Tag: آثار قدیمہ

  • سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی

    سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی

    ریاض: سعودی عرب میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر سونے کی تلاش شروع کر دی جس سے سعودی آثار قدیمہ کو خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے ماہر آثار قدیمہ عبداللہ المسند کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ سونے کی تلاش کس جوش و خروش کے ساتھ کر رہے ہیں، تاہم سونے کے لیے کی جانے والی کھدائیوں سے آثار قدیمہ کو نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔

    ویڈیو کے مطابق کچھ لوگ سعودی عرب کے ایک تاریخی مقام پر چٹانوں میں کھدائیاں کرتے ہوئے پائے گئے، معلوم ہوا کہ وہ لوگ سونے کی تلاش میں کھدائی کر رہے تھے لیکن آثار قدیمہ کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، چٹانوں کی اطراف کاٹھ کباڑ جمع ہونے کے باعث تاریخی مقامات کی خوب صورتی بھی متاثر ہوئی۔

    مقامی لوگوں میں سونے کی تلاش کے لیے جادو ٹونا بھی مشہور ہے، ایک عرب جریدے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ لوگ سونے کی تلاش کے لیے تاریخی مقامات پر جادو ٹونا کر رہے ہیں، بتایا گیا کہ یہ ایک روایتی طریقہ ہے جو ہزاروں سال سے رائج ہے، سونے کی تلاش کے لیے جادو ٹونے سے مدد لی جاتی ہے۔

    لوگ سمجھتے ہیں کہ چوں کہ مصر کے فرعونوں کو مصری عقیدے کے مطابق سونے چاندی اور دیگر قیمتی اشیا کے ساتھ دفنایا جاتا تھا اس لیے ایسے کسی قدیم مقام پر کھدائی سے وہ اچانک مالا مال ہو سکتے ہیں، اس کے لیے وہ دور دراز کے مقامات پر منتخب جگہوں پر کھدائی کرتے ہیں۔

    سعودی ماہر آثار قدیمہ نے صورت حال کے پیش نظر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تاریخی مقامات کو تخریبی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے اقدامات کرے۔

  • ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ دریافت

    ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ دریافت

    مصر کے معروف مجسمے ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ برآمد ہوا ہے، یہ مجسمہ کوم اللولی کے مقام پر ملا ہے۔

    آثار قدیمہ کے مصری کمیشن کے مطابق ایک تاریخی مقام سے ابو الہول کی شکل سے مشابہہ شاہی مجسمہ برآمد ہوا ہے۔ وسطی مصر میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل جمال السمسطاوی کا کہنا ہے، ’ملنے والا مجسمہ گرینائڈ کا ہے۔ اسٹینڈ کے ساتھ اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور عرض 55 سینٹی میٹر کا ہے‘۔

    ان کے مطابق مجسمے کے چہرے کے نقوش واضح ہیں۔

    مصری آثار قدیمہ کے ماہرین کو اسی مقام سے مختلف شکل اور سائز کے مٹی کے برتن، سنگ مرمر کا ایک پیالہ اور معبود ’بس‘ سے متعلق کئی اشیا بھی ملی ہیں۔

    مذکورہ علاقے میں کھدائی اور تلاش کا مزید کام جاری ہے، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ علاقہ مزید نوادرات سے مالا مال ہوگا۔

    مصری ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 3 برسوں کے دوران توانا الجبل کے علاقے میں ممیز کی وادی بھی دریافت ہوئی ہے۔

    یہاں کئی قبرستان اور میتیں دفن کرنے کے لیے کنویں بھی ملے ہیں، ان میں سنگی اور لکڑی کے تابوت رکھے ہوئے تھے۔ تابوتوں میں ممیز محفوظ حالت میں موجود ہیں۔

    خیال رہے کہ مصر کے آثار قدیمہ میں ابو الہول کا مجسمہ بہت مشہور اور قدیم ہے۔

    ابو الہول کا مجسمہ

    ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، خوف کا باپ۔ اس مجسمے کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔

  • مصر میں تین ہزار سال پرانے تابوت دریافت

    مصر میں تین ہزار سال پرانے تابوت دریافت

    قاہرہ: دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کی جانے والی مصری تہذیب سے ماہرین نے کم سے کم 100 سال بعد پہلی بار بہت بڑی تعداد میں انتہائی اچھی حالت میں 3 ہزار سال پرانے تابوت دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مصری ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کے کنارے واقع شہر اقصر کے قریب الاساسیف نامی علاقے سے 3 ہزار سال پرانے مرد، خواتین وبچوں کے تابوت اصل حالت میں دریافت کیے گئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مصری آثار قدیمہ نے چند دن قبل 30 تابوتوں کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن سے متعلق حکام نے 20 اکتوبر کو تفصیلات جاری کیں۔

