Tag: آرٹ

  • بابرکا سب سے بڑا آرٹ کیا ہے جو دوسرے پلیئرز میں نہیں! امام نے بتا دیا

    بابرکا سب سے بڑا آرٹ کیا ہے جو دوسرے پلیئرز میں نہیں! امام نے بتا دیا

    امام الحق نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم کے بہت بڑے آرٹ کے بارے میں بتادیا جس کی وجہ سے انھیں رنز بنانے میں مدد ملتی ہے۔

    پاکستان ٹیم کے اوپنر نے نجی اسپورٹس چینل سے گتفگو کرتے ہوئے بتایا کہ بابر کی سب سے اچھی چیز یہ ہے ک اسے خود پر یقین بہت ہے، اسے پتا ہے کہ میں کسی بھی صورتحال سے خود کو نکال لوں گا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کنڈیشنز کے باعث آپ کو رنز نہیں مل رہے ہوتے۔

    ایسی صورتحال میں نارمل پلیئرز کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور وہ گھبرا جاتا ہے کہ میں ایسے بھی کرلوں اور وہ بھی کر لوں مگر بابر ایسا نہیں کرتا وہ پرسکون رہتا ہے۔

    امالحق نے کہا کہ یہ بابر اعظم کا بہت بڑا آرٹ ہے اور یہ آسان کام نہیں ہے۔ شروع شروع میں اس کی کپتانی کی صلاحتیوں پربھی شک کیا گیا، یہ کہا گیا کیا کہ یہ تو خود غرض ہے مگر آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کس کنڈیشنز میں کھیل رہے ہیں۔

    انھوں نے قومی کپتان کے حوالے سے مزید کہا کہ اس کی بہت ساری چیزیں اچھی ہیں جو بہت سے لوگوں کو نہیں پتا چلے گا لیکن میں نے اس کے ساتھ بہت بیٹنگ کی ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اسے خاص ٹیلنٹ سے نوازا ہے۔

    امام الحق نے گزشتہ ایشیا کپ میں کے ایل راہول کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی بیٹر نے 73 بولز پر 50 رنز بنائے اگر ہمارا پلیئرز ایسا کرتا تو ہم کہتے کہ یہ خود غرض ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کس کنڈیشن میں کھیل رہے ہیں۔

    پاکستانی بیٹر نے کہا کہ قومی کپتان نے بہت کچھ حاصل کیا ہے وہ اپنی کرکٹ میں کافی عاجزی کا مظاہر کرتا ہے میں نے اس سے سیکھا بھی بہت ہے اور بیٹنگ میں اور بطور کپتان اس کی ٹرانسفارمیشن بھی دیکھی ہے۔

  • اخروٹ کے چھلکے میں حیرت کا ننھا سا جہاں آباد

    اخروٹ کے چھلکے میں حیرت کا ننھا سا جہاں آباد

    چینی فنکار نے اپنے انوکھے فن کے ذریعے اخروٹ کے چھلکے کے اندر پوری دنیا بسا دی۔

    چین کے صوبے ہنان سے تعلق رکھنے والا یہ فنکار منی ایچر آرٹسٹ ہے یعنی ننھے منے شاہکار بنا دیتا ہے۔

    وہ نہایت مہارت سے اخروٹ کے چھلکے کے اندر مختلف شاہکار تخلیق کرتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آرٹسٹ نے پہلے اخروٹ کو تراشا اور پھر اس میں اپنی شاندار تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

    اس سے پہلے اس نے اخروٹ کے دونوں چھلکوں کو اسکرو کی مدد سے جوڑا۔

    فنکار نے اخروٹ کے اندر لائبریری، کارٹون، فیری ٹیل، گھر کا کچن اور گارڈن بنایا، اس کے علاوہ اس نے اندر روشنیوں کا بھی استعمال کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sputnik Türkiye (@sputnik_turkiye)

     

  • فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    امریکی مصنفہ مشل سی ہل سٹورم نے لکھا ہے، درد یا تکلیف، تخیل اور فن کو بڑھاوا دیتا ہے، جو اپنے درد کو گلے لگاتا ہے، وہ اپنے فن کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

    دنیا میں جتنے بھی فنکار گزرے، ان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی دکھ ایسا ضرور تھا جس نے پوری زندگی انہیں بے چین اور مضطرب رکھا، اور اسی درد، بے چینی اور اضطراب نے انہیں فن کی کسی نہ کسی جہت کی عروج پر پہنچا دیا۔

    میکسیکن آرٹسٹ فریڈا کاہلو کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی گزری جس نے اسے برش اور رنگوں سے جوڑ دیا، اور آج اسے ایک ایسی مصورہ قرار دیا جاتا ہے، جس نے مصوری میں نئی جہت پیش کی۔

    فریڈا 6 جولائی 1907 کو میکسیکو میں پیدا ہوئی، 6 برس کی عمر میں وہ پولیو وائرس کا شکار ہوگئی اور بیماری کے حملے کے باعث وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی۔ پولیو نے اسے کم عمری میں معذوری کا شکار بنا دیا۔

    ایک یہی بیماری کافی نہ تھی کہ سنہ 1925 میں 18 برس کی عمر میں فریڈا بس میں سفر کے دوران ایک ہولناک حادثے کا شکار ہوئی، اس حادثے میں وہ مرتے مرتے بچی لیکن اس کی ریڑھ، کولہے، کندھے اور پاؤں کی ہڈیاں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ساری عمر ان کے درد میں مبتلا رہی۔

    اس ایکسڈنٹ کے بعد بھی وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی، اس دوران اس نے مصوری کے لیے ایک ایزل اپنے بستر کے قریب رکھ لیا اور مصوری کی مختلف تکنیکوں پر کام کرنے لگی۔

    پہلا سیلف پورٹریٹ ۔ سنہ 1926

    صحت یابی کے بعد اس نے باقاعدہ مصوری شروع کردی، اور وہ کہتی تھی کہ مصوری نے میری زندگی کو مکمل کیا۔ اس نے اپنے قریبی دوستوں، اہل خانہ اور مختلف اشیا کی تصاویر بنانی شروع کیں لیکن جس چیز نے دنیا کی توجہ حاصل کی، وہ اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    فریڈا نے نہ صرف زندگی کے ہر رنگ، اور خود پر گزرنے والے ہر غم، دکھ درد اور خوشی کے جذبے میں اپنی تصویر کشی کی بلکہ لاشعور سے شعور میں آنے والے ہر بے ربط خیال میں بھی خود کو پیش کیا۔

    اپنے پہلے سیلف پورٹریٹ میں فریڈا نے خود کو سرخ مخملی لباس میں ملبوس دکھایا۔

    19 سال کی عمر میں فریڈا کے پہلے پورٹریٹ کو ایک عام سی نوعمر لڑکی کا شوخ و چنچل تخیل تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کم عمری میں وہ بہت سی تکالیف جھیل چکی تھی لیکن اس کا مخملی سرخ لباس نوعمری کی خواہشات کا جھلک ضرور دکھاتا ہے۔

    فریڈا زندگی بھر جسمانی تکالیف کا شکار رہی، اور اس سے عارضی نجات کے لیے اس نے آرٹ میں پناہ ڈھونڈ لی تھی۔ اس نے 200 کے قریب پینٹنگز بنائیں، جن میں سے 55 اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    وہ کہتی تھی کہ میں خود کو اس لیے پینٹ کرتی ہوں کہ کیونکہ میں تنہا ہوں، کیونکہ یہ وہ واحد انسان ہے جسے میں سب سے اچھی طرح جانتی ہوں۔

    دو فریڈا ۔ سنہ 1939

    اس کی تصاویر میں ایک طرف تو عام زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نہایت شوخ رنگوں میں دیکھنے کو ملتیں، (غالباً اپنی تکلیف دہ زندگی کو رنگین اور خوبصورت بنانے کی خواہش اس نے اپنی پینٹنگز میں پوری کی)، تو دوسری طرف اس نے غیر حقیقی خیالات یا سریئلزم بھی اپنی تصاویر میں پیش کیا۔

    تاہم اس کا سریئلزم دیگر مصوروں کی طرح بالکل ہی غیر حقیقی اور بے ربط نہیں تھا، بلکہ اس کی زندگی کے تجربات پر ہی مشتمل تھا۔

    اس بارے میں وہ کہتی تھی، کہ مجھے سریئلسٹ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ میں نہیں ہوں، میں خواب پینٹ نہیں کرتی، میں اپنی حقیقت پینٹ کرتی ہوں۔

    فریڈا کو اپنی میکسیکن شناخت اور ثقافت سے بے حد محبت تھی، چنانچہ اس نے اپنی ہر پینٹنگ میں میکسیکن ثقافت کو، اور اپنے ہر سیلف پورٹریٹ میں خود کو روایتی میکسیکن لباس میں پینٹ کیا۔

    سنہ 1929 میں فریڈا نے اس وقت کے معروف میکسیکن مصور ڈیاگو رویرا سے شادی کی۔ یہ تعلق فریڈا کے لیے نہایت ہنگامہ خیز اور اونچ نیچ کا شکار رہا۔ ڈیاگو، فریڈا سے عمر میں خاصا بڑا تھا لیکن دونوں کے نظریات و خیالات ملتے تھے۔

    دونوں نے ایک ساتھ دنیا کا سفر کیا اور اس دوران بہترین پینٹنگز تخلیق کیں، دونوں کمیونسٹ سیاست میں بھی خاصے سرگرم تھے، لیکن ڈیاگو ایک مشکل شخص تھا۔

    فریڈا کاہلو اور ڈیاگو رویرا ۔ ڈیاگو کی بے وفائی فریڈا کی زندگی کا ایک اور دکھ تھا

    دونوں کی شادی 10 سال کا عرصہ چلی جس کے بعد دونوں الگ ہوگئے، لیکن ایک سال بعد ہی دونوں نے دوبارہ شادی کرلی اور پھر یہ تعلق فریڈا کی موت تک قائم رہا، تاہم اس دوران ڈیاگو کی بے وفائی اور بے التفاتی نے فریڈا کو بے حد جذباتی نقصان پہنچایا۔

    اس کے پورٹریٹس، جو اس کے دکھوں کا آئینہ ہیں، اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ڈیاگو سے محبت نے اسے توڑ دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اس سے محبت کیے جارہی تھی۔

    وہ کہتی تھی، ڈیاگو کی بیوی ہونا ایک حیرت انگیز تجربہ ہے، اگرچہ وہ کسی ایک کا ہو کے نہیں رہ سکتا، پھر بھی وہ بہت اچھا ساتھی ہے۔

    اس کی دا ٹو فریڈاز نامی پینٹنگ اسی دکھ کی جھلک دکھلاتی ہے جو اس نے اپنی طلاق کے بعد بنائی۔

    اس پینٹنگ میں 2 فریڈا موجود ہیں، ایک فریڈا کا دل زخمی ہے جس سے رستا خون اس کے روایتی لباس کو رنگین کر رہا ہے، یہ فریڈا ایک تکلیف دہ ماضی کا اشارہ ہے۔ دوسری فریڈا جدید لباس میں صحت مند حالت میں ہے جس کے ہاتھ میں ڈیاگو کی ننھی سی تصویر ہے۔

    یہ تصویر اس کی شخصیت اور اس کی خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ڈیاگو سے محبت کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک دیکھنا چاہتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس محبت سے نہایت اذیت میں ہے۔

    یہ پینٹنگ اس کی انفرادیت، خود مختاری اور جذباتی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش، اور اصل میں اس کے ٹوٹ جانے اور محبت میں کسی پر منحصر ہوجانے کی حقیقت کی تصویر ہے۔

