جانے والوں نے حکومتی امدادی رقم سے اپنے گھر بار تعمیر کر کے نئی زندگی کا آغاز کردیا ہے۔ اکثر کی زندگی آپریشن سے پہلے جتنی خوشحال تو نہیں، تاہم وہ ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

    لیکن درحقیقت سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔

    مینگورہ کی 29 سالہ خدیجہ بی بی آپریشن سے قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجائے کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر کو انہیں چھوڑنا پڑے گا، اور چھوڑنا بھی ایسا جو ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گا۔

    جب آپریشن شروع ہوا تو خدیجہ بی بی اپنا اور اپنے خاندان کا ضروری سامان اٹھائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپ میں آ بسیں، لیکن رکیے، وہ بسنا نہیں تھا، وہ تو خدیجہ بی بی کے لیے مجبوری کی حالت میں سر چھپانے کا ایک عارضی ٹھکانہ تھا جو ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔

    ساری عمر بڑی سی چادر میں خود کو چھپائے خدیجہ بی بی نے بہت کم گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔ اگر وہ گھر سے باہر گئی بھی تھیں تو باعزت طریقے سے، اپنے شوہر کے ساتھ باہر گئی تھیں۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں لد کر آنے، اور ایک خیمے میں پڑاؤ ڈال لینے کا تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

    فوج کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور دیگر اشیا کے لیے قطاروں میں لگنا، چھینا جھپٹی، خوراک کے لیے ہاتھا پائی اور تکرار، اور رہنے کے لیے کپڑے سے بنا ہوا ایک خیمہ جہاں رہ کر صرف انہیں یہ اطمینان تھا کہ کوئی غیر مرد اندر جھانک نہیں سکے گا۔

    ان تمام حالات نے خدیجہ بی بی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بالکل تبدیل کردیا۔ پچھلی زندگی کا سکون، اطمینان اور خوشی خواب و خیال بن گئی۔ بالآخر برا وقت ختم ہوا، ان کے علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا اور خدیجہ بی بی کے خاندان اور ان جیسے کئی خاندانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی، لیکن یہ خوف، بے سکونی اور نفسیاتی الجھنیں اب ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن چکی تھیں۔

    اور ایک خدیجہ بی بی پر ہی کیا موقوف، ٹوٹے پھوٹے تباہ حال گھروں کو واپس آنے والا ہر شخص کم و بیش انہی مسائل کا شکار تھا، اور خواتین اور بچے زیادہ ابتر صورتحال میں تھے۔

    واپسی کے بعد بھی زندگی آسان نہیں

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم و صحت کے لیے سرگرم ادارے اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹنے والے آئی ڈی پیز کو صحت کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے صدمہ وہ جو انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے سہنا پڑا۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن 2009 میں شروع ہوا جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی میں ابھی تک برقرار ہیں، وہاں کے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوچکے ہیں اور اس میں مرد و خواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ کسی ناقابل یقین حادثے یا سانحے کے ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحے کی تلخ یادیں، ان کی وجہ سے مزاج، صحت اور نیند میں تبدیلیاں اور مختلف امراض جیسے سر درد، ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہونا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ایک جما جمایا گھر چھوڑ کر، جہاں آپ نے ایک طویل عرصے تک پرسکون زندگی گزاری ہو، کسی انجان مقام پر جا رہنا آسان بات نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز نے بھی ان امن پسند لوگوں کو دربدر کردیا جس کے باعث یہ گھر واپسی کے بعد بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

    فطری حاجت کے مسائل

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں رہائش کے دوران قبائلی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کا کبھی اس سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک آئی ڈی پی کیمپ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ خواتین کو فطری حاجت سے متعلق بے شمار مسائل ہیں۔ خواتین نے شکایت کی کہ ان کے لیے بنائے گئے واش رومز یا پانی بھرنے کی جگہیں ان کے کیمپوں سے بہت دور تھیں، وہاں پر اندھیرا ہوتا تھا اور بعض اوقات باتھ روم کے دروازوں کی کنڈیاں درست نہیں تھیں۔

    گلالئی کے مطابق ان پردہ دار خواتین کے لیے ایسے غیر محفوظ بیت الخلا کا استعمال مشکل ترین امر تھا، نتیجتاً بے شمار خواتین گردوں کے امراض میں مبتلا ہوگئیں، ہر روز جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی تھی وہ الگ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان غیر محفوظ باتھ رومز کی وجہ سے جنسی ہراسمنٹ کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے۔

