Tag: آرمینیا

  • پاکستان نے آذربائیجان آرمینیا جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دے دیا

    پاکستان نے آذربائیجان آرمینیا جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دے دیا

    اسلام آباد: پاکستان نے آذربائیجان آرمینیا جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے آذربائیجان اور آرمینیا جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

    ترجمان نے کہا فریقین انسانیت دوست اقدامات پر متفق ہوئے ہیں جن کا احترام کیا جائے گا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مؤثر عمل درآمد پر منحصر ہے۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد آذربائیجان سے آرمینین افواج کا مکمل انخلا ہے، پاکستان اس معاملے میں آذربائیجان کے شانہ بشانہ کھڑا رہےگا۔

    آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق

    یاد رہے کہ روس کی کوششوں کے بعد دو دن قبل مسلم اکثریتی آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا دو ہفتوں کی شدید جھڑپوں کے بعد مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے تھے، روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

    گزشتہ روز روسی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ نگورنو کاراباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے، دونوں ممالک جنگ بندی معاہدے پر آج (گزشتہ روز) سے عمل کریں گے۔

    دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات روسی دارالحکومت میں ہوئے تھے، وزیر خارجہ روس کا کہنا تھا کہ تنازع کی جزیات طے کرنے کے لیے دونوں ممالک میں بات چیت جاری ہے۔

    آذربائیجان نے آرمینیا سے آزاد کرائے گئے علاقوں‌ پر اپنا پرچم لہرا دیا

    واضح رہے کہ تین دن قبل اسلام آباد میں آذربائیجان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشنز سمیر گلئیوف نے کہا تھا کہ آرمینیا نے پہلے جنگ کا آغاز کیا جس کے بعد ہم نے جوابی کارروائی کی۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ آرمینیا نے بیرون ممالک سے آئے دہشت گردوں کو مسلح کر کہ محاذ پر بھیجنا شروع کر دیا ہے، جب کہ آذربائیجان صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔

    ادھر دو دن قبل آذربائیجان نے متنازعہ ریجن نگورنوکاراباخ کے مزید علاقوں کا کنٹرول حاصل کر کے وہاں اپنا قومی پرچم لہرا دیا تھا۔

  • آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق

    آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق

    ماسکو: روس نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنو کاراباخ میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ نگورنو کاراباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے، دونوں ممالک جنگ بندی معاہدے پر آج سے عمل کریں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات روسی دارالحکومت میں ہوئے تھے، وزیر خارجہ روس کا کہنا ہے کہ تنازع کی جزیات طے کرنے کے لیے دونوں ممالک میں بات چیت جاری ہے۔

    واضح رہے کہ روس کی کوششوں کے بعد گزشتہ روز مسلم اکثریتی آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا دو ہفتوں کی شدید جھڑپوں کے بعد مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے تھے، روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

    آذربائیجان نے آرمینیا سے آزاد کرائے گئے علاقوں‌ پر اپنا پرچم لہرا دیا

    یاد رہے کہ دو دن قبل اسلام آباد میں آذبائیجان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشنز سمیر گلئیوف نے کہا تھا کہ آرمینیا نے پہلے جنگ کا آغاز کیا جس کے بعد ہم نے جوابی کارروائی کی۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ آرمینیا نے بیرون ممالک سے آئے دہشت گردوں کو مسلح کر کہ محاذ پر بھیجنا شروع کر دیا ہے، جب کہ آذربائیجان صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔

    گزشتہ روز آذربائیجان نے متنازعہ ریجن نگورنوکاراباخ کے مزید علاقوں کا کنٹرول حاصل کر کے وہاں اپنا قومی پرچم لہرا دیا تھا۔

  • آرمینیا اور آذربائیجان مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے

    آرمینیا اور آذربائیجان مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے

    ماسکو: مسلم اکثریتی آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا دو ہفتوں کی شدید جھڑپوں کے بعد مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان روس کے دارالحکومت ماسکو میں مذاکرات میں شرکت کے لیے تیار ہو گئے ہیں، غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

    ان مذاکرات کے لیے آرمینیا اور آذر بائیجان کے وزرائے خارجہ ماسکو آئیں گے، خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 2 ہفتے سے متنازع علاقے کاراباخ پر کشیدگی جاری ہے۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل اسلام آباد میں آذبائیجان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشنز سمیر گلئیوف نے کہا تھا کہ آرمینیا نے پہلے جنگ کا آغاز کیا جس کے بعد ہم نے جوابی کارروائی کی، آرمینیائی جارحیت سے اب تک 31 شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، ہم نے گزشتہ 10 روز میں 1 شہر سمیت 26 علاقوں کو فتح کیا۔