    ود آؤٹ ہوپ ۔ سنہ 1945

    فریڈا کی جسمانی خستہ حالی نے اسے زندگی بھر اذیت میں رکھا، 47 سال کی عمر میں موت تک اس کے 30 آپریشن ہوچکے تھے۔ سنہ 1944 میں وہ ایک نہایت تکلیف دہ آپریشن سے گزری جس کی کامیابی سے اس کی صحت یابی کی کچھ امید تھی، لیکن یہ آپریشن ناکام ہوگیا۔

    اس تکلیف کا اظہار فریڈا نے دا بروکن کالم نامی ایک پورٹریٹ پینٹ کر کے کیا، اس پینٹنگ میں فریڈا کے جسم میں جابجا میخیں گڑی ہوئی دکھائی گئیں جو اس کے درد اور اذیت کی طرف اشارہ ہے۔

    ایک اور پینٹنگ ود آؤٹ ہوپ میں اس نے خود کو ہر امید سے مایوس قرار دیا۔ اس پینٹنگ میں وہ اسپتال کے بستر پر ہے جو اس کا تکلیف دہ ساتھی بن چکا ہے۔

    وہ کہتی تھی، تکلیف، خوشی اور موت، کسی وجود کے نمو پاتے رہنے کا حصہ ہے۔ اس عمل سے جدوجہد کرتے اور گزرتے رہنا عقل و خرد کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔

    فریڈا سنہ 1954 میں 47 سال کی عمر میں چل بسی، زندگی بھر جس طرح وہ غم و اندوہ اور تکلیف کا شکار رہی، موت یقیناً اس کے لیے جائے پناہ تھی، اور خود اس نے موت کے لیے کہا تھا، مجھے امید ہے کہ روانگی کا سفر خوش کن ہو، اور مجھے امید ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی واپسی نہ ہو۔


    مواد اور تصاویر بشکریہ:
    www.fridakahlo.org

  • سعودی حکومت کی مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم ہدایت

    سعودی حکومت کی مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم ہدایت

    ریاض: سعودی حکومت نے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے سرکاری اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں غیر ملکی فنکاروں کی جگہ مقامی فنکاروں کے تیارہ کردہ فن پارے آویزاں کرے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی حکومت نے تمام سرکاری اداروں کو ہدایت دی ہے کہ کوئی بھی وزارت یا محکمہ اپنے صدر دفتر میں غیر ملکی فن کاروں کے شہ پارے نہ سجائے۔

    یہ ہدایت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی درخواست پر شاہ سلمان نے جاری کی ہے۔

    تمام سرکاری اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ صرف سعودی فنکاروں کے شہ پارے ہی آویزاں کریں اور غیر ملکی فن کاروں کی تخلیقات نہ سجائیں۔

    اس سے قبل سعودی کابینہ نے وزارت ثقافت کو ہدایت دی تھی کہ وہ سعودی فن کاروں کے شہ پاروں کا ریکارڈ تیار کرے اور تمام سرکاری اداروں کو ان سے متعارف کروانے کا اہتمام بھی کیا جائے۔

    سعودی حکومت قومی ثقافت کو متعارف کروانے اور دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی پالیسی بنا چکی ہے۔

    اس مقصد کے لیے وزارت ثقافت قائم کی گئی ہے، وزارت ثقافت نے سعودی فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور مقامی شہریوں کو غیر ملکیوں کے فن پاروں کے سحر سے نکالنے کی مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔

  • دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    فرانس میں ایک مصور کی حقیقت سے قریب ترین پینٹنگز نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مصور نے تھری ڈی تصاویر بنا کر متروکہ اور ویران مقامات میں پھر سے نئی زندگی جگا دی۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں نرمی کیے جانے کے بعد لوگوں نے پھر سے گھروں سے نکلنا شروع کردیا ہے، ایسے میں ایک مصور نے متروک شدہ اور ویران مقامات پر اپنے ہنر کا جادو جگانا شروع کردیا۔