    مصری وزارت آثار قدیمہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق دریافت کیے گئے 30 تابوت قدیم مصری تہذیب کے مذہبی پادریوں کے خاندان کے افراد کے ہیں۔

    آثار قدیمہ کے وزیر خالد العنانی کے مطابق دریافت کیے گئے تابوتوں کو دریائے نیل کے کنارے واقع شہر کے اس علاقے سے دریافت کیا گیا جہاں سے ماضی میں بھی قدیم تہذیب کے تابوت اور دیگر چیزیں دریافت ہوتی رہی ہیں۔

    تابوت میں 30 گھنٹے گزاریں، 600 ڈالر انعام پائیں

    دریافت کیے گئے تابوت مٹی میں دفن تھے اور ماہرین نے محض 3 سے 4 فٹ کی کھدائی کے بعد انہیں دریافت کیا۔ وزارت آثار قدیمہ کی جانب سے دریافت کیے گئے تابوتوں کی ٹوئٹر پر جاری کی گئی تصاویر دیکھ کر اندازا ہوتا ہے کہ تابوت انتہائی اچھی حالت میں ہے۔

    مصری حکام کے مطابق دریافت کیے جانے والے تابوتوں میں مرد و خواتین سمیت بچوں کے تابوت بھی شامل ہیں اور ان تابوتوں پر قدیم مصری تہذیب کی نقش نگاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔

    مصر میں گزشتہ 100 سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تابوت دریافت ہوئے ہیں، اس سے قبل 19 ویں صدی میں مصر سے تابوت دریافت ہوئے تھے۔

    بیسویں صدی میں مصر میں اتنی بڑی تعداد میں تابوت دریافت نہیں ہوئے، تاہم گزشتہ صدی میں تاریخی مقبرے، مجسمے، شہر اور کھنڈرات دریافت کیے گئے۔ مصری حکام کے مطابق دریافت کیے گئے 30 تابوتوں کو ا?ئندہ سال کے ا?غاز تک قدیم مصری تہذیب کے بنائے گئے عجائب گھر منتقل کیا جائے گا۔

  • بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    لندن: ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا معاملہ جدید دنیا کے ساتھ نہیں جڑا بلکہ اس کا آغاز تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہوا۔

    برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین نے اس سلسلے میں سائنسی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ کچھ ایسے واضح شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے قبل بھی مائیں اپنے بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلاتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ماؤں نے تین ہزار برس سے زاید عرصے قبل اپنے بچوں کو جانوروں کا دودھ بوتل کے ذریعے پلانا شروع کر دیا تھا۔

    اسس سلسلے میں ماہرین آثار قدیمہ نے تین ایسے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا معائنہ کیا جو ایک اندازے کے مطابق 12 سو سال قبل از مسیح میں شیرخوار بچوں کے ساتھ دفنائے گئے تھے، ان پر ماہرین کو جانوروں کی چربی اور دودھ کے مولیکیولر فنگر پرنٹ ملے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کروڑوں برس قبل گم ہونے والا براعظم دریافت

    برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از تاریخ کے بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانے کی یہ پہلی شہادت ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جب بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانا شروع کر دیا گیا ہوگا تو عورتوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہوگی اور یوں آبادی میں اضافے میں تیزی آ گئی ہوگی۔

    خیال رہے کہ انسان نے دودھ اور اس سے بنی اشیا کا استعمال اندازاً 6 ہزار برس قبل شروع کیا جب کہ انسان نے سات ہزار برس قبل شکار چھوڑ کر کاشت کاری اور جانور پالنا شروع کیا تھا۔

  • ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    قدیم آثار و کھنڈرات سے دریافت اشیا میں سے کھانے پینے کی چیزیں بھی نکل آتی ہیں اور انہیں احتیاط سے محفوظ کرلیا جاتا ہے، تاہم ان اشیا کو پکانے اور پھر سے استعمال کرنے کا خیال کم ہی آتا ہے۔