    آذربائیجان کے ہاتھوں آرمینیائی فوج کی پسپائی، 10 روز میں 26 علاقے فتح

    انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آرمینیا نے بیرون ممالک سے آئے دہشت گردوں کو مسلح کر کہ محاذ پر بھیجنا شروع کر دیا ہے، جب کہ آذربائیجان صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔

    ملٹری اتاشی نے کرنل مہمان نوروز نے بتایا کہ 5 اکتوبر کو آرمینیا نے سمرچ اور توچکا میزائل سے آذربائیجان کے علاقوں کو نشانہ بنایا، ہم اب بھی گولہ باری کرنے والی آرمینیائی افواج کی چوکیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘۔

    کرنل مہمان نوروز کا کہنا تھا کہ آرمینیا اپنی شکست دیکھ کر گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے، اُس نے جنگ میں پاکستان اور ترکی کے ملوث ہونے کی افواہ پھیلائی اور دعویٰ کیا کہ 30 ہزار فوجی آذربائیجان کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں جب کہ یہ بھی کہا گیا کہ ترکی کا فضائیہ بھی جنگ میں شامل ہے۔

  • ترک صدر کا آرمینیا آذربائیجان جنگ کے حوالے سے اہم بیان

    ترک صدر کا آرمینیا آذربائیجان جنگ کے حوالے سے اہم بیان

    قونیہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کھل کر کہا ہے کہ جب تک کاراباخ آرمینیائی قبضے سے آزاد نہیں ہوتا، آذربائیجان کی جدوجہد جاری رہے گی اور ترکی اپنے دوست ملک کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک صدر نے قونیا سٹی اسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ کارا باخ کا مسئلہ حل نہ ہونے پر آرمینیا نے ایک بار پھر آذربائیجان پر حملہ کر دیا لیکن اس بار انھیں غیر متوقع نتیجے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    اردوان نے کہا برادر ملک آذربائیجان نے آرمینیا کے زیر قبضہ کارا باخ کو بچانے کے لیے ایک عظیم تحریک شروع کی ہے، آذربائیجانی فوج نے بڑی کامیابی سے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے بہت سے مقامات کو آزاد کروا لیا ہے۔

    انھوں نے کہا ہم اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اپنے برادر اور دوست ملک آذربائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے، یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کارا باخ کو آزاد نہیں کروا لیا جاتا۔

    آرمینیا کی فوج کو پسپائی کا مزا چکھا کر دم لیں گے: آذربائیجان

    یاد رہے کہ گزشتہ روز آذربائیجان کے صدر نے کہا تھا کہ اگر آرمینیا کی حکومت مکمل انخلا کے ہمارے مطالبے کو پورا کرتی ہے تو جنگ اور خوں ریزی ختم ہو جائے گی اور خطے میں امن قائم ہوگا۔

    واضح رہے کہ مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے مابین ہونے والی جھڑپیں 1918 سے جاری تنازعے کی وجہ سے ہیں۔ ان وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان جاری کشیدگی سوویت یونین سے جڑی ہوئی ہے، ماضی میں نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر دونوں ممالک میں جھڑپیں ہو چکی ہیں جس کے باعث ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔

    گزشتہ کچھ دنوں سے ایک بار پھر آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں جن کے نتیجے میں اب تک 100 کے قریب سویلین و فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔

  • آرمینیا کی فوج کو پسپائی کا مزا چکھا کر دم لیں گے: آذربائیجان

    آرمینیا کی فوج کو پسپائی کا مزا چکھا کر دم لیں گے: آذربائیجان

    باکو: آذربائیجان نے کہا ہے کہ وہ آرمینیا کی فوج کو پسپائی کا مزا چکھا کر دم لیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آذر بائیجان نے متنازعہ علاقے کازباخ سے آرمینیا کی فوج کی مکمل پسائی تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    آذربائیجان کے صدر الہام علی اف نے کہا ہے کہ ہماری صرف ایک شرط ہے کہ آرمینیا کی مسلح افواج غیر مشروط، مکمل اور فوری طور پر ہماری سرزمین خالی کر دیں۔

    آذربائیجان کے صدر نے کہا اگر آرمینیا کی حکومت مکمل انخلا کے ہمارے مطالبے کو پورا کرتی ہے تو جنگ اور خوں ریزی ختم ہو جائے گی اور خطے میں امن قائم ہوگا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل آذربائیجان کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ باکو اپنے علاقے میں مسلط کی گئی جارحیت کے خاتمے، مکمل خود مختاری کے حصول اور امن کی بحالی تک جوابی وار جاری رکھے گا۔