    فرانس سے تعلق رکھنے والے اس مصور کی مہارت، صفائی اور خوبصورتی سے بنائی اس کی پینٹنگز میں جھلکتی ہے جس میں سبجیکٹ کی ایک ایک شے نہایت تفصیل سے بیان کی جاتی ہے۔

    مصور نے شہر کی دیواروں پر جا بجا اپنے فن کا جادو جگایا ہے جو دیواروں سے زندہ ہو کر باہر آتا محسوس ہوتا ہے اور راہ چلتے افراد اسے داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

    آپ بھی اس باکمال مصور کی شاندار تصاویر دیکھیں۔

  • لاک ڈاؤن کے دوران وین گوف کی بیش قیمت پینٹنگ چوری

    لاک ڈاؤن کے دوران وین گوف کی بیش قیمت پینٹنگ چوری

    ایمسٹرڈیم: کرونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر چور ایک میوزیم سے شہرہ آفاق مصور وین گوف کی لاکھوں ڈالر مالیت کی پینٹنگ لے اڑے۔

    ونسنٹ وین گوف کے فن پارے کی چوری ایمسٹرڈیم کے قریب واقع ایک میوزیم سنگر لارین سے ہوئی۔ پولیس کے مطابق چور صبح ساڑھے 3 بجے میوزیم کا ایک شیشہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور بیش قیمت فن پارہ لے اڑے۔

    اس فن پارے کی قیمت اندازاً 66 لاکھ ڈالر بتائی جارہی ہے۔ واقعے کی خبر ہوتے ہی پولیس فوراً موقع پر پہنچی تاہم چور تب تک فرار ہوچکا تھا۔

    میوزیم کے ڈائریکٹر جان رالف نے اس واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آرٹ دیکھنے، لطف اندوز ہونے اور سکون حاصل کرنے کے لیے ہے خصوصاً آج کل کے کٹھن حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے

    ان کے مطابق یہ فن پارہ شمالی نیدر لینڈز کے ایک اور میوزیم سے لا کر ایک نمائش کے لیے یہاں رکھا گیا تھا۔

    نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والے مصور ونسنٹ وین گوف کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے، وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔ وین گوف کا مذکورہ چوری شدہ فن پارہ سنہ 1884 میں بنایا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی وین گوف کے فن پاروں کی چوری کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

    سنہ 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ہی ایک میوزیم سے وین گوف کے 2 فن پارے چرائے گئے تھے جو سنہ 2016 میں بازیاب کرلیے گئے، دونوں پینٹنگز نیپلز مافیا نامی گروہ نے چرائے تھے۔

  • صبور علی نے آئسولیشن میں مصوری شروع کردی

    صبور علی نے آئسولیشن میں مصوری شروع کردی

    کرونا وائرس کی وجہ دنیا بھر میں لوگ گھروں میں بند ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ایسے میں ہر شخص نئے نئے مشغلے اپنا کر اور اپنے مختلف شوق پورے کر کے اپنا وقت گزار رہا ہے۔

    معروف پاکستانی اداکارہ صبور علی کے لیے بھی آئسولیشن کا یہ وقت نہایت فائدہ مند ثابت ہوا اور انہوں نے پھر سے اپنا پرانا مشغلہ اختیار کرلیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر صبور نے اپنی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ پینٹنگ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

    اپنی تصویر کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ کبھی کبھار ان چیزوں سے پھر سے جڑنا اچھا لگتا ہے جو آپ کو پسند ہیں۔

    صبور کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً ایک دہائی بعد پھر سے برش تھام رہی ہیں اور کچھ خوفزدہ بھی ہیں لیکن اس کے باوجود بھولی بسری چیزوں سے پھر سے جڑنا اچھا لگتا ہے۔

    بعد ازاں انہوں نے مکمل شدہ پینٹنگ کی تصویر بھی شیئر کی جسے ان کے مداحوں نے بہت پسند کیا اور ان کی مصوری کی داد دی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Fearless

    A post shared by Saboor Aly (@sabooraly) on

  • فن پارے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار، نقاد نے فن پارہ ہی توڑ ڈالا

