Tag: آثار قدیمہ

  • کراچی کے شہری نے گھر میں ہی میوزیم بنا لیا، دلچسپ رپورٹ

    کراچی کے شہری نے گھر میں ہی میوزیم بنا لیا، دلچسپ رپورٹ

    کراچی (رپورٹ : روبینہ علوی) شہر قائد کے رہائشی نے نادر و نایاب نوادرات کو جمع کرنے کے شوق میں جنون کی حد تک محنت کی اور کئی سال سے آثار قدیمہ کی تاریخی اشیاء جمع کررہے ہیں۔

    پاکستان چوک کے علاقے میں رہائش پذیر احمد انور نے قدیم اشیاء جمع کرکے اپنے گھر میں اب اپنا میوزیم قائم کرلیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ روبینہ علوی نے ان سے ملاقات کی اور ان کے اس شوق کی تکمیل سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

    احمد انور نے بتایا کہ میں بنیادی طور پر فائن آرٹسٹ ہوں، اس طرح کی قدیمی چیزوں کو جمع کرنا میرا شوق ہے، ایک پرانا کیمنرہ دکھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ کیمرہ میرے والد انڈیا سے لے کر آئے تھے۔

    احمد انور نے ایک پرانی لالٹین دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ لالٹین ہے جو محکمہ ریلوے میں استعمال کی جاتی تھی۔

    احمد انور کے اس چھوٹے سے میوزیم میں گیگر اشیاء بھی موجود ہیں جو انہوں نے مختلف اوقات میں مختلف ذرائع سے حاصل کیں۔

  • انگکور واٹ: کمبوڈیا کی قدیم مذہبی یادگار اور سیاحتی مقام

    انگکور واٹ: کمبوڈیا کی قدیم مذہبی یادگار اور سیاحتی مقام

    انگکور واٹ، قدیم اور تاریخی عمارت کے وہ کھنڈرات ہیں جو کمبوڈیا اور اس خطّے کی میں‌ صدیوں‌ قبل ایک سلطنت اور اس کے زیرِ اثر مذاہب کی کہانی سناتے ہیں۔

    اس خطّے پر ہندوستانی تہذیب کے ابتدائی اثرات غالب نظر آتے ہیں۔ یہ خطّہ پہلی سے چھٹی صدی کے دوران ایک ابتدائی ہندو ثقافت فنان کے طور پر تاریخ میں جانا جاتا ہے جو بعد میں‌ جے ورمن دوم کے زمانے میں کھمر یا خمیر سلطنت کہا گیا۔ یہ سلطنت ہندو عقائد کے تحت ترقی کی منازل طے کرتی رہی اور پھر گیارھویں صدی میں بدھ مت متعارف ہوا جو رفتہ رفتہ انگکور واٹ کے قدیم اور طرزِ تعمیر کے شاہکار معبد پر غالب آگیا، لیکن یہ ہندو بدھ عبادت کے طور پر ہی مشہور رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگکور واٹ ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس وقت خطّے کا حکم راں سوریا ورمن دوم کا مذہب یہی تھا۔ پھر 12 ویں صدی کے اواخر تک یہ بدھ مت کا مقام سمجھا گیا۔

      

    انگکور واٹ ہر سال لاکھوں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں کا پیچیدہ اور وسیع آبی نظام ایک سلطنت کے عروج اور زوال کی وجہ رہا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ کمبوڈیا کی بڑی مذہبی یادگار کے آثار بھی ہیں۔ ہر سال سیاح اور مذہبی عقیدت مند بھی یہاں زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ اور اس مقدس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اس پانی سے ‘برکت’ حاصل کرتے ہیں جو سنہ 802 عیسوی سے سلطنت کے خاتمے تک بادشاہوں کی تاجپوشی کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

    کمبوڈیا کی اس سلطنت کا قیام اس وقت عمل میں آيا جب سلطنت کے بانی جے ورمن دوم کو اس مقدس پانی سے غسل دیا گیا اور انھیں دیوتا جیسا راجہ کہا گيا۔ ان کی سلطنت جدید دور کے کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام پر پھیلی ہوئی تھی اور مؤرخین کا خیال ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل انگکور شہر دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ کمبوڈیا کے باشندوں کے لیے آج بھی یہ ایک بہت ہی خاص جگہ ہے، اور اس کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہاں کا کولن پہاڑ اور مندر عقیدت مندوں کی وجہ سے خاص اہمیت اختیار کرجاتا ہے جب وہ یہاں ہر سال ایک خاص موقع پر نذرانے لے کر یہاں آتے ہیں۔

