Tag: آبی جانور

  • عجیب الخلقت آبی جانور جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    عجیب الخلقت آبی جانور جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    واشنگٹن: عجیب وغریب آبی مخلوق کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، مذکورہ جانور کو انسانی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس کے سمندر میں ایسا آبی جانور دیکھا گیا جس نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیزا نامی خاتون اپنی ماں کے ساتھ مچھلی شکار کررہی تھی کہ اچانک کانٹے میں یہ جانور پھنسا انہیں لگا کہ کوئی مچھلی ہوگی لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار ایسی مخلوق کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی، اس آبی جانور کے پورے جسم پر کانٹے تھے اور وہ رینگ رہا تھا، اگر وہ ہم سے چمٹ جاتا تو ممکن ہے گہرے زخم آتے۔

    الیزا نے بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر تصاویر اور ویڈیوز بنائیں اور محکمہ وائیلڈ لائف کو ارسال کیں، ہمیں لگتا ہے کہ اس عجیب وغریب مخلوق کو انسانی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔

  • قدرت کا کرشمہ، ٹرانس پیرنٹ مچھلی دریافت

    قدرت کا کرشمہ، ٹرانس پیرنٹ مچھلی دریافت

    والیٹا: آپ نے مختلف اقسام کے نایاب آبی مخلوق دیکھے ہوں گے لیکن قدرت کا ایسا کرشمہ سامنے آیا ہے جسے دیکھنے والے ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مالٹا کے سمندر میں ایک غوطہ خور نے ایسی مچھلی دیکھی جسے اس سے قبل انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔

    رینیرو نامی تیراک نے سمندر کی تہہ میں آیسی آبی مخلوق دیکھی جس کا جسم شیشے کی طرح چمک رہا تھا اور اس کے آر پار آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا۔ غوطہ خور نے حیرت انگیز مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    تیراک نے بتایا کہ اس نے اپنے چالیس سالہ تیراکی کے دور میں اس طرح کی عجیب وغریب مخلوق کبھی نہیں دیکھی، جیلی فش کی طرح نظر آنے والی مچھلی کی لمبائی 12 انچ جبکہ چوڑائی 8 انچ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ مچھلی آبی جانور ’سیلپ‘ کی نسل میں سے ایک ہے۔

    مالٹا میں آبی مخلوقات سے متعلق قائم ادارے کا کہنا ہے کہ سیلپ نامی مچھلیاں بہت کم عرصہ جیتی ہیں، گھنٹوں کی رفتار سے ان کی لمبائی اور چوڑائی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ جبکہ ان کی غذا زیرسمند اگنے والی گھاس ہوتی ہیں۔

  • منہ میں برقی آری رکھنے والی خطرناک شارک

    منہ میں برقی آری رکھنے والی خطرناک شارک

    ہماری زمین پر طرح طرح کے جاندار پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، جبکہ کچھ اوجھل ہیں۔

    ہماری آنکھوں سے اوجھل یہ وہ جاندار ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوسکے، یا یہ پرانے وقتوں میں ہوا کرتے تھے اور اب معدوم ہوچکے ہیں۔ اب ان جانداروں کی باقیات ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں جو ان کی بناوٹ و ساخت دیکھ کر سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک شارک نے ماہرین کو خوفزدہ کر رکھا ہے جس کے منہ میں برقی آری موجود ہوا کرتی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شارک جسے ہیلی کوپریون کا نام دیا گیا ہے، 25 کروڑ سال قبل ہمارے سمندروں میں ہوا کرتی تھی۔

    یہ شارک 35 فٹ طویل تھی اور اس کے آگے کے دانتوں کی ساخت ایسی تھی کہ وہ گھوم کر ایک برقی آری کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ آری حرکت نہیں کرتی تھی۔

    ماہرین کے مطابق اس شارک کے منہ میں اوپر کا حصہ دانتوں سے خالی ہوتا تھا لہٰذا یہ آری باآسانی اس کے منہ میں سما جاتی تھی۔

    نہایت خطرناک دکھنے والی اس آری کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شارک اپنے شکار کی طرف بڑھتی ہوگی اور اس آری کی مدد سے چند لمحوں میں شکار کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہوگی، لیکن یہ آری اس قدر مؤثر نہیں تھی۔

    شارک اپنے شکار کیے گئے صرف چند چھوٹے موٹے جانوروں کے اس آری کی مدد سے ٹکڑے کرسکتی تھی۔

    اب تک ہم نے ایسے جانور صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی دیکھے ہیں، تاہم اب جبکہ ان جانوروں کا حقیقت میں موجود ہونا بھی ثابت ہوگیا، تو اسے خوش قسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ یہ خطرناک شارک کروڑوں سال قبل معدوم ہوگئی۔

  • درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کے ایک ساحل پر درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ساحل پر آنے والی ان وہیل مچھلیوں میں سے بیشتر پانی میں واپس ڈالے جانے سے قبل دم توڑ گئیں۔

    نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پر واقع گولڈن بے کے فیئرویل اسپٹ پر یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آدھی رات کو درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔

    whale-2

    صبح ساحل پر آنے والے افراد نے انہیں دیکھا تو ریسکیو اداروں کو طلب کیا گیا۔ جس وقت ریسکیو اہلکاروں نے ان مچھلیوں کو واپس پانی میں ڈالنے کا کام شروع کیا اس وقت تک 75 فیصد وہیل مچھلیاں مر چکی تھیں۔

    whale-3

    امدادی کاموں میں شامل ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ سمندر کی بلند لہروں کے باعث آیا جس نے اتنی بڑی تعداد میں وہیل مچھلیوں کو ساحل پر لا پھینکا۔ ایک اندازے کے مطابق ان وہیل مچھلیوں کی تعداد 200 سے زائد تھی۔

    whale-4

    نیوزی لینڈ کے مذکورہ ساحل پر سمندر کی تنگ کھاڑی موجود ہے جس کے باعث اس سے قبل بھی بڑی مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کے ساحل پر آنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