    تاہم معروف ویڈیو گیم ڈیزائنر سیمز بلیکلے نے ایسے ہی ایک قدیم خمیر کو بیک کرنے کا تجربہ کیا اور ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔

    بلیکلے نے اپنے ایک ماہر آثار قدیمہ اور ایک مائیکرو بائیولوجسٹ دوست کی مدد سے 4 ہزار 5 سو سال قدیم خمیر حاصل کیا۔ یہ خمیر قدیم مصر کے کھنڈرات سے دریافت ہوا تھا۔

    یہ خمیر کھنڈرات سے دریافت کردہ برتنوں میں موجود تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس خمیر سے قدیم مصر میں بریڈ اور شراب بنائی جاتی تھی۔

    بلیکلے نے اس خمیر کو بیک کرنے سے قبل اس میں ایک قسم کا آٹا شامل کیا تاکہ خمیر کے بیکٹریا کو جگا سکے۔ ایک ہفتے بعد یہ خمیر بیک کرنے کے لیے تیار تھا۔

    بلیکلے نے زیتون کے تیل کی آمیزش سے نہایت احتیاط سے اسے بیک کیا، بیک ہونے کے بعد اس کے نہایت غیر متوقع نتائج ملے اور اوون سے ایک نہایت خوشبو دار مہکتی ہوئی بریڈ برآمد ہوئی۔

    ’اس کی خوشبو ویسی تو نہیں تھی جیسی آج کی بریڈ میں ہوتی ہے، یہ اس سے خاصی مختلف لیکن بہترین تھی‘، بلیکلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹس میں کہا۔

    بلیکلے کا کہنا ہے کہ وہ بے حد خوش ہے کہ اس کا یہ تجربہ کامیاب ہوا، اب اس کی اگلی کوشش ہوگی کہ وہ اس خمیر سے شراب بھی تیار کرسکے۔

  • اسرائیل میں بارہ سو سالہ قدیم مسجد دریافت

    اسرائیل میں بارہ سو سالہ قدیم مسجد دریافت

    تل ابیب: اسرائیلی صحرائی علاقے نقب میں ماہرین آثار قدیمہ نے بارہ سو سالہ قدیم مسجد دریافت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق نقب میں 12 سو سال پرانی مسجد کی باقیات کی دریافت کو ماہرین اثار قدیمہ نے اپنے لیے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کئی سو سال قبل یہ مسجد دین کی تبلیغ کے لیے استعمال ہوتی تھی، مذکورہ مسجد عام نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس قدیمی مسجد کو دنیا بھی میں امکاناً قدیم ترین مساجد میں شمار کیا جا سکتا ہے، باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا طرز تعمیر انتہائی خاص رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس قدیمی مسجد جیسا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ہوا ہے اور یہی پہلو حیران کن ہے، صحرائی علاقے نقب میں بیئر السبع سب سے بڑا شہر ہے جہاں سے مسجد کی باقیات برآمد ہوئیں۔

    دریافت ہونے والی باقیات میں واضح طور پر مسجد کا احاطہ دیکھا جاسکتا ہے جبکہ محراب کا رخ مکہ کی جانب واضح ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں نمازیں پڑھیں اور پڑھائی جاتی تھیں۔

    خیال رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں متحدہ عرب امارات کے ماہرین آثار قدیمہ نے ایک ہزار سال پرانی مسجد دریافت کی تھی، مسجد کے بارے میں خیال ہے کہ یہ مسجد اس علاقے میں دین اسلام کی اشاعت کے ابتدائی عرصے میں تعمیر کی گئی تھی۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا تھا کہ امارات میں پرانی مسجد کے آثار ’العین‘ کے مقام پر ملے تھے جہاں اس وقت مسجد الشیخ خلیفہ تعمیر کی گئی ہے۔

  • میاں بیوی کی 2 ہزار سال قدیم حنوط شدہ ممیوں کے پاس قدیم چوہے بھی دریافت

    میاں بیوی کی 2 ہزار سال قدیم حنوط شدہ ممیوں کے پاس قدیم چوہے بھی دریافت

    سوہگ: فرعونوں کی سرزمین کہلائے جانے والے ملک مصر کے علاقے سوہگ کے ایک قدیم مقبرے سے 2 ہزار برس پرانی حنوط شدہ ممیاں اور درجنوں چوہے دریافت ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کے ایک علاقے سے کھدائی کے دوران دو ہزار برس قدیم دو ممیاں دریافت ہوئی ہیں جن کے قریب برتن اور حنوط شدہ چوہے اور دیگر جانور رکھے گئے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا میں شایع شدہ رپورٹس کے مطابق مقبرے سے برآمد ہونے والی دو ممیوں کے اطراف میں حنوط شدہ چوہوں سمیت دیگر چھوٹے جانور ترتیب سے رکھے ہوئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ یہ مقبرہ مصر کے ایک سینئر حاکم ٹوٹو اور اس کی بیوی کا ہے۔

