Tag: آرزو لکھنوی

  • "جہانِ آرزو” کے خالق آرزو لکھنوی کا تذکرہ

    "جہانِ آرزو” کے خالق آرزو لکھنوی کا تذکرہ

    اردو شاعری میں‌ غزل جیسی مقبول صنف کو ابتداً وارداتِ قلبی، وفورِ شوق اور کیفیات سے سجانے کے ساتھ داخلیت کو اہمیت دی جاتی تھی، اور استاد شعرا اپنے کلام کو تشبیہات و استعارات، رعایتِ لفظی اور معنی آفرینی سے انفرادیت عطا کرتے تھے۔ آرزو لکھنوی نے اسی دور میں خوش گوئی اور نازک خیالی سے غزل کو بڑا وقار بخشا۔

    نوعمری میں آرزو لکھنوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی شاعری تھا۔ شہر لکھنؤ‌ کی وہ خاص فضا جس میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے اور زبان و ادب کے بلند قامت نام ان کا حصّہ بنتے، اور اس پر آرزو کے گھر کا ادبی ماحول۔ سیّد انوار حسین نے شاعری شروع کی تو خود کو آرزو لکھنوی کہلوانا پسند کیا۔ یہی اردو شاعری میں ان کی پہچان اور شناخت بنا۔ تقسیم کے بعد آرزو پاکستان ہجرت کرکے آگئے تھے اور یہاں 16 اپریل 1951 کو ان کا انتقال ہوا۔

    آرزو لکھنوی نے غزل کہی اور خوب کہی۔ اس کے ساتھ انھوں نے فلمی گیت نگاری بھی کی۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔ آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آرزو لکھنؤ نے وہاں قیام کے دوران فلموں کے لیے کام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    آج اردو کے معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات ہے۔ 16 اپریل 1951ء کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے اس شاعر نے اپنے دور میں روایت سے ہٹ کر اپنے کلام کو نہ صرف رعایتِ لفظی، تشبیہات اور خوب صورت استعاروں سجایا بلکہ ‌نکتہ آفرینی کے سبب اپنے عہد کے منفرد اور مقبول شاعر کہلائے۔

    اردو کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا علم و ادب اور شاعری تھا۔

    آرزو نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ سخن تھی جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا، بعد میں نثر میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ریڈیو کے لیے چند ڈرامے جب کہ فلموں کے مکالمے بھی لکھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزلیں ہیں۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے