Tag: آب حیات

  • ناسخ: استاد شاعر کی پہلوانی اور غیرمعمولی خوراک

    ناسخ: استاد شاعر کی پہلوانی اور غیرمعمولی خوراک

    محمد حسین آزادؔ نے اردو دنیا کے لیے گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے جن میں سب سے زیادہ مشہور ’آبِ حیات‘ ہے جو اردو شاعری کی صرف تاریخ یا تذکرہ نہیں بلکہ اس میں اہم لسانی مباحث بھی ہیں۔ اسی کتاب میں ہمیں شیخ امام بخش ناسخ کی شاعری کے ساتھ ان کی زندگی اور شخصیت کے ایک پہلو کے بارے میں بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور یہ ہے ناسخ کی پہلوانی اور ان کی غیرمعمولی خوراک۔

    شیخ امام بخش ناسخ کو اردو غزل گوئی اور شاعری میں دبستانِ‌ لکھنؤ کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ شاعر تو تھے ہی، لیکن پہلوانی اور کسرت کے لیے بھی مشہور تھے۔ آزاد نے بھی اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے:

    ’’شیخ ناسخ‘‘ دن رات میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے۔ ظہر کے وقت دستر خوان پر بیٹھتے تھے اور کئی وقتوں کی کسر نکال لیتے تھے۔ پان سیر پختہ وزن شاہجہانی کی خوراک تھی۔

    رغمی سلمہ اللہ فرماتے ہیں: مجھے چند مرتبہ اُن کے ساتھ کھانے کا اتفاق ہوا، اس دن نہاری اور نان تافتان بازار سے منگائی تھی۔ پانچ چار پیالیوں میں قورمہ، کباب، ایک میں کسی پرندے کا قورمہ تھا۔ شلغم تھے، چقندر تھے، ارہر کی دال، دھوئی ماش کی دال تھی اور وہ دستر خوان کا شیر اکیلا تھا، مگر سب کو فنا کر دیا۔

    خاص خاص میوؤں کی فصل ہوتی تو جس دن کسی میوہ کو جی چاہتا، اس دن کھانا موقوف! مثلاً جامنوں کو جی چاہا ’’لگن‘‘ اور ’’سینیاں‘‘ بھر کے بیٹھ گئے، چار پانچ سیر وہی کھا ڈالیں۔ آموں کا موسم ہے تو ایک دن کئی ٹوکرے منگا کر سامنے رکھ لئے۔ ’’ناندوں‘‘ میں پانی ڈالا، ان میں بھرے اور خالی کر کے اٹھ کھڑے ہوئے، بھٹے کھانے بیٹھے تو ’’گٹھلیوں‘‘ کے ڈھیر لگا دیے اور یہ اکثر کھایا کرتے۔ دودھیا ’’بھٹے‘‘ چُنے جاتے۔ چاقو سے دانوں پر خط ڈال کر لون مرچ لگتا، سامنے بھنتے ہیں، لیموں چھڑکتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں۔ ابتدائے عمر سے ورزش کا شوق تھا۔ خود ورزش کرتے تھے بلکہ احباب کے نوجوانوں میں جو حاضرِ خدمت ہوتے اور ان میں کسی ہونہار کو ورزش کا شوق دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ ہزار، بارہ سو ڈنڈ کا معمول تھا۔ ’’یا غفور‘‘ کا وظیفہ قضا نہ ہوتا تھا۔ انہیں جیسا ریاضت کا شوق تھا، ویسا ہی ڈیل ڈول بھی لائے تھے۔ بلند بالا قد، منڈا ہوا سَر، کہاردے کا رنگ باندھے بیٹھے رہتے تھے، جیسے شیر بیٹھا ہے۔

  • شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    آج شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ آزاد اردو زبان کے نام ور انشا پرداز، نقّاد، شاعر، مؤرخ اور اخبار نویس تھے۔ ان کی کتاب آبِ حیات کلاسیکی دور کے ادب اور شخصیات کا منفرد تذکرہ اور تنقید ہے جس کا خوب شہرہ ہوا۔ اسی طرح نیرنگِ خیال بھی آزاد کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے۔

    دہلی، آزاد کا وطن تھا جہاں انھوں‌ نے 1830ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑا کام کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران انھیں‌‌ گولی مار دی گئی۔ والد کی موت آزاد کو مشکلات پیش آئیں‌ اور وہ ہجرت کے بعد لاہور چلے آئے تھے۔

    محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پہنچنے والے آزاد نے محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انھیں سرکار نے شمسُ العلما کا خطاب عطا کیا۔

    آزاد نے اردو ادب میں‌ جدید تذکرہ نگاری کے ساتھ مختلف اصناف میں‌ اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو متعارف کروایا۔ انھوں نے لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع بھی روشن کی اور شعرا کو نظم کی طرف مائل کیا۔ آزاد کو جہاں ان کی ادبی خدمات کے سبب بہت پذیرائی ملی، وہیں‌ بعد میں آنے والوں نے ان کی تنقید اور تذکرہ نگاری کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ تاہم آزاد نے کئی اہم اور قابل ذکر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی ادبی خدمات اور مقام و مرتبے کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانیِ تحریکِ جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہرِ تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلٰی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامیِ اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔“

    زندگی کی مشکلات کے ساتھ انھیں کئی صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ان کی بیٹی کی موت کا المیّہ بھی شامل تھا اور اس کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ یہ حالت وفات تک برقرار رہی۔

    آزاد نے 22 جنوری 1910ء کو وفات پائی۔ انھیں‌ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سخن دانِ فارس، دربارِ اکبری، سیرِ ایران، جامع القواعد، نگارستان فارس، قصصِ ہند اور نگارستان شامل ہیں۔

  • طوطا جس نے رومی خاں کا راز افشا کر دیا

    طوطا جس نے رومی خاں کا راز افشا کر دیا

    ہمایوں نے جب گجرات دکن پر فوج کشی کی تو سلطان بہادر وہاں کا بادشاہ تھا اور جاپانیر کا قلعہ بڑا مستحکم تھا کہ سلطان خود بھی وہاں رہتا تھا اور تمام خزائن و دفائن وہیں رکھتا تھا۔

    محاصرے کے وقت رومی خاں میر آتش (باوجودیکہ کمال معتبر اور مصاحبِ منظورِ نظر سلطان کا تھا) ہمایوں سے مل گیا، اور قلعہ (تمام نصائسِ اموال اور خزائن بے حساب سمیت) ہمایوں کے قبضہ میں آیا۔

    سلطان بہادر کے پاس ایک طوطا تھا کہ آدمی کی طرح باتیں کرتا تھا اور سمجھ کر بات کا جواب دیتا تھا، سلطان اُسے ایسا چاہتا تھا کہ سونے کے پنجرے میں رکھتا تھا اور ایک دَم جدا نہ کرتا تھا، وہ بھی لُوٹ میں آیا۔

    جب دربار میں لائے، رومی خان بھی موجود تھا۔ طوطے نے دیکھ کر پہچانا اور کہا۔ "پھٹ پاپی رومی خاں نمک حرام۔” سب کو تعجب ہوا اور ہمایوں نے کہا، رومی خاں چکنم کہ جانور است ورنہ زبانش می بریدم۔

    اُس نے شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں۔ غرض اس نقل سے یہ ہے کہ اس وقت بھی لوگوں کی زبان پر عربی فارسی کے لفظ چڑھے ہوئے تھے، جب ہی طوطے کی زبان سے نمک حرام کا لفظ نکلا، جانور جو سُنتا ہو گا وہی بولتا ہو گا۔

    (آزاد نے اردو زبان کی تاریخ سے متعلق باب میں یہ سطور رقم کی تھیں)

  • پیر بخارا والا

    پیر بخارا والا

    میر حسن کے صاحبزادے، حُسنِ اخلاق اور اوصاف کی بزرگی میں بزرگوں کے فرزند رشید تھے، متانت، سلامت روی اور مسکینی ان کی سیادت کے لیے محضرِ شہادت دیتے تھے۔

    فیض آباد اور لکھنؤ میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ 16 برس کی عمر مشقِ سخن شروع کی اور خلق حسن کی مناسبت سے خلیقؔ تخلص اختیار کیا۔ ابتدا میں غزلیں بہت کہتے تھے اور والد بزرگوار سے اصلاح لیتے تھے۔

    جب شیخ مصحفیؔ لکھنؤ میں پہونچے تو میر حسنؔ ان دنوں بدر منیر لکھ رہے تھے، اور میر خلیق کی آمد کا یہ عالم کہ مارے غزلوں کے دم نہ لیتے تھے۔ شفیق باپ کو اپنے فکر سے فرصت نہ دیتے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے گئے، اپنی کم فرصتی کا حال بیان کیا اور اصلاح کے لیے شیخ موصوف کے سپرد کر دیا۔

    ہونہار جوان کی جوان طبیعت نے رنگ نکالا تھا کہ قدر دانی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیشا پوری خاندان میں پندرہ روپیہ مہینے کا نوکر رکھوا دیا۔ انہی دنوں میں مرزا تقی ترقی (مرزا تقی ترقی خاندان مذکور میں ایک عالی ہمت امیر تھے اور سرکار اودھ میں جاگیردار تھے۔) نے چاہا کہ فیض آباد میں شعر و سخن کا چرچا ہو۔ مشاعرہ قائم کیا اور خواجہ حیدر علی آتش کو لکھنؤ سے بلایا، تجویز یہ تھی کہ انھیں وہیں رکھیں۔ پہلے ہی جلسہ میں جو میر خلیقؔ نے غزل پڑھی۔ اُس کا مطلع تھا۔