    مقبرے سے ملنے والے پتھر کے تابوت سے متعدد فن پارے بھی برآمد ہوئے جن میں کفن دفن کے طریقے واضح کیے گئے تھے، آثار قدیمہ کے ماہرین نے بتایا کہ مقبرہ تقریباً 2 ہزار سال پرانا ہے۔

    آثار قدیمہ کے ماہرین نے بتایا کہ مقبرہ اس وقت دریافت ہوا جب اکتوبر میں اسمگلرز غیر قانونی طور پر نوادرات کے حصول کے لیے کھدائی کر رہے تھے۔

    آثار قدیمہ کی سپریم کونسل کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے بتایا کہ برآمد ہونے والا مقبرہ بہت خوب صورت اور رنگ برنگا ہے جو اب تک ہونے والی کئی دریافتوں کے مقابلے میں زیادہ قابل توجہ ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل مصر کے جنوبی علاقے سقارہ کے قریب مقبروں سے 6 ہزار برس پرانی درجنوں بلیوں اور بھنوروں کی حنوط شدہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں۔

  • ارجنٹینا: تین کروڑ سال قدیم دیو قامت ڈائنا سارز کی باقیات دریافت

    ارجنٹینا: تین کروڑ سال قدیم دیو قامت ڈائنا سارز کی باقیات دریافت

    ارجنٹینا: ماہرینِ آثار قدیمہ نے ارجنٹینا کے شمال مغربی حصے میں نئی قسم کے دیو قامت ڈائنا سارز کی باقیات دریافت کرلی ہیں جسے انھوں نے انجینٹیا پرائما کا نام دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ارجنٹینا میں ماہرینِ آثار قدیمہ کو چار ڈھانچے ملے ہیں، جن میں سے تین ڈھانچے ایک ہی قسم کے ڈائنا سارز سے تعلق رکھتے ہیں۔

    معدوم حیوانات کے ماہرین نے اس دریافت سے ڈائنا سارز کے متعلق نئی معلومات حاصل کرلی ہیں، ان کے مطابق نئی دریافت نے دیو قامت جانوروں کے بڑھنے سے متعلق نئے شواہد مہیا کیے۔

    سائنسی جریدے نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن کے مطابق ارجنٹینا میں پہلی بار کسی دیو قامت ڈائنا سار کی باقیات دریافت ہوئی ہیں، اسے انجینٹیا پرائما یعنی ’پہلا دیو قامت‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    ماہر معدوم حیوانات ڈاکٹر سیسیلا اپالڈیٹی کے مطابق یہ ڈائنا سارز تین کروڑ سال قدیم ہیں، یہ اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب لمبی گردن والے سبزی خور ڈیپلو ڈوکس اور براچیو سارز ہوا کرتے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دریافت ہونے والے ڈائنا سارز کا وزن 10 ٹن کے لگ بھگ رہا ہوگا، یہ زیادہ بڑے نہیں تھے اور ایک گروہ کی صورت میں رہا کرتے تھے، ان کی گردن دس میٹر تک لمبی تھی۔

    کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟


    ابتدا میں اس قسم کے ڈائنا سارز کے پیر چھپکلی کی طرح تھے، رفتہ رفتہ چار ٹانگوں والے جانور میں تبدیل ہوگئے اور کرۂ ارض کے سب سے بڑے جانور بن گئے۔

    ڈاکٹر سیسیلا اپالڈیٹی کے مطابق اس کے تیزی سے بڑے ہونے کی ایک اہم وجہ پرندوں جیسی سانس کی تھیلیاں تھیں جو بڑے جانوروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ضروری تھیں، ہڈیوں کے مشاہدے سے بھی معلوم ہوا کہ ان کی افزائش بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سرکپ، قدیم نوادرات کی چوری، تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ

    سرکپ، قدیم نوادرات کی چوری، تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ

    ٹیکسلا : عالمی ثقافتی ورثہ سے متعلق لاکھوں مالیت کے نوادرات چوری ہونے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جو اپنی رپورٹ محکمہ آثار قدیمہ کو پیش کرے گی.