    گھریلو تشدد میں اضافہ

    ایک اور مسئلہ جو ان خواتین نے اس دربدری کی زندگی میں سہا، وہ تشدد تھا جو ان کے مردوں نے ان پر کیا۔

    گلالئی کے مطابق انہیں خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں مہاجروں جیسی زندگی گزارنے لگے تو ان کی زندگی سے سکون اور اطمینان کا خاتمہ ہوگیا جس کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ ان کے مردوں نے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    خواتین نے بتایا کہ جب مرد کیمپ سے باہر نامساعد حالات سہہ کر آتے تو ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن اپنے عروج پر ہوتی جو انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے نکالنی شروع کردی۔

    بیشتر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے گھروں میں ایک پرسکون زندگی گزارتے تھے تو اس وقت کبھی ان کے مردوں نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

    دماغی و نفسیاتی امراض میں اضافہ

    خیبر پختونخواہ میں معمولی پیمانے پر دماغی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان کے مطابق مہاجر کیمپوں سے لوٹ کر آنے والے شدید دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق لوگ ہر وقت ایک نامعلوم خوف اور بے چینی کے حصار میں رہنے لگے۔ ان کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ڈر کر اٹھ جایا کرتے تھے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ فطری سخت جانی کے سبب مردوں نے تو ان مسائل پر کسی حد تک قابو پالیا، تاہم خواتین اور بچے مستقل مریض بن گئے۔

    اس حوالے سے گلالئی نے بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے بچوں سے ان کی تعلیم کے حوالے سے بات کی، تو بچوں نے انہیں بتایا کہ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پڑھنے کے دوران ان کے سر میں مستقل درد ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، جبکہ رات کو سونے کے دوران بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔

    اور صرف بچے ہی نہیں خواتین بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی نے ان کی نفسیات و مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ ہنسنا بھی بھول گئی ہیں۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن کے بعد اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ جنگ کے نقصانات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ادارے (ری ہیبلی ٹیشن سینٹر) قائم کیے جاتے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں، اس طرح کے اداروں کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔

    پھر سنہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوگیا اور اس بار مختلف قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی کو دربدری اور اس کے بعد کم و بیش سوات آپریشن کے متاثرین جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری پرانی عادت ہے ہم ماضی کے تجربات سے کبھی سبق نہیں سیکھتے‘۔ گلالئی نے کہا۔

    جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، اور بہت جلد یہ پھر سے خوشحال اور آباد علاقے بن جائیں گے جہاں شاید پہلے سے جدید سہولیات موجود ہوں، لیکن اس جنگ میں معصوم لوگوں نے جو اپنے پیاروں سے محرومی کے ساتھ ساتھ، اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خراج ادا کیا، اس کے اثرات تا عمر باقی رہیں گے۔

  • امریکا کا آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے 30ملین ڈالر کی امداد کا اعلان

    امریکا کا آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے 30ملین ڈالر کی امداد کا اعلان

    اسلام آباد: امریکا نے فاٹا کی ترقی اور آئی ڈی پیزکی واپسی کیلئے 30ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

    امریکی سارتخانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی امداد سکولوں کی تعمیرنو،تربیت اورزراعت کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی،اس امدادی رقم کو یو این اداروں کے ذریعےمختلف منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔

    امریکی سفارتخانے کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ 2009سے اب تک امریکا فاٹا کی ترقی پر ایک ارب ڈالر خرچ چکا ہے۔

  • ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی

    ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی

    بنوں : پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے آئی ڈی پیز بچوں کے ساتھ بنوں میں عید منائی۔

    نیشنل بھابھی نےننھے ہاتھوں میں مہندی لگائے بچوں کو چارگھنٹے انتظار کرایا اور پھر تاخیرسےآنےپرمعذرت کرلی۔ریحام خان بنوں اسپورٹس کمپلیکس پہنچیں۔

    جہاں انھوں نے شمالی وزیر ستان کی متاثرہ خواتین اور بچوں کے ساتھ عید منائی۔ ان کا کہناتھا کہ وہ ہر خوشی اور غم میں متاثرہ افراد کے ساتھ ہیں۔

    اس سے قبل عمران خان اور ان کی اہلیہ نے بذریعہ ہیلی کاپٹر بنوں پہنچنا تھا لیکن خراب موسم کے باعث عمران خان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔

    ریحام خان بھی بذریعہ روڈ چار گھنٹے کی تاخیر سے آئی ڈی پیز کیمپ پہنچیں جہاں آئی ڈی پیز خواتین نے ان کا استقبال کیا۔ ریحام خان بنوں اسپورٹس کمپلیکس میں عید مناتے بچوں کے ساتھ گھل مل گئیں۔

    انہوں نے بچوں میں تحائف تقسیم کئے اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھایا۔ تقریب سے خطاب میں ریحام خان نے کہا کہ تحریک انصاف اور خیبر پختونخوا حکومت آئی ڈی پیز کے ساتھ ہے۔

  • آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ جاری

    آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ جاری

    پشاور :آئی ڈی پیز کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، متعدد خاندان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے ہیں۔

    جذبہ حب الوطنی سے سرشار دہشتگردی کی جنگ میں صف آرا آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ جاری ہے، نو ہزار ایک سو تہتر خاندان باڑہ خیبر ایجنسی روانہ ہوگئے ہیں، ان خاندانوں کو چھ ہزار آٹھ سو اٹھارہ اے ٹی ایم کارڈز جاری کئےگئے ہیں۔

    چار ہزار سات سو نواسی خاندان جنوبی وزستان اپنے گھروں کو کوچ کرگئے ان خاندانوں کو دو ہزار چار سو انہتر سمز کارڈ اور دو ہزار نو سو اے ٹی ایم کارڈز جاری کر دئیے گئے ہیں۔

    ستر خاندان شمالی وزیرستان چلے گئے جبکہ ان کو باسٹھ اے ٹی ایم کارڈز جاری کئے گئے ہیں، واپس جانے والے ہر خاندان کو فیملی ٹینٹ اور چھ ماہ کا راشن دیا گیا ہے۔

    سرکاری حکام کے مطابق اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے متاثرہ خاندان پچیس ہزار کی رقم نکال سکتے ہیں۔

  • متاثرین جنوبی وزیرستان کی واپسی16مارچ سے شروع ہوگی،حکام

    متاثرین جنوبی وزیرستان کی واپسی16مارچ سے شروع ہوگی،حکام

    بنوں : جنوبی وزیرستان کے آپریشن متاثرین (آئی ڈی پیز)کی واپسی سولہ مارچ سے شرو ع ہوگی جو چار اپریل تک جاری رہے گی ۔

    اے آروائی نیوز نے متاثرین کے واپسی کا شیڈول حاصل کرلیا۔ آپریشن راہ نجات کے متاثرین کی واپسی کیلئے بنوں میں اہم اجلاس ہوا۔

    جس میں متاثرین کی واپسی کیلئے اہم فیصلے کیے گئے۔رزمک، دتہ خیل اور شیوہ میں مقیم متاثرین کے ڈیٹا کے تصدیق کیلئے نادرا موبائل وین بھی بھیجی جائے گی۔

    راہ نجات کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو واپسی پر نقد امداد کیلئے اے ٹی ایم کارڈ ،حفظان صحت کٹ سمیت مفت ٹرانسپورٹ دی جائے گی اور متاثرین کی واپسی کو مقررہ مدت میں یقینی بنایا جائے گا۔

  • لاہور:تھرمتاثرین اورآئی ڈی پیز کی امداد ،پاک فوج کے 11ٹرک روانہ

    لاہور:تھرمتاثرین اورآئی ڈی پیز کی امداد ،پاک فوج کے 11ٹرک روانہ

    لاہور : پاک فوج نے تھر اور شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لئے لاہور سےامدادی سامان کے گیارہ ٹرک روانہ کر دئیے ہیں،تھر میں قحط سے متاثرہ علاقوں اور شمالی وزیرستان میں عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کے لئے پاک فوج کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

    سات ٹرکوں میں اڑسٹھ ٹن سامان تھر کے لئے روانہ کیا گیا۔ اور چارٹرکوں میں نو ٹن سامان شمالی وزیرستان بھجوایا گیا۔ بریگیڈیئر مظہر اقبال کیانی کمانڈر لوجسٹکس لاہور میں قائم کئے گئے پاک فوج کے کیمپوں میں مخیر حضرات اور طالبعلم بھی امداد کے لئے بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہے ہیں۔

     لاہور کے آرمی ریلیف کیمپس سے اب تک ایک سو ستاسی ٹرک سامان ملک کے مختلف متاثرہ علاقوں میں بھجوایا جا چکا ہے۔

