Tag: آبادی کا عالمی دن

  • عالمی یوم آبادی: آبادی کا عفریت زمین کو ہڑپ کر جانے کے لیے تیار

    عالمی یوم آبادی: آبادی کا عفریت زمین کو ہڑپ کر جانے کے لیے تیار

    آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7 ارب 53 کروڑ ہے جبکہ سنہ 2100 تک یہ 11 ارب 20 کروڑ ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔

    آبادی کے حوالے سے حقائق

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا کی آبادی میں سوا 8 کروڑ افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    سنہ 2030 تک آبادی میں مزید ایک ارب کا اضافہ متوقع ہے۔

    اس صدی کے اختتام یعنی سنہ 2100 تک دنیا کی آبادی 11 ارب 20 کروڑ ہوجائے گی۔

    سنہ 2050 تک دنیا بھر کی آبادی کا 50 فیصد ان 9 ممالک میں ہوگا: امریکا، انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، نائجیریا، کانگو، ایتھوپیا، تنزانیہ، یوگنڈا۔

    فی الوقت چین کی آبادی 1 ارب 38 کروڑ ہے جبکہ بھارت کی آبادی 1 ارب 33 کروڑ ہے تاہم اگلے برس تک بھارت اس ضمن میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

    اس وقت پیدائش کی شرح سب سے کم یورپ جبکہ سب سے زیادہ افریقہ میں ہے۔

    سنہ 2050 تک افریقی ملک نائیجریا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔

    پاکستان میں اس وقت 21 کروڑ آبادی موجود ہے جو سنہ 2030 تک بڑھ کر ساڑھے 24 کروڑ ہوجائے گی۔

  • کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کراچی: ممتاز مصنف، کالم و نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، قاری اپنےرائٹر سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لکھے۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز کئی ادبی محافل کا انعقاد کیا گیا، چھٹے اجلاس میں ممتاز مصنف، کالم نگار ، ڈرامہ اور نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑھ گئی، پہلے پڑھنے والا لکھنے والے کے پیچھے ہوتا تھا مگر آج قاری  لکھنے والے سے آگے آگے ہوتا ہے، اس لیے وہ مصنف سے بین الاقوامی طرز پر لکھنے کی توقع بھی رکھتا ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ میری کتابوں کی فروخت زیادہ کیوں نہیں ہوتی؟ میرا جواب یہی ہے کہ میں اچھا لکھتا ہوں، پہلے رائٹرز کا ایک ایڈیشن شائع ہوتا تھا اور سال سال بھر پڑا رہتا تھا مگر اس میں مصنف کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ کتاب کے تقسیم کار  کی غلطی تھی کیو نکہ وہ کتاب کی درست طریقے سے تقسیم نہیں کرتے تھے، اگر ڈسٹری بیوٹر درست انداز سے کتاب کی تقسیم کرے تو بیس ہزار سے زائد کتابیں فروخت ہوسکتی ہیں۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ‘میری کتاب ”پیار کا پہلا شہر“کے اب تک 76ایڈیشن شائع ہوچکے، اگر میں لکھاری نہیں ہوتا تو  تو صرف ایک قاری ہی ہوتا کیونکہ میں کتاب کے بغیر نہیں رہ سکتا‘۔

    مزید پڑھیں: عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’میں اکثر ادبی تقاریب میں خود جاتا ہوں جبکہ زیادہ پرگراموں میں مجھے مدعو بھی کیا جاتا ہے، پہلے تو دعوت نامہ دینے والوں سے میں خود ہی معذرت کرلیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ میں 80 سال کا ہورہا ہوں اس لیے مجھے زیادہ نہ بلایا کریں، یہ بات سن کر وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں آئندہ سال کس نے دیکھا ہے ہم ہوں یا نہ ہوں لہٰذا آپ تقریب میں شرکت ضرور کریں، میں ان کے اصرار پر سمجھ جاتا ہوں کہ وہ یہ بات خود کے لیے نہیں بلکہ مجھے ہی مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ پانی، پرندے اور موت یہ تینوں موضوع میرے ناولوں کے لازمی جز ہیں کیونکہ میں موت کے بہت قریب سے کئی بار گزر چکا ہوں۔

    اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ایک بار مجھے حالات غنودگی میں اسپتال لے جایا جارہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سامنے میری والدہ دوپٹہ اوڑھے کھڑی مجھے دیکھ رہی ہیں، میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنے آئی ہوں تب مجھے تسلی ہوئی کہ میری زندگی ابھی باقی ہے کیونکہ اگر یہ میری زندگی کا آخری سفر ہوتا تو میری ماں مجھ سے کہتی کہ میں تجھے لینے آئی ہوں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ نے مزید بتایا کہ میں برطانیہ سے روس اُس دور میں پہنچا جب وہاں غیر ملکیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر انقلابِ روس کے بعد مقامیوں نے مہمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میری تصانیف کے کئی حصے اور تحریریں ماسکو کے مختلف کالجوں کے نصاب میں شامل ہیں اور طالب علم ان سے استفادہ بھی کررہے ہیں‘۔