    یہ سلطنت پانچ سو صدیوں تک قائم رہی اور کے ماہر انجینیئروں نے یہاں پانی کا ایک وسیع اور پیچیدہ نظام بنایا جو ماہرین کے مطابق شہر کی آبادی، زراعت اور مویشیوں کو سہارا دینے کے لیے مون سون کے موسم میں سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بناتا تھا۔ اس میں مختلف ادوار میں حکم رانوں نے بہتری کے لیے تعمیر و مرمت کی اور ان میں نہروں، کھائیوں، اور آبی ذخائر کا اضافہ کیا۔

    ابتداً انگکور واٹ ایک ہندو مندر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، جو بعد میں بدھ مت کے پیروکاروں کے زیرِ اثر آگیا۔ ماہرین کے مطابق جب انگکور سلطنت زوال پذیر ہوئی تو یہاں آبادی بھی نہ رہی اور یہ بلند و بالا مندر بھی لاوارث ہو گیا اور اس زمانے میں درخت اور ہر طرح کے سبزہ سے ڈھک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ تک لوگ اس کے بارے میں جاننے کے باوجود یہاں آنے سے گریزاں رہے اور بعد کے برسوں میں جنگل نے اس معبد اور اس کے آبی نظام کو مکمل طور پر گھیر لیا۔ فرانس نے جب کمبوڈیا پر غلبہ حاصل کیا تو یہاں تک اتفاقیہ رسائی ہوئی جس نے دنیا کو ایک تہذیب اور مذہبی عمارت کے کھنڈرات کو دیکھنے کا موقع دیا۔ یہ سنہ 1860 کی بات ہے جب فرانسیسی مہم جو ہینری موہوت اسے دنیا کے سامنے لایا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے یہاں صفائی کروا کے اس مندر کی بحالی کے علاوہ اس آبی نظام پر تحقیق شروع ہوئی جو اس کا سب سے اہم حصّہ ہے۔

  • آثار قدیمہ پر چاکنگ کرنے والا شخص گرفتار

    آثار قدیمہ پر چاکنگ کرنے والا شخص گرفتار

    اومان: اردن میں آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے اور چاکنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا، آثار قدیمہ کو خراب کرنے پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جارہا تھا۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اردن کی پبلک سیکیورٹی سروس نے ایک ایسے شخص کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے جس نے تاریخی شہر جرش میں آثار قدیمہ کے مقام پر دیواروں اور کالموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔

    اس واقعے پر اردن میں اور بیرون ملک شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

    اردن میں پبلک سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے میڈیا ترجمان کرنل عامر السرطاوی نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسزنے واقعے کی تحقیقات جاری رکھیں اور مجرم کی شناخت کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔

    گرفتار ملزم کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس کے خلاف مزید قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

    خیال رہے کہ شمالی اردن کے قدیم شہر جرش کے یادگاری ستونوں پر سیاہ روشنائی سے چاکنگ کی گئی تھی اور انہیں پینٹ کیا گیا تھا۔

    اس واقعے نے ملک میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی، جرش اردن میں ایک تاریخی اور سیاحتی مقام ہے جو سیاحت اور ثقافت کے حوالے سے غیر معمولی طور پر اہم ہے۔

    جرش ٹورازم کے ڈائریکٹر فراس الخطاطبہ نے کہا کہ جرش کے قدیم شہر کے لیے سیکیورٹی سسٹم کی منظوری آنے والے ہفتوں میں دی جائے گی۔

    الخطاطبہ نے مزید کہا کہ آثار قدیمہ کی حفاظت کے نظام کے لیے ٹینڈر، اس میں آثار قدیمہ کی جگہ کے ارد گرد موجودہ باڑھ کو نئی باڑھ سے تبدیل کرنے، نگرانی کے کیمرے، الیکٹرانک گیٹس، اور آثار قدیمہ کے لیے روشنی کی تنصیب کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں گے۔

  • ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا’

    ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا’

    کراچی: وزیر تعلیم و ثقافت سردار علی شاہ نے سندھ کی پُر امن ثقافت کے حوالے سے ایک تقریب میں کہا ہے کہ ‘آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی آثار قدیمہ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا۔’