    ادھر دونوں ممالک مذاکرات کے لیے پڑنے والے دباؤ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

    آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جاری تنازع کب شروع ہوا؟

    واضح رہے کہ مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے مابین ہونے والی جھڑپیں 1918 سے جاری تنازعے کی وجہ سے ہیں۔ ان وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان جاری کشیدگی سوویت یونین سے جڑی ہوئی ہے، ماضی میں نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر دونوں ممالک میں جھڑپیں ہو چکی ہیں جس کے باعث ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔

    نگورنو کاراباخ کے علاقے کو سوویت حکمرانوں نے 1923 میں آذربائیجان کا حصّہ بنا دیا تھا تاہم جیسے ہی سوویت یونین کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی، آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین مذکورہ خطے پر حکمرانی کے لیے جنگ شروع ہوگئی۔

    دونوں ممالک کے درمیان 1988 سے 1994 تک ہونے والی 6 سالہ خوں ریز جنگ کے دوران 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے باعث نگورنو کاراباخ کے مکینوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی تھی۔

    آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنو کاراباخ ریجن کے معاملے پر 12 جولائی 2020 سے کشیدگی جاری ہے، یہ بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے میں شدید جھڑپیں جاری ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 100 کے قریب سویلین و فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔

  • آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان وسیع پیمانے پر جنگ کا خطرہ

    آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان وسیع پیمانے پر جنگ کا خطرہ

    آذربائیجان:  آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان وسیع پیمانے پر جنگ کا خطرہ ہے ، شدید جھڑپوں میں بتیس افراد ہلاک ہوگئے، آذربائیجان نے آرمینیا کو جنگ بندی کی حتمی وارننگ دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان کی افواج آمنے سامنے ہیں ، متنازع علاقے نگورنو کارا باخ میں شدید جھڑپیں جاری ہے ، آرمینیا کی شہری علاقوں پر گولہ باری سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ آرمینیا نے آذربائیجان کا ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔

    آذربائیجان نے جوابی کارروائی میں میں آرمینی فوجی تنصیبات، اینٹی ائیرکرافٹ، میزائل سسٹم اورفوجی گاڑیوں کو تباہ کرنے کے علاوہ چھ دیہات آزاد کرانے کا دعویٰ کیا ہے، دونوں ممالک کی افواج میں جھڑپوں میں ٹینکوں اور میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔

    وزارت دفاع آذربائیجان کا کہنا ہے کہ آذربائیجان اورآرمینیا کی جھڑپوں میں32 آرمینائی فوجی ہلاک ہوئے ، آرمینیا فورسزنےآذربائیجان کےعلاقے ترتر پرشیلنگ کی۔

    آذربائیجان نےآرمینیاکوجنگ بندی کی حتمی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرمینیا ترتر کےعلاقے میں شہری آبادیوں پر حملے فوری بند کرے۔

    پاکستان نے آرمینیا کی افواج کی آذربائیجان پر گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میں کاراباخ کےحل کے لیے منظور قراردادوں کی روشنی میں پاکستان آذربائیجان کے موقف کا حامی ہے۔

    ترک صدر نے آرمینیا کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے آذربائیجان کے ہم منصب الہام علی یوف کو فون کرکے ہر ممکن مدد کا اعلان کردیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ،یورپی یونین، روس اورایران نےجنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

  • بچے فروخت کرنے والے منظم نیٹ ورک کا انکشاف، ہسپتال بھی ملوث

    بچے فروخت کرنے والے منظم نیٹ ورک کا انکشاف، ہسپتال بھی ملوث

    یروان: سابق سوویت یونین کے ملک آرمینیا میں بچے فروخت کرنے والے ایک منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہونے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    رواں برس نومبر میں آرمینیا کی سیکیورٹی فورسز نے ایک ایسے گروہ کی نشاندہی کی تھی جو بچے فروخت کرنے کے مذموم دھندے میں ملوث تھا اور حکام کے مطابق یہ کام کئی برسوں سے ان کی ناک کے نیچے جاری تھا۔

    جب اس بارے میں تفتیش ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ملک کے کئی اداروں کے اعلیٰ حکام بھی اس کام میں ملوث تھے جن میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار، پولیس افسران، میٹرنٹی ہومز میں کام کرنے والے ملازمین و انتظامیہ اور ملک میں جا بجا قائم یتیم خانوں کی انتظامیہ شامل ہے۔

