Tag: آبی آلودگی

  • ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    “جب ہماری کشتیاں ساحل پر کھڑی رہتی ہیں، تو ہمارے چولھے بجھ جاتے ہیں۔” لطیفہ ناصر کہتی ہیں۔ “میرے بچے ایک مہینے سے اسکول نہیں گئے، اور ہم اب قرضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔”

    لطیفہ ناصر اورمارہ کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں ( اور ماہی گیر برادری سے تعلق کی بنا پر مستفید ہونے والوں میں بھی شامل ہیں) یہ سوسائٹی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ لطیفہ ناصر کا خاندان بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر اورمارہ میں رہتا ہے۔ ان کے شوہر ماہی گیر ہیں، اور علاقے کے بیشتر ماہی گیروں کی طرح ان کا بھی روزگار ایران ،اسرائیل جنگ کے باعث بحران کا شکار ہے۔

    جنوب مغربی پاکستان میں مچھلی اور ایندھن کی ایک اہم تجارت ایران کے ساتھ بند سرحدوں کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

    ایران، اسرائیل تنازع کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، جس سے ایندھن کی فراہمی اور مچھلی کی برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ یہ دہرا جھٹکا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی اور حد سے زیادہ شکار سے متاثر ماہی گیر برادریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

    بحیرۂ عرب کے کنارے، بلوچستان کا 770 کلومیٹر طویل ساحل ملکی ماہی گیری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    بلوچستان فشریز اور کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار علاﺅالدین ککر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ” صوبے کے ماہی گیر ہر سال تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار ٹن مچھلی پکڑتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 19.9 ارب روپے (70.1 ملین ڈالر) ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بہت سی قیمتی انواع جیسے ٹونا، اسپینش میکریل، کراکر، انڈین آئل سارڈین اور انڈین میکریل شامل ہیں۔ بلوچستان میں 16,000 رجسٹرڈ اور 6,000 غیر رجسٹرڈ کشتیاں مچھلی کے شکار میں مصروف ہیں، جو ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش ہیں۔“

    علاﺅالدین ککر کے مطابق ”اس گراں قدر معاشی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ بدانتظامی، فنڈنگ کی کمی اور بیرونی جھٹکوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ “

    گوادر چیمبر آف کامرس کے چیئرمین شمس الحق کلمتی کے مطابق ”ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی جنگ سے اس شعبے کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے ماہی گیر اپنی کشتیاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سے چلاتے تھے جو غیر قانونی طور پر مگر آسانی سے دستیاب تھا۔ اب سرحدوں کی بندش کے باعث یہ سپلائی چین منہدم ہو گئی ہے۔ اب یہ ایرانی ایندھن یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر خاصا مہنگا ہوچکا ہے مثلا فی لیٹر ایندھن کی قیمت 150 (USD 0.53) روپے سے بڑھ کر 180-200 (USD 0.63-0.70) روپے ہو چکی ہے۔“

    مقامی ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں ایرانی ایندھن کی روزانہ درآمد 6 لاکھ بیرل سے گھٹ کر 1 لاکھ 40 ہزار بیرل رہ گئی ہے۔ سرحد بند ہونے سے پہلے گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں 300 سے زائد بڑے آئل ڈپو، 1000 پمپس اور 2000 دکانیں تقریباً مکمل طور پر ایرانی ایندھن فروخت کرتی تھیں، جبکہ پاکستانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس صرف دو تھے۔

    تاہم گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمن کہتے ہیں کہ “صور ت حال اب معمول پر آ چکی ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔”

    ماہی گیری صنعت پر اثرات

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سمندری امور کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے “یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ ماحولیاتی بھی ہے۔”

    ان کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اچانک ٹونا جیسی بڑی مچھلیوں کے شکار کا رک جانا سمندری ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