    وہ کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے پاکستان کو سندھ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا آج کا پاکستان تاریخی طور پر وادئ سندھ ہی تھا۔

    انھوں نے کہا تاریخی طور پر وادئ سندھ ہی اس خطے کی اصل شناخت ہے، انڈس سے ہی انڈیا نکلا ہے، کشمیر بھی تاریخی طور پر پاکستان کا اَن مِٹ حصہ ہے، یہ بات بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھی اپنی کتاب میں لکھی ہے۔

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم شہر کا نام تبدیل کرنے کی منظوری

    سردار علی شاہ نے کہا ہم امن کے داعی ہیں اور کبھی کسی قوم پر حملہ آور نہیں ہوئے، پاکستان کی جانب سے اقوام عالم کو اپنی امن پرستی کا اس سے بڑا کیا ثبوت دیا جا سکتا ہے کہ آج تک وادئ سندھ کے کسی بھی سائٹ سے کوئی جنگی ہتھیار نہیں ملا ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ میں کبھی حملہ آور نہیں رہے، ہمیں شاہ لطیف، بابا بھلے شاہ، سلطان باہو اور شاہ حسین کے پیغام کو بھی پڑھنا پڑے گا، صدیوں پہلے خواجہ معین الدین اور نظام الدین اولیاء کے صوفی پیغامات نے برصغیر میں امن کی آبیاری کی۔

  • قدیم دور کے اس بچے کی موت کی وجہ معلوم ہو گئی

    قدیم دور کے اس بچے کی موت کی وجہ معلوم ہو گئی

    ابتدائی قرون وسطیٰ کے برطانیہ میں ایک 6 سالہ لڑکے کی الم ناک موت کی وجہ سائنس دانوں نے معلوم کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایسٹونیا کی یونیورسٹی آف ٹارٹو کے محققین نے 6 سالہ بچے کی باقیات کے تجزیے کے بعد اس کی وجۂ موت کی تفصیلات جاری کی ہیں۔

    یہ بچہ 14 سو سال پرانے اینگلو سیکسن دور سے تعلق رکھتا تھا، بچے کی باقیات کیمبرج شائر کے علاقے سے دریافت کی گئی تھیں، اب سائنس دانوں نے جینیاتی تجزیے کی مدد سے ایک ہزار چار سو سال قبل مرنے والے اس بچے کی موت کی وجہ جان لی ہے۔

    لیبارٹری میں ہونے والے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ اس 6 سالہ بچے کو 540 سے 550 بعد از مسیح کے درمیان ایڈکس کے پہاڑی سلسلوں میں دفن کیا گیا تھا۔

    ریسرچرز کے مطابق دانت کے جینیاتی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ بچہ گردن توڑ بخار، طاعون اور جوڑوں کے درد میں مبتلا تھا۔

    تاہم بچے کی موت کی وجہ انفلوئنزا اور طاعون ہے، کیوں کہ ویکسین ایجاد ہونے سے قبل 1977 تک انفلوئنزا بچوں میں موت کا اہم سبب تھا، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر انفلوئنزا کی وجہ سے قوت مدافعت کم زور پڑنے سے طاعون نے اسے اپنا نشانہ بنا لیا۔

    محققین نے 2 فروری کو جینوم بائیولوجی میں شائع شدہ مقالے میں کہا کہ ابتدائی قرون وسطیٰ کے انگلینڈ میں 6 سالہ لڑکے کی الم ناک موت نے سائنس دانوں کو ہیموفیلس انفلوئنزا بی کی تاریخ کا ابتدائی براہ راست اشارہ دیا ہے۔ تقریباً 550 عیسوی میں یہ اس بیکٹیریل انفیکشن کا سب سے پرانا کیس ہے، جسے Hib کہا جاتا ہے۔

    اس لڑکے کو کیمبرج شائر میں طاعون کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، لڑکے کے ایک دانت سے لیا گیا ڈی این اے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ انفلوئنزا بھی اسی دور میں لوگوں کو متاثر کر رہا تھا، جب تاریخ کی پہلی دستاویزی طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    احمد حسن دانی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ و علمِ بشریات تھے۔ انھوں نے تاریخ داں اور دانش وَر کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کی۔ آج اس نابغۂ روزگار کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ والد کا تبادلہ ناگ پور ہوا تو اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا اور بعد میں مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ انھیں اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں‌ لسانیات، تاریخ اور آثار قدیمہ کے مضامین میں سند سمجھا جاتا ہے۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو وہ پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    احمد حسن دانی کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی تھے۔