    رشکِ آئینہ ہے اس رشکِ قمر کا پہلو
    صاف ادھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو

    آتش نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔

    میر خلیقؔ، نازک خیالیوں میں ذہن لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشہ پر پتھر مارا، عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سر پر گرا، جس نے آمد کے چشمے خاک ریز کر دیے، مگر ہمّت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔

    اکثر فیض آباد میں رہتے تھے، لکھنؤ آتے تھے تو پیر بخارا میں ٹھہرا کرتے تھے۔ پُر گوئی کا یہ حال تھا کہ مثلاً ایک لڑکا آیا۔ اس نے کہا میر صاحب! آٹھوں کا میلہ ہے ہم جائیں گے ایک غزل کہہ دیجیے۔ اچھا بھئی کہہ دیں گے، میر صاحب! میلہ تو کل ہے، ہم کل جائیں گے ابھی کہہ دیجیے۔ اسی وقت غزل لکھ دی، اس نے کہا، یاد بھی کرا دیجیے۔ میر صاحب اسے یاد کروا رہے ہیں، اُن دنوں میں غزلیں بِکا کرتی تھیں۔ میاں مصحفیؔ تک اپنا کلام بیچتے تھے، یہ بھی غزلیں کہہ کر فروخت کرتے تھے۔

    ایک دن ایک خریدار آیا اور اپنا تخلص ڈلوا کر شیخ ناسخؔ کے پاس پہونچا کہ اصلاح دے دیجیے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھ کر اس کی طرف دیکھا اور بگڑ کر کہا، ابے تیرا منھ ہے جو یہ غزل کہے گا، ہم زبان پہچانتے ہیں۔ یہ وہی پیر بخارا والا ہے۔

    میر خلیقؔ صاحبِ دیوان تھے۔ مگر اُسے رواج نہیں دیا۔ نقد سخن اور سرمایہ مضامین جو بزرگوں سے ورثہ پہونچا تھا، اُسے زادِ آخرت میں صرف کیا اور ہمیشہ مرثیے کہتے رہے، اسی میں نام اور زمانہ کا کام چلتا رہا۔ آپ ہی کہتے تھے اور آپ ہی مجلسوں میں پڑھتے تھے۔ قدر دان آنکھوں سے لگا لگا کر لے جاتے تھے۔

    (محمد حُسین آزاد کی مشہور تصنیف آبِ حیات سے اقتباس)

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)

  • آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آپ نے آب حیات کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا، اسے سن کر یقیناً آپ کے دل میں بھی خواہش جاگتی ہوگی کہ کاش آپ بھی اسے حاصل کرسکیں تاکہ آپ ہمیشہ جوان رہ سکیں۔ اس موضوع پر آپ نے بہت سی کہانیاں اور فلمیں بھی دیکھی ہوں گی۔ اگر آپ بھی آب حیات کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو جان جائیے کہ آپ کی خواہش صرف 2 سال بعد حقیقت میں بدلنے والی ہے۔

    کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجہ میں سائنسدان ایسی دوا بنانے میں تقریباً کامیاب ہوچکے ہیں جو ڈیمنشیا اور دیگر بڑھاپے کی بیماریوں کو ختم کر سکتی ہے۔

    یہ دوا 30 اقسام کے وٹامن اور معدنیات سے بنائی گئی ہے اور بہت جلد یہ فروخت کے لیے پیش کی جانے والی ہے۔ اسے ایک سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سائنسدان پرامید ہیں کہ یہ دوا اعصاب کو تباہ کردینے والی بیماریوں جیسے الزائمر اور پارکنسن کے بڑھنے کی رفتار کو کم کر سکتی ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس دوا کا تجربہ چوہوں پر کیا۔ چوہے کے دماغ پر ایک سال کی عمر میں ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے انسانی دماغ پر الزائمر کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس دوا کو کئی ماہ تک چوہے کی خوراک میں شامل کر کے انہیں استعمال کروایا گیا اور سائنسدانوں کے مطابق اس کے اثرات حیرن کن تھے۔

    کچھ عرصے مزید استعمال تک اس دوا نے خلیوں کی تباہی کے عمل کو مکمل طور پر ختم کردیا۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر جینیفر لیمن کے مطابق یہ دوا کئی بیماریوں کو ختم کر کے انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    اس دوا کا اگلا مرحلہ اسے انسانوں پر استعمال کروا کر دیکھنا ہے جس سے علم ہوگا کہ انسانوں پر اس کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں یا نہیں جس کے بعد اسے مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