  • ہنگو:آئی ڈی پیز کے کیمپ میں دھماکہ سات افراد جاں بحق

    ہنگو:آئی ڈی پیز کے کیمپ میں دھماکہ سات افراد جاں بحق

    ہنگو:ہنگو کے علاقے محمد خواجہ کے توغ سرائی آئی ڈٰی پیز کیمپ میں دھماکے سے سات افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں، تفصیلات کے مطابق ہنگو کے علاقے توغ سرائی آئی ڈٰی پیز کیمپ میں زوردار دھماکہ سے سات افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

    زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ،سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، ذرائع کے مطابق بارودی مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا،جبکہ پولیس نے اس کی اب تک تصدیق نہیں کی ہے، ہلاک شدگان میں دو بچے بھی شامل ہیں۔

  • آئی ڈی پیز میں12ہزارٹن راشن تقسیم ہوگیا ہے، میجر جنرل اختر راؤ

    آئی ڈی پیز میں12ہزارٹن راشن تقسیم ہوگیا ہے، میجر جنرل اختر راؤ

    بنوں : پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اختر راؤ نے کہا ہے کہ اب تک ساڑھے نو لاکھ آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن ہو چکی ہے، جس میں سے چھ لاکھ کی تصدیق ہو چکی ہے۔

    بنوں میں میڈیا بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کام کر کے آئی ڈی پیز کو باہر نکالا، انہوں نے بتایا کہ ساڑھے نو لاکھ آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن جبکہ چھ لاکھ کی تصدیق ہو چکی ہے۔

    میجر جنرل اختر راؤ کا کہنا تھا کہ اب تک آئی ڈی پیز میں بارہ ہزار ٹن راشن تقسیم ہو گیا ہے، پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی امداد کے حوالے سے بیرونی این جی اووز کو ویلکم کرینگے اور انہیں ہر طرح کی سہولیات دینگے۔

    مییجر جنرل اختر راؤ نے بتایا کہ آئی ڈی پیز کے حوالے سے ہم نے اپنے منصوبے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔

  • فاٹا ڈیزائسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے آئی ڈی پیز کے نئے اعداد وشمار جاری

    فاٹا ڈیزائسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے آئی ڈی پیز کے نئے اعداد وشمار جاری

    فاٹا: ڈیزائسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی نےآئی ڈی پیز کے نئے اعداد وشمار جاری کردیئے، شمالی وزیرستان سے انچاس ہزار آٹھ سو ستاون خاندانوں نے نقل مکانی کی۔

    فاٹا ڈیزائسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے نادرا سے تصدیق کے بعد آئی ڈی پیز کے نئے اعداد وشمار جاری کردیئے، ایف ڈی ایم اے کے ڈی جی عابد مجید نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ شمالی وزیرستان سے پانچ لاکھ پینتالیس ہزار چھیاسٹھ افراد نے نقل مکانی کی ہے، نقل مکانی کرنے والوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار سات سو اٹھارہ مرد، ایک لاکھ چھپن ہزارتیس خواتین اور دولاکھ اٹھائس ہزار تین سو اٹھارہ بچے شامل ہیں۔

    عابد مجید کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئی ڈی پیز کے لیے دو ہزارملین روپے دئیے ہیں، شمالی وزیرستان سے بے گھر افراد میں 75کروڑ 90لاکھ روپے تقسیم کیے گئے ہیں جبکہ مزید ایک ارب روپے جاری کردئیے گئے ہیں، متاثرین میں رمضان المبارک کا پیکج تقسیم کر دیا گیا۔

    تقریباً تمام خاندانوں کو 52 ہزار روپے کا رمضان پیکج فراہم کیا گیا ہے، البتہ جو خاندان ابھی تک اس امداد سے محروم ہیں، انہیں عید الفطر سے قبل ہی ادا کردیا جائیگا۔

  • یوسف رضا گیلانی کی شمالی وزیرستان متاثرین سے ملاقات

    یوسف رضا گیلانی کی شمالی وزیرستان متاثرین سے ملاقات

     سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین سے ملاقات کے لیے بنوں پہنچ گئے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی, خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ سمیت دیگر پارٹی رہنما ؤں نے شمالی وزیرستان کے متاثرین سے ملاقات کی ۔پارٹی رہنماؤں نے آئی ڈی پیز کے مسائل دریافت کیےاور متاثرین میں راشن بھی تقسیم کیا۔

    اس موقع ہر یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ وفاق اورصوبائی حکومت ملکرکام کررہے ہیں،ان کا مزید کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنیوالوں کی جتنی مدد کی جائے کم ہے