  • کھدائی کے دوران رسیوں سے بندھا 800 سال قدیم انسان برآمد (ویڈیو دیکھیں)

    کھدائی کے دوران رسیوں سے بندھا 800 سال قدیم انسان برآمد (ویڈیو دیکھیں)

    جنوبی امریکا کے ایک ملک پیرو میں کھدائی کے دوران رسیوں سے بندھا 800 سال قدیم انسان برآمد ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے جمعے کو بتایا کہ ان کی ایک ٹیم کو پیرو کے وسطی ساحل پر ایک ممی ملی ہے، جس کی قدامت کا اندازہ کم از کم آٹھ سو سال لگایا گیا ہے۔

    سان مارکوس کی اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر آثار قدیمہ وان ڈیلن لونا نے کہا کہ ممی کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پورے جسم کو رسیوں سے باندھا گیا تھا، اور اس نے ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ رکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ اُس وقت مقامی طور پر مردوں کا اسی طرح کفن دفن کیا جاتا ہو۔

    ماہرین کے مطابق ممی شدہ باقیات اُس ثقافت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی تھیں، جو جنوبی امریکی ملک کے ساحل اور پہاڑوں کے درمیان پروان چڑھی تھی۔

    ماہر آثار قدیمہ پیٹر وان ڈیلن لونا نے بتایا کہ یہ ممی، جس کی جنس کی شناخت نہیں ہو سکی ہے، لیما کے علاقے میں دریافت ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ باقیات ایک ایسے شخص کی ہیں جو ملک کے اونچے پہاڑی علاقے میں رہتا تھا، اس کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی جائے گی تاکہ زیادہ درست طور پر یہ معلوم ہو کہ یہ کتنی پرانی لاش ہے۔

    یہ ممی لیما شہر کے مضافات میں ایک زیر زمین جگہ کے اندر سے ملی تھی، قبر میں مٹی کے برتن، سبزیوں کی باقیات اور پتھر کے اوزار بھی موجود تھے۔

    واضح رہے کہ پیرو ایک مشہور سیاحتی مقام ماچو پچو کا گھر ہے، سلطنتِ اِنکا سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والی ثقافتوں کے سیکڑوں آثار قدیمہ یہاں موجود ہیں، سلطنتِ اِنکا کا 500 سال قبل جنوبی امریکا کے جنوبی حصے پر غلبہ تھا، اور یہ سلطنت جنوبی ایکواڈور اور کولمبیا سے لے کر وسطی چلی تک پھیلی ہوئی تھی۔

  • مراکش: ڈیڑھ لاکھ سال قدیم زیورات دریافت

    مراکش: ڈیڑھ لاکھ سال قدیم زیورات دریافت

    رباط: مراکش میں انسانی تاریخ کے قدیم ترین زیورات دریافت ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی افریقی ملک مراکش کے ساحل سے انسانی تاریخ کے قدیم ترین زیورات دریافت ہوئے ہیں، ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ زیورات ڈیڑھ لاکھ سال پرانے ہیں۔

    مراکش میں محققین نے جمعرات کو ایک لاکھ 42 ہزار سال اور ایک لاکھ پچاس ہزار سال کے درمیان قدیم ترین زیورات کی نقاب کشائی کی، یہ زیورات ملک کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ساحلی شہر الصویرہ کے بیزمون غاروں میں دریافت ہوئے۔

    مراکشی ماہر آثار قدیمہ عبدالجلیل بوزوگر نے میڈیا کو بتایا کہ یہ دریافت سوراخ شدہ اور سیاہی والے 30 سمندری خولوں پر مشتمل ہے، یعنی انسانوں نے ان خولوں پر آئرن آکسائیڈ سے بھرپور سرخ مادہ لگایا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ سرخ مٹی کے رنگ سے رنگے ہوئے چھوٹے سوراخوں والی سیپیوں سے بنے کئی ہار اور کنگن ملے ہیں، جو چند ہفتے قبل الصویرہ کے قریب بیزمون غار میں پائے گئے تھے۔

    عبدالجلیل نے بتایا کہ یہ سیپیاں ڈیڑھ لاکھ سال پرانی ہیں، فی الحال اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا میں سب سے قدیم ہیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب انسانوں نے ان سیپیوں کو آپس میں یا دوسرے لوگوں کے گروہوں کے ساتھ بات چیت کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔

    انھوں نے کہا کہ یہ مراکش اور انسانیت کے لیے ایک بڑی دریافت ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دریافت ہونے والے ہاروں میں سے کچھ کو قدیم زمانے میں مواصلات کی ایک شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

    یہ دریافت رباط میں مراکشی آثار قدیمہ ادارے، ایریزونا یونیورسٹی اور یورپ افریقا کی بحیرۂ روم کی لیبارٹری پر مشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم نے کی۔

    واضح رہے کہ ایسے ہی نوادرات مشرق وسطیٰ اور افریقا میں بھی ملے ہیں تاہم ان کی عمر 35 ہزار سال سے لے کر ایک لاکھ پینتیس ہزار سال کے درمیان کی تھی۔

    محققین کے مطابق مراکش میں دنیا کے قدیم ہومو سیپیئنز (ارتقا کے دوران بالکل ابتدائی انسان) سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد کی باقیات دریافت ہوئی تھیں، جو 3 لاکھ 15 ہزار سال پرانے تھے، انھیں 2017 میں فرانسیسی محقق ژاں ژاک ہوبلن کی ٹیم نے جبل الرحود میں دریافت کیا تھا۔

  • وادی سون میں ہزاروں سال قدیم قلعے کے آثار برآمد

    وادی سون میں ہزاروں سال قدیم قلعے کے آثار برآمد

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایت پر ماہرین آثار قدیمہ کی وادی سون میں مہم کامیاب رہی، وادی سون میں ہزاروں سال قدیم و تاریخی قلعہ تلاجہہ کے آثار برآمد ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں ہزاروں سال قدیم و تاریخی آثار قدیمہ کی دریافت پر کام جاری ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر ماہرین آثار قدیمہ کی وادی سون میں مہم کامیاب رہی۔

    وادی سون میں ہزاروں سال قدیم و تاریخی قلعہ تلاجہہ کے آثار برآمد ہوگئے، پنجاب یونیورسٹی کی آرکیالوجی ٹیم خوشاب نے نوشہرہ کے نواح میں کام شروع کردیا۔

    وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ سیاحتی مقامات کی ڈویلپمنٹ سے پنجاب کو ٹورازم حب بنائیں گے، آثار قدیمہ کی دریافت غیر ملکی سیاحوں اور محققین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ سیاحت کو فروغ دے کر مقامی معیشت کو فروغ دیا جائے گا۔

  • مٹی سے نوادرات بنانے کی ماہر ثمرین سولنگی

    مٹی سے نوادرات بنانے کی ماہر ثمرین سولنگی

    کراچی: سندھ کی رہائشی باصلاحیت ثمرین سولنگی آثار قدیمہ سے ملنے والے نوادرات کی نقل تیار کرتی ہے جسے سیاح نہایت شوق سے خریدتے ہیں، ثمرین انہیں فروخت کر کے اپنے گھر کا خرچ چلاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آثار قدیمہ موہن جودڑو کے نزدیک ایک گاؤں کی رہائشی ثمرین سولنگی، چکنی مٹی سے نوادرات کے نمونے بناتی ہے۔

    ثمرین پانچ بہنوں میں سب سے بڑی ہے اور اپنے اس فن کے ذریعے اپنے گھر کا خرچ چلاتی ہے، ثمرین کے مطابق اس نے یہ فن بچپن میں ہی اپنے والد سے سیکھا تھا، وہ اور اس کے والد دونوں کوزہ گری کا کام کرتے ہیں۔

    ثمرین موہن جودڑو سے ملنے والے کنگ پریسٹ، ڈانسنگ گرل اور مہروں کی نقل، اور بعض اوقات پورے موہن جودڑو کا ماڈل بھی بناتی ہے، جسے سیاح ہاتھوں ہاتھ خریدتے ہیں۔

    وہ اور اس کے والد موہن جودڑو کے قریب ہی اسٹال لگاتے تھے تاہم کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ برس اور اس برس بھی دونوں باپ بیٹی کچھ بھی فروخت نہیں کرسکے۔

    سیاحتی پابندی کے باعث ان کا کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے، رواں برس بارشوں میں ثمرین کے گھر کی چھت بھی گر گئی جسے مرمت کروانے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں۔ اب یہ خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

    ثمرین کی حکومت سے درخواست ہے کہ اس کا کاروبار چلنے تک اسے معاشی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے گھر کی مرمت کروا سکے۔