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے سرکپ میں واقع اطلس مندر کے مشرقی حصے کی رہائشی عمارت کی باقیات سے گھاس ہٹانے کے دوران کچھ مزدوروں کو بالیاں، چوڑیاں، نِکل اور دیگر چھوٹے سونے کے زیورات ملے تھے جنہیں بعد ازاں غائب کردیا گیا تھا.

    تحقیقاتی کمیٹی ٹیکسلا کے جڑواں شہر کے طور پر مشہور سرکپ میں قائم میں عجائب گھر میں موجود 1980 میں ثقافتی تنظیم ( یونیسکو) کی جانب سے محفوظ قرار دیئے گئے ثقافتی ورثہ کی چوری ہونے اور ملزمان و ذمہ داروں کا تعین کرے گی.

    کمیٹی کے خدوخال کے حوالے سے تاحال کام جاری ہے تاہم کمیٹی کے سربراہ کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹرز میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا جس کے لیے کمیٹی کے آئینی جواز پر بھی کام کیا جا رہا ہے.

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکپ میں آثار قدیمہ کے نوادرات کو محفوظ کیا جانے کا کام جاری تھا تاہم تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس عمل کے دوران محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین موجود نہیں تھے، اس غفلت کا تعین کرنا بھی بہت ضروری ہے.

    دوسری جانب پولیس نے سرکپ میں نوادرات کو محفوظ بنانے کے دوران کام میں مشغول چھ مزدوروں کو حراست میں لے کر تفتیش کا عمل شروع کردیا ہے تاہم گرفتاری کے وقت مزدوروں سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی تھی.

    پولیس کا کہنا ہے کہ چوری شدہ نوادرات میں مختلف رنگوں کے پتھروں سے سے جڑے دیدہ زیب ہار، چوڑیاں اور دیگر نادر اشیاء شامل ہیں جو دوسری صدی عیسوی کی نایاب تخلیقات میں شامل ہوتی ہیں.

    یاد رہے کہ سرکپ کے کھنڈر کی کھدائی سر جان مارشل کے زیر سربراہی 1912  سے 1930 کے درمیان کی گئی تھی جب کہ قیام پاکستان سے دو سال قبل دوبارہ ان کھنڈرات کی کھدائی کی گئی جس میں مزید حصے دریافت کیے گئے تھے۔

    ماہرین تاریخ اور آثار قدیمہ کا غالب خیال ہے کہ سرکپ کا شہر یونانی و بکتری بادشاہ دیمیٹریوس نے ہندوستان پر حملہ کے بعد 180 قبل مسیح میں بسایا تھا جب کہ  کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شہر مینندر اول نے تعمیر کیا تھا۔

    تاریخی ورثہ کا یوں چوری ہوجانا غفلت اور لاپرواہی کی مثال ہی نہیں ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر ہماری بدنامی کا باعث بھی ہے چناچہ اس قبیح عمل کی مکمل تحقیقات کر کے ملزمان کو سخت سے سخت سزا دینا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔

  • خزانے کی تلاش میں آثار قدیمہ کھودنے والے 3 شہری گرفتار

    خزانے کی تلاش میں آثار قدیمہ کھودنے والے 3 شہری گرفتار

    ریاض: سعودی عرب میں مدفن خزانے کی تلاش کے لیے آثار قدیمہ کی کھدائی کرنے والے 3 شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا جو اب ممکنہ طور پر جیل کی ہوا کھائیں گے۔

    سعودی عرب کے کمیشن برائے سیاحت و قومی ثقافت کے مطابق چند دن قبل انٹرنیٹ پر جھوٹی خبر گردش کرنا شروع ہوئی کہ ریاست میں موجود آثار قدیمہ میں خزانے دفن ہوسکتے ہیں۔

    کمیشن نے پبلک وارننگ جاری کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ ان خبروں پر یقین کر کے خزانے کی تلاش میں آنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا کیونکہ یہ تاریخی و ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے۔

    ایک سعودی اخبار کے مطابق اس سلسلے میں حال ہی میں گرفتار کیے گئے تینوں شہریوں کو ریاست میں رائج قانون برائے تحفظ آثار قدیمہ کے تحت سزا دی جائے گی جس کے تحت کم سے کم 1 ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک سال کی قید ہو سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