    اس گروہ کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب انہوں نے 30 نومولود بچے ایک ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کو گود دلوائے۔

    اب تک اس اسکینڈل میں ملوث ملک کی ایک معروف گائنا کالوجسٹ، ایک یتیم خانے کے سربراہ اور دیگر حکام کو پکڑا گیا ہے جو سالوں سے اس مذموم فعل میں مصروف تھے۔

    آرمینیا کے وزیر اعظم نے اس معاملے کی مؤثر اور مکمل تفتیش کا حکم دیا ہے۔ حکام کے ساتھ ایک میٹنگ میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو انہوں نے بھرپور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس طرح کا کوئی گروہ کیسے پھل پھول سکتا ہے۔

    تفتیش میں انکشاف ہوا کہ اس گروہ کے ارکان نے ابارشن کی خواہشمند خواتین کو مجبور کیا کہ وہ بچے کو جنم دیں اور بعد ازاں اسے ایڈاپشن کے لیے دے دیں۔

    آرمینیا کی نائب وزیر برائے لیبر کا کہنا ہے کہ حکام اس کیس کی ہر پہلو سے چھان بین کر رہے ہیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ مقامی افراد سے زیادہ غیر ملکیوں کو بچے فروخت کیے گئے جس کے بعد تفتیش کا دائرہ دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے۔

    اس گروہ کی گرفتاری کی خبروں کے بعد اب تک کئی مائیں سامنے آئی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے نومولود بچے ان سے چھینے گئے یا انہیں غائب کردیا گیا۔

    ایسی ہی ایک 35 سالہ ماں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 16 سال کی عمر میں انہوں نے ایک ناجائز تعلق کے نتیجے میں ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ ان کی بیٹی کی پیدائش اسی گائناکالوجسٹ کے ہاتھوں ہوئی جو اب پولیس کی حراست میں ہے۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ گائنا کالوجسٹ اور اس کے ساتھ مل کر دیگر افراد نے انہیں دھمکیاں دیں کہ وہ بچی کے باپ کو پولیس کے حوالے کردیں گے۔ ’انہوں نے زبردستی مجھ سے ایک دستاویز پر دستخط لیے جس کے مطابق میں نے اپنی مرضی سے اپنا بچہ ایڈاپشن کے لیے ان کے حوالے کردیا‘۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ 3 دن بعد گھر جانے کے لیے جب انہوں نے اپنی بیٹی کو ساتھ لینا چاہا تو انہیں علم ہوا کہ وہ میٹرنٹی وارڈ سے غائب ہوچکی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کو ایک یتیم خانے میں بھیج دیا گیا ہے، تاہم انہیں اس یتیم خانے میں اپنی بیٹی کا کوئی سراغ نہیں ملا، ’مجھے یقین ہے کہ اسے اسپتال سے ہی فروخت کیا جاچکا تھا‘۔

    کیس میں متاثرین کی حیثیت سے پیش ہونے والی خواتین میں سے ایک کے وکیل کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عہدیداران اور پولیس افسران کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ نیٹ ورک منشیات فروشی کے مافیاز سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

    ان کے مطابق اس نیٹ ورک نے ملک کو ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں بچے پیدا کر کے دوسری جگہوں پر فروخت کیے جائیں۔

    غیر ضروری یتیم خانے

    اس اسکینڈل نے ایک طرف تو ملک بھر میں اشتعال کی لہر دوڑا دی ہے، تو دوسری طرف عوام کے اس مطالبے کو بھی تقویت دی ہے جس میں لوگ ملک میں جابجا کھلے یتیم خانوں کے خلاف ہیں۔

    ان یتیم خانوں کا مصرف سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہاں غیر ضروری طور پر بچوں کو لا کر رکھا جاتا ہے کیونکہ والدین غربت یا معذوری کے سبب اپنے پیدا ہونے والے بچوں کو ان یتیم خانوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔

    ایک طویل عرصے سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سنہ 2023 تک ان یتیم خانوں کو بند کر کے یہاں موجود بچوں کو ان کے والدین کو واپس لوٹا دیا جائے۔

    سنہ 2017 میں ہیومن واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان یتیم خانوں میں غیر ضروری طور پر پلنے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان میں سے 90 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں سے کوئی ایک زندہ موجود ہے۔

    اسی طرح 70 فیصد بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں اور ان کے والدین کا انہیں یہاں چھوڑ دینا نہایت ظالمانہ اور غیر انسانی فعل قرار دیا جاتا ہے۔