    معظم خان کے مطابق موجودہ جغرافیائی کشیدگی نے پاکستان کی ساحلی اور گہرے سمندر کی ماہی گیری کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر ٹونا مچھلی کی انواع کو، ہر سال پاکستانی ماہی گیر تقریباً 50 سے 60 ٹن ٹونا اور اس جیسی مچھلیاں پکڑتے ہیں، جن کی زیادہ تر مقدار براہِ راست ایران کو فروخت کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ برآمد غیر قانونی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایندھن کی اسمگلنگ جو اس کے برعکس سمت میں ہوتی ہے، لیکن سرحد پار ان مچھلیوں کے اچھے دام ملتے ہیں۔

    معظم خان کے مطابق بلوچستان کی ٹونا مچھلی عموماً بین الاقوامی منڈیوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی، اس لیے ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسے اچھے داموں خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایران میں ٹونا کی فی کلو قیمت 300 سے 700 روپے (1.06 سے 2.47 امریکی ڈالر) تک ہے، اور اس برآمدی تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 1.5 کروڑ سے 3.5 کروڑ روپے (52,900 سے 123,300 امریکی ڈالر) کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    معظم خان کہتے ہیں: ”اگر ایرانی مارکیٹ تک رسائی نہ رہی تو پورا ٹونا فشریز سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، جو ان متاثرہ برادریوں کی آمدنی اور روزگار دونوں کے لیے خطرہ بن جائے گا۔“

    طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سی ای او ہیں، جو صوبے کے دیہی غریب اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ معظم صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”بلوچستان سے زیادہ تر ٹونا اور دیگر تجارتی مچھلیاں ایران کو بارٹر سسٹم کے تحت بھیجی جاتی ہیں، جہاں ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلی، بشمول ٹونا، کے بدلے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔“

    یہ بارٹر تجارت عام طور پر ایرانی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یہ کشتیاں پاکستانی ماہی گیروں سے مچھلی لینے کے لیے دونوں ممالک کی سمندری سرحد کے قریب اور بلوچستان کے مختلف مقامات جیسے گوادر اور جیوانی تک جاتی ہیں۔

    غریب ماہی گیر، اب غریب تر!

    ٹونا مچھلی کی فروخت کے علاوہ، اس خطے میں پکڑی جانے والی کچھ مچھلیوں کے مختلف حصے (سوئم بلیڈرز) مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں میں قیمتی خوراک سمجھے جاتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین اور سمندر دونوں کے ذریعے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً ہزاروں کلوگرام قیمتی تازہ مچھلی فروخت نہیں ہو پا رہی۔

    گوادر کے ماہی گیر نا خدا داد کریم کے مطابق، مقامی منڈی اتنی مضبوط نہیں کہ اضافی مال خرید سکے اور خاص طور پر دور دراز ساحلی قصبوں میں کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں بھی نہایت محدود ہیں۔

    مچھلی کو برآمد کے لیے محفوظ کرنے کے طریقوں جیسے کیننگ یا فریزنگ کی کمی یا کہیں کہیں عدم موجودگی کے باعث یہ بحران بلوچستان کی معیشت کے مختلف شعبوں تک پھیل رہا ہے۔

    کلمتی کا کہنا ہے ”باقاعدہ تجارتی راستوں اور مچھلی محفوظ کرنے کے مناسب انتظامات کے بغیر پوری سپلائی چین تباہ ہو رہی ہے۔ برف بنانے والی فیکٹریاں، مچھلی لے جانے والے، پروسیسنگ فیکٹریوں کے مالکان اور کشتیوں کے مکینک ، سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ماہی گیری کا بحران نہیں بلکہ ایک مکمل اقتصادی ایمرجنسی ہے۔”

    اس تمام صورت حال نے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی کی قیمتیں مزید گرا دی ہیں۔

    کریم کہتے ہیں ”میں چالیس سال سے سمندر میں جا رہا ہوں، لیکن کبھی اتنے خراب حالات نہیں دیکھے۔ پہلے ہم ایک سفر پر تقریباً 15,000 روپے (53 ڈالر) خرچ کرتے تھے اور اتنی مچھلی پکڑ لاتے کہ تھوڑا بہت منافع ہو جاتا۔ اب تو صرف ایندھن کا خرچ 30,000 روپے (106 ڈالر) سے تجاوز کر گیا ہے، اور ہم اب اپنی پکڑی ہوئی مچھلی بھی اچھی قیمت پر نہیں بیچ سکتے۔ ہر سمندری سفر میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہوں۔”

    ناخداداد کریم جیسے بہت سے ماہی گیر اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، جو ان ہی کی کشتی پر ان کے ساتھ ماہی گیری میں ہاتھ بٹاتا تھا، اب تعمیراتی کام میں مزدوری کا سوچ رہا ہے کیونکہ وہاں مواقع نسبتاً بہتر ہیں۔

    جمایت جانگیر بلوچ گوادر کے ایک ماہی گیر اور ”مول ہولڈر“ ہیں، یعنی وہ سرکاری طور پر تصدیق شدہ مچھلی کے تاجر ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”ہم میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں جانا چھوڑ دیا ہے، نقصان اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہم اسپینش میکریل، باراکوڈا، بڑی کراکر مچھلیاں اور ٹونا ایرانی خریداروں کو بیچتے تھے۔ وہ ہمیں نقد اچھے دام دیتے تھے۔ اب کوئی خریدنے والا ہی نہیں، اور مقامی تاجر بھی آدھی قیمت لگا رہے ہیں۔“

    خشکی پر خواتین کے دکھ!

    اگرچہ سمندر میں جا کر مچھلی پکڑنے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں، لیکن اس بحران سے خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

    گوادر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بلوچ کہتی ہیں”یہاں خواتین مچھلی نہیں پکڑتیں، لیکن ہم مچھلیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں، انہیں سکھا کر بیچتے ہیں۔ اب جب کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے تو ہماری مزدوری بھی ختم ہو گئی ہے۔“

    ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مچھلی کی برآمدی منڈی کے ختم ہو جانے سے بہت سی کشتیاں سمندر میں جانا بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی برادریاں سستی مچھلی سے بھی محروم ہو گئی ہیں جس پر ان کا روزگار اور خوراک دونوں کا انحصار تھا۔

    پاکستان فشر فوک فورم کے طالب کچھی، جو ماہی گیر برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن ہیں، ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ یہ برادریاں صرف پیسے ہی نہیں بلکہ اپنی خوراک کا ذریعہ بھی کھو رہی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”جو خواتین آزادانہ طور پر مچھلی فروخت کرکے کچھ پیسے کماتیں اور اپنے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کرلیتی تھیں ، وہ اب پریشان ہیں ، اب وہ سستی ترین مچھلیاں جیسے سارڈین اور انڈین میکریل خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوراک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔”

    فشر فوک کوآپریٹو سوسائٹی گوادر کے جنرل سیکریٹری سمیع گل کا کہنا ہے،”مچھلی پروسیسنگ کرنے والی خواتین کی اجرتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، اور چھوٹے دکان داروں کو فروخت کے لیے سستی مچھلی نہیں مل رہی۔“

    وہ مزید کہتے ہیں ”غریب لوگ مرغی یا گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا اگر یہی صورت حال جاری رہی تو یہ ایک سنگین غذائی قلت اور غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔“

    گوادر چیمبر آف کامرس کے کلمتی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری مداخلت کریں، ماہی گیروں کے لیے ایندھن پر زر تلافی کا اعلان کریں اور سرحد کو کھول کر باقاعدہ ضابطے کے تحت تجارت بحال کریں۔

    سرکاری عہدیدار علاﺅالدین ککر بھی اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے 38 کروڑ روپے (1.34 ملین امریکی ڈالر) کے اعانتی فنڈ کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد ماہی گیری شعبے میں ایمرجنسی بنیادوں پر مہنگے ایندھن کے لیے زر تلافی، فلاحی اسکیمیں اور متاثرہ ماہی گیروں کے لیے معاوضے کی ادائیگی ہے۔

    بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے طاہر رشید کہتے ہیں کہ اگر صوبے میں کولڈ اسٹوریج، کیننگ اور دیگر جدید بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو ماہی گیری کی صنعت کو ایک منافع بخش برآمدی شعبے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے بارٹر سسٹم پر انحصار کم ہوگا اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں ”ہمیں فوری طور پر اقدام کرنا ہوگا۔“

    بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت، جو کبھی ساحلی معیشت کا ستون تھی، اب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات صوبے کی سرحدوں سے کہیں آگے تک محسوس ہوں گے۔

    (شبینہ فراز اور عبدالرحیم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • زمین، انسان اور موت کی کہانی

    زمین، انسان اور موت کی کہانی

    تحریر: سید امجد حسین بخاری

    کرونا سے متعلق عام رائے یہی ہے کہ یہ وائرس انسانیت کی موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے، لیکن غور کریں تو معلوم گا کہ تین ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تک پہنچی ہے۔

    اگر اس تعداد کو دو لاکھ بھی فرض کرلیں تو ماہانہ 67 ہزار جانیں ضایع ہوئیں اور اگر وبا کی شدت برقرار رہتی ہے تو ایک سال کے دوران کم از کم 8 لاکھ افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن جب ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کی بات کریں تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 70 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ عالمی معیشت کو سالانہ 50 کھرب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف آبی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث سالانہ 14 لاکھ انسانی جانیں ضایع ہورہی ہیں۔

    کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے تو کوششیں جاری ہیں، لیکن دنیا بھر میں انسانی جانوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ بننے والی اس "وبا” کو کنٹرول کرنے کے لیے کب کوششیں کی جائیں گی؟

    کرونا وائرس سے پہلے ہی انسان ایسی بیماریوں کا شکار ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح ماحولیاتی آلودگی سے ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو اگلے تیس برسوں میں یعنی 2050 تک اموات کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوگی۔

    زمین کے تحفظ کے لیے دنیا نے 1970 میں کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو ماحول کی تباہی سے روکا جائے اور اسی وقت دنیا نے زمین کا عالمی دن منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب ان کوششوں کو پچاس برس مکمل ہوچکے ہیں۔

    اس عرصے میں اگر ماحول کے تحفظ کی انسانی کوششوں کو دیکھا جائے تو مایوسی ہو گی۔ ترقی کے نام پر دنیا بھر میں زمین کو برباد کیا جارہا ہے۔ ترقی کا خواہش مند انسان زمین کے وسائل کا بے دریغ اور بے رحمی سے استعمال کررہا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہوا میں اڑنے کی خواہش رکھنے والا خود ہی اپنے پَر بھی کاٹ رہا ہے۔

    انسان زمین کے تحفظ کا دعوے دار ہے، وہ خود کو دھرتی کا رکھوالا سمجھتا ہے۔ زمین کے رکھوالے ہی نتائج کی پروا کیے بغیر سمندروں، میدانوں، اور فضا کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سہولت اور زیادہ منافع کی تلاش میں ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ انسانوں کو زمین پر زندہ رہنے کے لیے تازہ غذا اور ایک صحت افزا ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

    انسان نے ترقی کے لیے صنعتیں لگائیں اور عالمی حدت میں اضافے کا سبب بنا، جس کے نتیجے میں دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حضرتِ انسان نے اپنی ترقی کے لیے جنگلات کو بھی نہیں بخشا اور پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں صرف 4 فی صد رقبے پر جنگلات رہ گئے ہیں۔ اسی طرح رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے سوچے سمجھے بغیر تعمیرات کے باعث زرعی زمین بھی کم ہوگئی ہے۔

    دنیا ایک بار پھر زمین کا عالمی دن منارہی ہے، یہ دن اس دھرتی سے عہدِ وفا نبھانے کا ہے۔ اس دھرتی سے جس کی چھاتی پر انسان کوئلہ سلگا کر خود بھی جل رہا ہے اور اسے بھی تکلیف دے رہا ہے۔ جس کی مٹی میں انسان بیج بوتا ہے اور اس زمین کی کوکھ سے پودے اگتے ہیں، یہ پودے انسان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔

    آئیے آج عہد کریں کہ ہم اس کرہ ارض کی مرمت کریں گے، اس کے گرد موجود اوزون کی حفاظتی تہ کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ اپنی زمین سے وعدہ کریں کہ اس کے سینے پر اب آگ نہیں جلنے دیں گے بلکہ یہاں پھول کھلائیں گے۔ دھوئیں کے بجائے یہاں پھول مہکیں گے۔ اس لاک ڈاؤن کو زمین کی مرمت کا ذریعہ بنائیں، اسے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ جان لیں کہ اگر آج ہم نے اپنی دھرتی کو محفوظ نہ بنایا تو ہماری نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا۔

  • آبی آلودگی سے عوام کی صحت اور معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، وزیراعظم

    آبی آلودگی سے عوام کی صحت اور معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، وزیراعظم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ آبی آلودگی سے عوام کی صحت اور معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں دریاؤں اور نہروں میں آبی آلودگی کی روک تھام کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو ورلڈ بینک کی رپورٹ پیش کی گئی۔

    اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 40 فیصد اموات پانی کی آلودگی کی وجہ سے ہو رہی ہیں، آلودگی سے آبی حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

    وزیراعظم کو خیبرپختونخوا اور پنجاب کے چیف سیکرٹریز نے بھی بریفنگ دی، سیوریج سے پھیلنے والی آبی آلودگی کی روک تھام کے لیے تجاویز سے آگاہ کیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے 36 منصوبے زیر غور ہیں،ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی معاونت حاصل ہے۔

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آبی آلودگی ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے، عوام کی صحت اور معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، اہم نوعیت کےمسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    وزیراعظم نے آبی آلودگی کی روک تھام کے لیے صوبوں سے مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مشیر ماحولیات صوبوں سے مل کر جامع حکمت عملی بنائیں، ٹائم لائنز پر مبنی روڈ میپ آئندہ 15 دنوں میں مرتب کیا جائے۔

  • کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں، سیکڑوں مچھلیاں مر گئیں

    کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں، سیکڑوں مچھلیاں مر گئیں

    کراچی: شہر قائد کے ساحل پر سینکڑوں مچھلیاں آبی آلودگی کے باعث مر گئیں، مردہ مچھلیوں سمیت متعدد آبی حیات ساحل سمندر پر بکھری پڑی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں ہے، سیکڑوں مردہ مچھلیاں ساحل پر آ گئیں، مردہ مچھلیوں سمیت متعدد آبی حیات سمندر کنارے موجود ہیں۔

    مختلف اقسام کی مردہ مچھلیوں کے علاوہ کیکڑے اور آبی نباتات بھی ساحل پر بہہ کر آ گئی ہیں۔

    گندگی کی بنا پر ساحل پر شدید تعفن پھیل گیا ہے، شہری گندے ساحل پر ہی پکنک منانے پر مجبور ہیں، دوسری طرف مردہ مچھلیاں کھانے کے لیے ساحل پر پرندوں کی بھی بہتات ہو گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بارش کے بعد آبی حیات متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بارشوں کے بعد بھی آبی حیات بری طرح متاثر ہو گئی تھی اور کلفٹن کے ساحل پر سینکڑوں مردہ مچھلیاں آ گئی تھیں۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف معظم علی خان کا کہنا تھا کہ بارش کے بعد آبی حیات کا متاثر ہونا انوکھی بات نہیں ہے، بارشوں میں ندی نالوں کا گندا پانی بڑی مقدار میں سمندر میں گرتا ہے۔

