Tag: آبی حیات

  • ٹرمپ کے حامی کی عجیب حرکت، سوشل میڈیا پر سخت تنقید

    ٹرمپ کے حامی کی عجیب حرکت، سوشل میڈیا پر سخت تنقید

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے بے حسی اور جارحیت کی تمام حدوں کو پار کردیا، امریکی کانگریس پر ان کے حملے کے بعد اب ٹرمپ کے ایک اور حامی کی نہایت افسوسناک حرکت سامنے آئی ہے جس میں ایک بے زبان جانور کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ریاست فلوریڈا کے دریا میں ایک مینٹی (جسے سمندری گائے کہا جاتا ہے) دیکھی گئی ہے جس کی پشت پر ٹرمپ کا نام کھدا ہوا ہے۔

    امریکی وفاقی اداروں نے اس مذموم حرکت کی تفتیش شروع کردی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق اس مینٹی کو سب سے پہلے فلوریڈا کے دریا میں موجود ایک کشتی کے کپتان نے دیکھا تھا، کپتان کا کہنا ہے کہ مینٹی کی پشت پر غیر معمولی نشانات نے انہیں متوجہ کیا جس کے بعد انہوں نے حکام کو اس کی اطلاع دی۔

    تفتیش کے بعد علم ہوا کہ مینٹی کی پشت کی جلد پر ٹرمپ کا نام کھودا گیا تھا۔

    ماہرین آبی حیات کے مطابق مینٹی کی پشت کی بیرونی جلد کائی جیسی ہوتی ہے اور ٹرمپ کا نام اسی پر کھودا گیا ہے۔ یقیناً اس عمل کے دوران یہ بے زبان جاندار نہایت تکلیف سے گزرا ہوگا۔

    وفاقی اداروں نے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے اور ایسی مذموم حرکت کرنے والے کو تلاش کیا جارہا ہے، تفتیش میں امریکی آبی و جنگلی حیات سروس کی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ مینٹیز معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور ایسے جانوروں کو نقصان پہنچانا 50 ہزار ڈالر جرمانے اور ایک سال قید کا سبب بن سکتا ہے۔

    ان کے مطابق اس واقعے میں ملوث افراد کو تلاش کر کے انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

  • خوبصورت دکھنے والا یہ جاندار نہایت خطرناک ہوسکتا ہے

    خوبصورت دکھنے والا یہ جاندار نہایت خطرناک ہوسکتا ہے

    ہمارے سمندروں میں مختلف اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں، کچھ جاندار انسانوں اور دیگر جانداروں کے دوست ہوتے ہیں اور کچھ ان کے لیے خطرناک۔ پرتگیز مین آف وار نامی جاندار کا شمار بھی سخت خطرناک جانوروں میں ہوتا ہے۔

    یہ رنگین جانور دیکھنے میں بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ اتنا ہی خطرناک ہے۔ یہ ایک دن میں 100 مچھلیوں کو قتل کرسکتا ہے۔

    یہ جاندار سمندر کی سطح پر طفیلیئے کی زندگی گزارتا ہے یعنی اس کا انحصار دیگر جانوروں پر ہوتا ہے۔

    اس کے جسم کا ایک ترچھا حصہ سمندر کی اوپری سطح پر رہتا ہے، یہ حصہ بحری جہاز کے بادبان کی طرح ہوتا ہے جو طوفانی لہروں میں بھی اسے سنبھالے رکھتا ہے۔

    پانی کے اندر اس کے 30 میٹر طویل بازو پھیلے رہتے ہیں، ہر بازو میں زہریلے ڈنک والے بے شمار خلیات موجود ہوتے ہیں۔

    اس کا ایک بازو ایک مچھلی کو باآسانی قتل کرسکتا ہے، کبھی کبھار اس کا ڈنک انسان کو بھی قتل کرسکتا ہے۔

  • بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    کراچی: بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر ہو گئی ہے، کلفٹن کے ساحل پر سینکڑوں مردہ مچھلیاں آ گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر بڑی تعداد میں مردہ مچھلیاں آ گئی ہیں، ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد آبی حیات کا متاثر ہونا انوکھی بات نہیں ہے۔

    ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف معظم علی خان کا کہنا ہے کہ بارشوں میں ندی نالوں کا گندا پانی بڑی مقدار میں سمندر میں گرتا ہے، گندا پانی اپنے ساتھ نامیاتی اورگینک پانی ساتھ لے کر جاتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ گندا پانی جہاں تک سمندر کو متاثر کرتا ہے، وہاں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، جس کے سبب سمندری حیات متاثر ہوتی ہے۔

    معظم علی خان نے کہا کہ کلفٹن کے ساحل پر مردہ آنے والی مچھلیاں بوئی کہلاتی ہیں، جو عموماً کنارے کے قریب پائی جاتی ہیں، کنارے کے قریب رہنے کی وجہ سے مچھلی کی یہ قسم زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

    ٹیکنیکل ڈائریکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں بھی بارشوں کے بعد سینکڑوں مردہ مچھلیاں کنارے پر آتی رہی ہیں، اس بار تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال سی ویو پر ہزاروں کی تعداد میں مردہ مچھلیاں ساحل پر آ گئی تھیں جن کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا تھا، ان میں چھوٹی اور بڑی مختلف اقسام کی مچھلیاں شامل تھیں۔

  • ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    پلاسٹک کی اشیا اور مچھلی پکڑنے کی ڈوریاں، کانٹے اور جال یوں تو بے ضرر لگتے ہیں تاہم یہ آبی حیات کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور ان جالوں اور کانٹوں کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی ان کی وجہ سے پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیر نہیں سکتے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال امریکی ریاست ہوائی کے سمندروں میں پیش آئی۔

    ہوائی کے سمندر میں ڈائیونگ کرتے ہوئے ایک ڈائیور نے دیکھا کہ اس کے قریب تیرتی ڈولفن اپنے ایک بازو کو حرکت نہیں دے پارہی۔ ڈائیور نے غور سے اس کے بازو کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے کا ہک ڈولفن کے بازو کے گرد پھنسا ہوا تھا۔

    ڈائیور نے ہک کو پہلے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی، جب وہ ناکام رہا تو اس نے اپنے سامان سے کٹر نکال کر اس ہک کو کاٹنا شروع کیا۔

    اس دوران ڈولفن صبر سے وہیں موجود رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ اسی کی مدد کی جارہی ہے۔

    ڈائیور نے نہایت احتیاط سے اس ہک کو کاٹا اور ڈولفن کے منہ میں اٹکا ہوا تار بھی نکال دیا جس کے بعد ڈولفن کا بازو حرکت کرنے لگا۔ ڈولفن نے شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ڈائیور کے گرد چکر لگائے اس کے بعد گہرے سمندروں میں گم ہوگئی۔

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا

    ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا

    جارجیا: امریکا کے ایک جزیرے پر ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا، انسانی دانتوں سے حیران کن مشابہت رکھنے والی مچھلی ساحل پر نکل آئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست جارجیا میں ساحل پر ایک ایسی مچھلی مردہ حالت میں پڑی ملی جس کے دانت انسانی دانتوں کی طرح تھے۔

    ساحل پر پڑی مچھلی کا انکشاف ایک خاتون نے کیا جو اپنے بچے کے ساتھ سیر کرنے نکلی تھیں، خاتون نے مچھلی کی متعدد تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ پہلے جب اس نے مچھلی دیکھی تو کوئی توجہ نہیں دی، لیکن قریب جا کر دیکھا تو حیران رہ گئی، اس کے دانت بالکل انسانی دانتوں جیسے قطار میں تھے۔

    خاتون نے بتایا کہ اس نے مچھلی کی تصاویر لیں اور جس کو بھی دکھائیں، اس نے حیرانی کا اظہار کیا، ایسی مچھلی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

    ماہرین آبی حیات کا کہنا ہے کہ یہ دراصل شیپ ہیڈ مچھلی ہے، جو اپنے عجیب دانتوں سے کئی اہم کام لیتی ہے، جن میں جھینگے، گھونگھے اور کیکڑوں کو پیسنا بھی شامل ہیں۔

    شیپ ہیڈ مچھلی کے دانت اس وقت سے نکلنے لگتے ہیں جب یہ صرف 4.5 ملی میٹر لمبی ہوتی ہے، اور جب یہ 15 ملی میٹر ہو جاتی ہے تو اس کے دانتوں کا سیٹ مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

    یہ مچھلی 76 سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہے، اور کبھی کبھی آدھے میٹر تک بھی اس کا سائز چلا جاتا ہے۔ یہ خلیج اور امریکی اٹلانٹک سواحل پر پائی جاتی ہے، امریکا میں اسی مچھلی کے نام پر شیپس ہیڈ بے رکھا گیا۔

  • گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اور نقصان سامنے آگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سمندروں کا رنگ بھی تبدیل کررہا ہے۔

    گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے نیلے سمندروں کا رنگ مزید نیلا جبکہ سبز سمندروں کا رنگ مزید سبز ہورہا ہے۔

    رنگوں کی یہ تبدیلی سمندروں کے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سمندروں کو رنگ دینے کی ذمہ دار ایک خوردبینی الجی (کائی) ہے جسے فائٹو پلینکٹون کہا جاتا ہے۔

    یہ الجی سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہے اور آکسیجن پیدا کرتی ہے۔ جن سمندروں میں زیادہ فائٹو پلینکٹون موجود ہے وہ سبز جبکہ کم فائٹو پلینکٹون رکھنے والے سمندر نیلا رنگ رکھتے ہیں۔

    سورج کی روشنی میں اضافے کی وجہ سے زمین کے کچھ حصوں کے سمندر گہرے نیلے جبکہ کچھ گہرے سبز ہوتےجارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں کی یہ تبدیلی فوڈ چین کو متاثر کرے گی۔ یہ جنگلی حیات اور ماہی گیری پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

  • 500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    برفانی خطے آرکٹک میں واقع ملک گرین لینڈ میں پائی جانے والی ایک مخصوص شارک کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کی عمر 512 سال ہے۔

    سائنس جنرل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 512 سالہ شارک دریافت کی ہے جو ممکنہ طور پر سنہ 1505 میں پیدا ہوئی تھی۔

    گرین لینڈ کی یہ شارک جسے گرین لینڈ شارک کہا جاتا ہے کئی سو سال تک زندہ رہنے کے لیے مشہور ہے۔ ان کی جسامت سال میں صرف 1 سینٹی میٹر بڑھتی ہے چانچہ سائنسدانوں کے لیے اس کی جسامت سے عمر کا اندازہ لگانا نہایت آسان ہے۔

    یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی کی تلاش میں تیرتی رہتی ہیں۔

    حال ہی میں دریافت ہونے والی گرین لینڈ شارک کو دنیا کا طویل العمر ترین مہرے دار (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) جاندار کہا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شارک کی لمبائی 18 فٹ جبکہ وزن ایک ٹن کے قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی عمر 272 سال سے 512 کے درمیان ہوسکتی ہے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شارکس کو زندہ ٹائم کیپسول کہا جاتا ہے، اس جاندار نے صدیوں پر محیط تاریخی واقعات اور مختلف ارتقا کا مشاہدہ کیا ہے۔

  • کیا آپ نے گلابی ڈولفن دیکھی ہے؟

    کیا آپ نے گلابی ڈولفن دیکھی ہے؟

    ڈولفن دریاؤں میں رہنے والی نہایت معصوم سی مچھلی ہے لیکن کیا آپ نے کبھی گلابی ڈولفن دیکھی ہے؟

    دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمازون کے پانیوں میں ایک نہایت انوکھی ڈولفن پائی جاتی ہے جس کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔

    ایمازون کے جنگلات کا سلسلہ برازیل کے علاوہ پیرو، کولمبیا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔

    یہاں پائی جانے والی گلابی ڈولفن زمین پر پائی جانے والی میٹھے پانی کی طویل ترین ڈولفن بھی ہے۔

    پانی کے اندر مختلف اقسام کے پودوں کی بہتات کی وجہ سے پانی کا رنگ ہلکا بھورا ہوچکا ہے جس کے باعث زیر آب شکار ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔

    تاہم یہ ڈولفن ایک خاص تکنیک کے ذریعے اپنا شکار ڈھونڈتی ہے۔ یہ پانی کی لہروں کی آواز سے شکار کی نقل و حرکت کا اندازہ لگاتی ہے اور اس پر جھپٹتی ہے۔

    ان کی یہ صلاحیت اس قدر تیز ہوتی ہے کہ یہ کئی گز کے فاصلے سے کسی شے کے حجم اور شکل کو صرف آواز کی مدد سے شناخت کرلیتی ہیں۔

  • دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی

    دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی

    خیرپور: دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی جسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن فیض گنج کی پندھریو نہر میں 3 روز سے پھنسی ہوئی ہے۔

    مقامی افراد کی جانب سے انڈس ڈولفن انچارج کو اطلاع دے دی گئی تاہم ابھی تک ڈولفن کو ریسکیو نہیں کیا گیا۔ انچارج کا مؤقف ہے کہ جب تک نہر کا پانی کم نہیں ہوگا ڈولفن کو ریسکیو نہیں کر سکتے۔

    واضح رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔

    dolphin-2

    یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

    راستہ بھولنے اور دیگر وجوہات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آتی جارہی ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دریائے سندھ میں 1 ہزار 8 سو 16 ڈولفنز موجود ہیں۔