    ’ماسکو میں پاکستان دو باتوں کی وجہ سے مشہور ہے ایک فیض کی شاعری اور دوسری میری نثر نگاری‘۔

    اس موقع پر بھارت سے آئے ہوئے ممتاز دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ جن لوگوں سے میرا 45سال پرانا ساتھ ہے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، میں نے جب مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں ”نکلی تیری تلاش میں“ اور ”فاختہ“ پڑھیں تو میں ان کا کا دیوانہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو آسمان سے زیادہ زمین سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’تارڑ صاحب کا ناول ”بہاﺅ“ بھارت میں بھی بہت مشہور ہے‘۔

    انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی نجات کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان دوست ہو، نہ جانے انسان نے نفرت کرنے کے لئے اتنے سارے راستے کیسے تلاش کرلیے، روس نے انقلاب کے بعد بڑا ادب تو پیدا نہیں کیا مگر وہاں پر قارئین کی خاصی بڑی تعداد ضرور پیدا ہوئی، ماسکو اور روس کے قارئین ادیبوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر ضیاءالحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ کسی بھی تخلیق کار کی گفتگو کو ہم اس کے کام کے حوالے سے پرکھتے ہیں مگر قاری اس کو تخلیقی عمل سے باہر رہتے ہوئے دیکھتا ہے، ادب میں تارڑ صاحب کا مقام بہت بڑا ہے انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ناول نگاری میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے۔

    اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”منطق الطیر“ کا اجراء بھی کیاگیا۔  اجلاس میں معروف نقاد و ادیب شمیم حنفی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی جبکہ اقبال خورشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔        

  • عالمی یوم آبادی: خاندانی منصوبہ بندی قومی ترقی کے لیے ضروری

    عالمی یوم آبادی: خاندانی منصوبہ بندی قومی ترقی کے لیے ضروری

    آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

    رواں برس یہ دن ’خاندانی منصوبہ بندی ۔ لوگوں کی خود مختاری، قوموں کی ترقی‘ کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے محفوظ ذرائع تک رسائی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔

    یہ خواتین کی خود مختاری اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے بھی ضروری ہے جو آگے چل کر غربت اور جہالت ختم کرنے اور کسی ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

    آبادی کے حوالے سے حقائق

    اس وقت دنیا بھر کی آبادی 7.6 ارب ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا کی آبادی میں سوا 8 کروڑ افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    سنہ 2030 تک آبادی میں مزید ایک ارب اضافہ متوقع ہے۔

    اس صدی کے اختتام یعنی سنہ 2100 تک دنیا کی آبادی 11.2 ارب ہوجائے گی۔

    سنہ 2050 تک دنیا بھر کی آبادی کا 50 فیصد ان 9 ممالک میں ہوگا۔

    امریکا، انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، نائجیریا، کانگو، ایتھوپیا، تنزانیہ، یوگنڈا۔

    فی الوقت چین کی آبادی 1.38 ارب ہے جبکہ بھارت کی آبادی 1.31 ارب ہے تاہم اگلے برس بھارت اس ضمن میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

    اس وقت پیدائش کی شرح سب سے کم یورپ جبکہ سب سے زیادہ افریقہ میں ہے۔

    سنہ 2050 تک افریقی ملک نائیجریا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔

    پاکستان میں اس وقت 19 کروڑ 17 لاکھ سے زائد آبادی موجود ہے جو سنہ 2030 تک بڑھ کر ساڑھے 24 کروڑ ہوجائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7.4 بلین ہے جبکہ 2100 تک یہ 11.2 بلین ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔

    pd-3

    بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔

    رواں برس یہ دن ’کم عمر لڑکیوں کا خیال رکھنے‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادی دنیا میں آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    pd-4

    رواں برس کی تھیم خواتین کے حوالے سے 2 مقاصد پر مشتمل ہے، ایک کم عمری کی شادی۔ دوسرا خواتین کی آبادی میں اضافہ اور ان کی صحت و تعلیم سے متعلق خطرناک مسائل جو دنیا کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    یو این ایف پی اے کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باباتندے کے مطابق خواتین کی کم عمری کی شادی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور خود مختار کیا جائے۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کے باعث انہیں اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ڈاکٹر باباتندے کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی حق انہیں دلائے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور اپنے خطرات سے آگاہی ہو‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’لڑکیوں کی خود مختاری آج کے دور میں اتنی ہی اہم ہے جتنا مردوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور کسی کے لیے بوجھ نہ بننا‘۔

     

    یونیسکو کے پروگرام ’ایجوکیشن فار آل‘ کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کہتی ہیں، ’میں دنیا کی ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا‘۔

    ملالہ یوسفزئی سوات کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں انہیں طالبان کے حملہ کا نشانہ بننا پڑا۔ اب وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’اگر ہم دنیا کی آدھی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘۔ وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہیں، ’بے شک تم ایک لڑکی ہو، اور دنیا سوچتی ہے کہ تم کوئی کام نہیں کر سکتیں، تب بھی تم امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘۔