Tag: آبی حیات

  • اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    وہیل کی ایک قسم اورکا سمندر میں اپنے بچے کو کچھوے کا شکار کرنا سکھا رہی ہے جس کی ویڈیو نے جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔

    نیشنل جیوگرافک کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اورکا اپنے شکار یعنی کچھوے کے پیچھے جارہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہیل اپنے ننھے بچوں کو کچھوؤں کا شکار کرنا سکھا رہی ہے۔

    یہ ویڈیو فرانس سے تعلق رکھنے والے میرین سائنس کے 2 طلبا نے بنائی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہیل تقریباً آدھے گھنٹے تک کچھوے کو گول گول گھماتی رہی اور بعد ازاں اسے ہڑپ کرلیا۔

    اس طرح سے وہ اپنے بچوں کو زندگی بچانے کی تکنیک بھی سکھا رہی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو مختلف عادات سکھانے کی تربیت چند ہی جانور دیتے ہیں اور وہیل ان میں سے ایک ہے۔

    اورکا بہت کم کچھوؤں کا شکار کرتی ہے تاہم اس کے جبڑے کچھوؤں کی پشت کا مضبوط خول توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

  • دیو قامت وہیل کے سامنے ننھا سا انسان

    دیو قامت وہیل کے سامنے ننھا سا انسان

    سوشل میڈیا پر آنے والی چند تصاویر بہت مقبول ہورہی ہیں جن میں ایک ڈائیور ایک دیوقامت وہیل کے سامنے کھڑا ہوا نہایت ننھا سا نظر آرہا ہے۔

    جنوبی بحر الکاہل کے ایک جزیرے کے قریب لی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند نہایت قوی الجثہ وہیلز ایک کشتی کے آس پاس گھوم رہی ہیں۔

    انہیں عکس بند کرنے کے لیے ایک ڈائیور پانی میں کود گیا اور اس نے نہایت قریب سے ان وہیلز کی تصاویر لیں۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ریاست ہوائی کے سمندر میں پہلی بار ایک نہایت نایاب نسل کی مچھلی دیکھی گئی تھی جسے ڈولفن اور وہیل کی مخلوط النسل قسم کہا جارہا ہے۔

    یہ جاندار جسے عوامی طور پر ’وولفن‘ کہا جارہا ہے، وہیل کی ایک قسم میلن ہیڈڈ وہیل سے مشابہت رکھتی ہے مگر ماہرین کے مطابق یہ تکنیکی طور پر ڈولفن ہے۔

  • گھاس کھانے والی سبزی خور شارک

    گھاس کھانے والی سبزی خور شارک

    گہرے سمندروں میں رہنے والی شارک اپنے جان لیوا اور خونی حملوں کی وجہ سے مشہور ہے اور شارک کا نام سنتے ہی ذہن میں بڑے بڑے جبڑے اور خون ابھر آتا ہے۔

    تاہم اب ماہرین نے ایسی شارک بھی شناخت کرلی ہے جو گوشت کے ساتھ ساتھ گھاس بھی بہت شوق سے کھاتی ہے۔

    اس قسم کی شارک گلف میکسیکو اور بحر اوقیانوس کے آس پاس دیکھی گئی تھیں تاہم اب ماہرین نے ان پر تحقیق کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مزید معلومات فراہم کی ہیں۔

    شارک کی یہ قسم بونٹ ہیڈ شارک کہلائی جاتی ہے اور اس کی 60 فیصد خوراک سمندری گھاس پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ کیکڑے، مچھلیاں، گھونگھے اور مشروم بھی کھا لیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    سائنس دانوں نے جب اس شارک کی جسمانی ساخت کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ ان شارکس میں ایسے دانت موجود نہیں جو گھاس یا پودوں کو کاٹ سکیں، تاہم یہ گھاس معدے میں جا کر جسمانی ایسڈ کے ذریعے جزو بدن بن جاتی ہے۔

    یہ گھاس نہ صرف ان شارکس کی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ان کے وزن میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق گھاس میں موجود اجزا شارک کے لیے بہترین ہیں۔

    ماہرین کے مطابق انہیں شارک کی اس نسل پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • وہ آبی حیات جنہیں آپ آج سے پہلے نہیں جانتے تھے

    وہ آبی حیات جنہیں آپ آج سے پہلے نہیں جانتے تھے

    یوں تو سمندر کی دنیا بہت وسیع ہے اور انسان نے اس کے بہت سے راز کھنگال لیے ہیں، تاہم اب بھی سمندر کے کئی حصے انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور یہی حال سمندر میں رہنے والے جانداروں کا ہے۔

    سمندر کے زیادہ تر جاندار ہمارے جانے پہچانے ہیں تاہم کبھی کبھار کوئی ایسا جاندار بھی سامنے آجاتا ہے جنہیں دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ کیوں کہ وہ ہمارے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن نے ایسے ہی آبی جانداروں کی کچھ فہرست تیار کی ہے جو نہایت غیر معمولی ہیں اور یقیناً آپ نے انہیں اب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔

    نووا کی تیار کی گئی فہرست آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

  • پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔

    معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر

    وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

    کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟

    کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔

    کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔

    سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔

    کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

    کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔

    دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

    لیکن خطرہ کیا ہے؟

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔

    وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔

    جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے

    اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک خطرہ جان

    صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔

    اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔

    کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔

    گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کے ایک ساحل پر درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ساحل پر آنے والی ان وہیل مچھلیوں میں سے بیشتر پانی میں واپس ڈالے جانے سے قبل دم توڑ گئیں۔

    نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پر واقع گولڈن بے کے فیئرویل اسپٹ پر یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آدھی رات کو درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔

    whale-2

    صبح ساحل پر آنے والے افراد نے انہیں دیکھا تو ریسکیو اداروں کو طلب کیا گیا۔ جس وقت ریسکیو اہلکاروں نے ان مچھلیوں کو واپس پانی میں ڈالنے کا کام شروع کیا اس وقت تک 75 فیصد وہیل مچھلیاں مر چکی تھیں۔

    whale-3

    امدادی کاموں میں شامل ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ سمندر کی بلند لہروں کے باعث آیا جس نے اتنی بڑی تعداد میں وہیل مچھلیوں کو ساحل پر لا پھینکا۔ ایک اندازے کے مطابق ان وہیل مچھلیوں کی تعداد 200 سے زائد تھی۔

    whale-4

    نیوزی لینڈ کے مذکورہ ساحل پر سمندر کی تنگ کھاڑی موجود ہے جس کے باعث اس سے قبل بھی بڑی مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کے ساحل پر آنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

  • برفانی سمندر کے نیچے رنگین زندگی

    برفانی سمندر کے نیچے رنگین زندگی

    ایک بہتے ہوئے سمندر کے نیچے رنگ برنگے پھولوں کا کھلنا اور دیگر خوبصورت جانداروں کو موجودگی تو ایک عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کسی برفانی سمندر کے نیچے کیا ہوسکتا ہے؟

    برفانی خطہ انٹارکٹیکا میں 2 آسٹریلوی سائنسدانوں نے برفانی پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے اس میں ایک روبوٹ کو اندر اتارا۔ مگر اس روبوٹ سے جو تصاویر حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔

    اس برفانی سمندر کے اندر زندگی اپنی پوری آب و تاب سے رواں تھی اور وہاں مختلف پودے اور خوبصورت سمندری حیات موجود تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی برفانی تودہ اپنی جگہ سے حرکت کرتا ہے تو اس کے نیچے موجود سمندری حیات بھی تباہی سے دو چار ہوتی ہے، لیکن سمندر پر جمی برف انہیں کسی قدر تحفظ فراہم کرتی ہے اور انہیں مختلف آفات سے بچاتی ہے۔

    البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث زمین پر رہنے والی جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کو بھی معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔

  • دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن راستہ بھول گئی

    دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن راستہ بھول گئی

    خانپور مہر میں نہر سے نایاب ڈولفن کو پکڑ لیا گیا۔ نایاب نسل کی نابینا ڈولفن دریائے سندھ سے نہر میں آگئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق گھوٹکی کے نواحی گاؤں چھتوں لوند کے قریب علاقہ مکینوں نے نایاب نسل کی ڈولفن کو پکڑ لیا۔ ایک ماہ کے دوران یہ تیسری ڈولفن ہے جو دریا سے نہر میں آئی ہے۔

    مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈولفنز کو نہروں میں جانے سے روکنے کے اقدامات نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے نایاب ڈولفنز نہر میں پہنچ جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل پر ڈولفنز کی آمد

    واضح رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔ یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    dolphin-2

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

    راستہ بھولنے اور دیگر وجوہات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آتی جارہی ہے۔

    سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ماہی گیر دریائے سندھ میں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے زہریلے کیمیائی مواد کا استعمال کر رہے ہیں جو اس ڈولفن کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    تصاویر: وہیل اور ڈولفن کی شاندار عکس بندی

    دوسری جانب ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں کیمیائی اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، ڈولفن کا مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، اور گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے ڈولفن کا شکار اس کی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دریائے سندھ میں اس ڈولفن کی تعداد محض 600 سے بھی کم رہ گئی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دریائے سندھ سے اس ڈولفن کا خاتمہ ہوجائے گا۔