    گندا پانی اپنے ساتھ نامیاتی اورگینک پانی ساتھ لے کر جاتا ہے، جس کے باعث وہاں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، جس کے سبب سمندری حیات متاثر ہوتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ کلفٹن کے ساحل پر مردہ آنے والی مچھلیاں بوئی کہلاتی ہیں، جو عموماً کنارے کے قریب پائی جاتی ہیں، کنارے کے قریب رہنے کی وجہ سے مچھلی کی یہ قسم زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    اچھا لباس اور اچھے جوتے پہننا خوش ذوقی کی علامت ہے اور شخصیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم آپ کی یہ خوش لباسی ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک کھرب کپڑے اور 20 ارب جوتے بنا رہے ہیں۔ یہ تعداد 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے کپڑوں اور جوتوں کی تعداد سے 5 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آج کا فیشن سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز کا مرہون منت ہے جو ہر روز بدلتا ہے۔ اس ٹرینڈ کو اپنانے کے لیے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں، تاہم اس خریداری کو پہنتے کم ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ایک خاتون کسی لباس کو پھینکنے سے پہلے 7 بار استعمال کرتی ہیں۔

    فیشن کے بدلتے انداز اور ہمارا کپڑوں کو استعمال کرنے کا انداز ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آج جس طرح سے ملبوسات کی صنعتیں دن رات کام کر رہی ہیں وہ ہماری زمین کے کاربن اخراج میں 10 فیصد کی حصہ دار ہیں۔

    اسی طرح آبی آلودگی کا 17 سے 20 فیصد حصہ کپڑا رنگنے اور دیگر ٹیکسٹائل شعبوں سے آتا ہے۔

    کپاس کی فصل ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم ستون ہے اور اس وقت ازبکستان دنیا میں کپاس کی پیدوارا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چونکہ کپاس کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہے لہٰذا کپاس کی بے تحاشہ فصلوں نے ملک کی ایک بڑی جھیل ارل جھیل کو صرف 2 دہائیوں میں خشک کردیا ہے۔

    ارل جھیل

    ارل جھیل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی اور اب یہ تاحد نگاہ مٹی اور ریت سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود میٹھے پانی کا 2.6 فیصد حصہ صرف کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے ماحول پر ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آپ بھی کوشش کرسکتے ہیں۔

    وہ کپڑے جو آپ مزید پہننا نہیں چاہتے، پھینکنے کے بجائے اپنے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان سے ان کے استعمال شدہ کپڑے لے لیں۔

    معمولی خراب کپڑوں اور جوتوں کی مرمت کر کے انہیں پھر سے استعمال کے قابل بنائیں۔

    اس وقت کچھ برانڈز ماحول دوست ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی تیاری میں ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائیں، انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیں۔

    معیاری اور مہنگے ملبوسات اور جوتے خریدیں جو زیادہ تر عرصے تک چل سکیں۔

  • ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    نئی دہلی: بھارت میں مقدس اور اہم مذہبی حیثیت رکھنے والا دریائے گنگا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارتی حکومت دریا کے بچاؤ اور تحفظ کی کوششیں کر رہی ہیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں۔

    دریائے سندھ کی طرح ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے نکلنے والا دریائے گنگا اپنے سفر کے آغاز میں نہایت شفاف اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔

    پہاڑوں اور صاف ستھرے شمالی علاقوں سے بہتا ہوا یہ پانی آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے۔

    لیکن جیسے جیسے یہ نیچے شہروں کی طرف آتا جاتا ہے اس میں گندگی کی سطح بڑھتی جاتی ہے۔

    دریائے گنگا نہ صرف 40 کروڑ افراد کو پینے کا پانی مہیا کرتا ہے، بلکہ یہ زراعت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

    ہندو عقیدے کے مطابق دریائے گنگا کا پانی گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز صبح کے وقت لاکھوں افراد گنگا میں اشنان (غسل) کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تاہم اس مذہبی عقیدے کی عملداری سمیت بے شمار عوامل دریائے گنگا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ہر دریا کی طرح دریائے گنگا میں بھی شہروں کا کوڑا کرکٹ، کچرا اور زہریلا صنعتی فضلہ شامل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گنگا میں سیوریج کا روزانہ تقریباً 4 ہزار 8 سو ملین لیٹر پانی گرتا ہے۔

    بعض مقامات پر سیوریج کے پانی کی آمیزش کی وجہ سے گنگا کی سطح پر گیس کے بلبلے نظر آتے ہیں اور آس پاس کے علاقے میں شدید تغفن پھیلا ہوا ہے۔

    ہمالیہ کی چوٹیوں سے شروع ہونے والا گنگا کا سفر ڈھائی ہزار کلومیٹر کی مسافت پر محیط ہے اور یہ شمالی بھارت میں سمندر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    بھارتی ہندوؤں کے لیےماں کی حیثیت رکھنے والا گنگا اپنے سفر کے دوران جب صنعتی شہر کانپور سے گزرتا ہے تو وہاں زہریلا ترین صنعتی فضلہ شامل ہونے سے دریا کے پانی کا رنگ تبدیل ہو کر گہرا بھورا ہو جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس سفر میں ایک علاقہ ایسا بھی آتا ہے جہاں آلودگی اور الائشوں سے گنگا کے پانی کا رنگ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔

    مودی حکومت نے گنگا ماں کی صفائی کے لیے 3 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جس کے بعد گنگا کو صاف کرنے کے لیے ٹریٹ منٹ پلانٹس لگائے جارہے ہیں تاہم ان پر نہایت سست رفتاری سے کام کیا جارہا ہے۔

    فی الوقت جو ٹریٹ منٹ پلانٹس فعال ہیں وہ گنگا کا صرف 1 چوتھائی پانی صاف کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس دریا کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات نہ کیے گئے تو ہندوؤں کا مقدس دریا بہت جلد مر جائے گا اور اس کا ذکر صرف کتابوں میں ملے گا۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    سمندروں کی آلودگی کا مسئلہ نیا نہیں اور اب یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندروں میں پانی سے زیادہ کچرا اور پلاسٹک بھرا ہوا ہوگا۔

    تاہم حال ہی میں ایک سیاح نے ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو بظاہر تو بہت منفرد معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کا پس منظر نہایت خوفناک ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے جسٹن ہوف مین نامی سیاح اور ماحولیاتی کارکن نے لکھا کہ کاش یہ منظر مجھے دیکھنے کو نہ ملتا، مگر اب میں اسے پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔

    It’s a photo that I wish didn’t exist but now that it does I want everyone to see it. What started as an opportunity to photograph a cute little sea horse turned into one of frustration and sadness as the incoming tide brought with it countless pieces of trash and sewage. This sea horse drifts long with the trash day in and day out as it rides the currents that flow along the Indonesian archipelago. This photo serves as an allegory for the current and future state of our oceans. What sort of future are we creating? How can your actions shape our planet?
.
thanks to @eyosexpeditions for getting me there and to @nhm_wpy and @sea_legacy for getting this photo in front of as many eyes as possible. Go to @sea_legacy to see how you can make a difference. . #plastic #seahorse #wpy53 #wildlifephotography #conservation @nhm_wpy @noaadebris #switchthestick

    A post shared by Justin Hofman (@justinhofman) on

    انہوں نے لکھا کہ سمندر کی لہروں کے ساتھ بے تحاشہ کچرا بھی سمندر کے اندر آجاتا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ان کے مطابق انڈونیشیائی جزیروں کے پانیوں میں کھینچی جانے والی اس تصویر میں موجود یہ ننھا سا سمندری گھوڑا بھی اسی کچرے زدہ پانی سے گزر کر آیا ہوگا اور واپسی پر یہ کانوں کی صفائی کرنے والی ایئر بڈ میں پھنس گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس سے زور آزمائی کر کے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے یا اسے کوئی دلچسپ چیز سمجھ کر اس پر سواری کر رہا ہے۔

    جسٹن ہوف کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ہمارے خوفناک مستقبل کی ایک مثال ہے۔ ’یہ کیسی ترقی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ اپنے ماحول، فطرت اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا کر کی جانے والی ترقی کسی کام کی نہیں‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