    فن پارے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار، نقاد نے فن پارہ ہی توڑ ڈالا

    میکسیکو میں ایک آرٹ فیئر کے دوران ایک نقاد نے 20 ہزار ڈالرز مالیت کا قیمتی فن پارہ توڑ ڈالا، گیلری انتظامیہ نے اس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

    یہ واقعہ میکسیکو میں پیش آیا جہاں ایک آرٹ کی نمائش جاری تھی، اویولینا لسپر نامی اس نقاد نے اس فن پارے کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سوڈا کین اس کے اوپر رکھا اور اس کی تصویر لینے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن اسی دوران وہ ٹوٹ کر گر گیا۔

    مذکورہ فن پارہ گبریئل ریکو نامی ایک فنکار کا تھا جس میں ایک شیشے کی شیٹ پر پتھر، فٹبال اور دیگر اشیا لگائی گئی تھیں۔

    گیلری کی انتظامیہ نے نقاد کے اس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر پیشہ وارانہ قرار دیا ہے۔

    نقاد کا کہنا ہے کہ گو کہ انہیں یہ فن پارہ سخت ناپسند تھا اس کے باجود وہ اس نقصان کا ازالہ کرنے کو تیار ہیں، تاہم گیلری انتظامیہ اور فنکار نے ان کی پیشکش مسترد کردی۔

  • چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    میکسیکو کے مشہور مصور روفینو تومایو نے جب 1970 میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایک روز گندگی کے ڈھیر پر پڑی ہو گی!

    یہ آئل پینٹنگ اس مصور کے مُو قلم کا شاہ کار تھی جسے کینوس پر اترنے کے صرف سات سال بعد یعنی 1977 میں نیلام کر دیا گیا۔ اسے نیلام گھر سے ایک قدر دان ساڑھے چھبیس ہزار پاؤنڈ میں لے گیا تھا۔

    چند برس بعد یہ پینٹنگ اس کے گودام سے کسی نے چوری کرلی اور لگ بھگ 20 سال بعد یہ کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی۔ اس کا مالک اتنے برسوں میں یقینا اس پینٹنگ کا دکھ فراموش کر چکا تھا۔ تاہم الزبتھ گبسن نامی خاتون کے ہاتھ لگنے کے بعد جب اس کی خبر عام ہوئی تو چوری کا بیس برس پرانا وہ واقعہ کئی ذہنوں میں تازہ ہو گیا۔

    اس خاتون نے پینٹنگ کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی تو وہ یہ جانتی تک نہ تھی کہ یہ کوئی شاہ کار ہے جسے منہگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے۔

    الزبتھ گبس آرٹ کو نہیں سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس تصویر کو بس دیوار پر سجایا جاسکتا ہے، مگر ایک سہیلی نے کہا کہ شاید یہ کوئی قیمتی فن پارہ ہے، تم اس حوالے سے معلوم کرو۔

    اس فن پارے کے چوری ہونے کی رپورٹ 1988 میں کی گئی جس پر متعلقہ امریکی ادارے نے اس چوری کا کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔

    الزبتھ کو یہ معلوم ہوا تو وہ مالکان تک پہنچ گئی اور انھیں پینٹنگ لوٹا دی۔ کئی برس تک اس فن پارے کی جدائی کا غم سہنے والے مالکان نے الزبتھ کو خالی ہاتھ جانے نہ دیا اور سات ہزار پاؤنڈ بطور انعام دیے۔ بعد ازاں اس پینٹنگ کو نیویارک میں نیلام کر دیا گیا۔

  • وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    دولت اور جائیداد تو اصل میں اسٹیو وین نے اپنے جوئے خانوں کی کمائی سے بنائی ہے، مگر امریکا میں اسے ریئل اسٹیٹ دنیا کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ فائن آرٹ کا دلداہ اور فن و ثقافت کا بڑا قدر دان بھی ہے۔

    اس کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور آرٹ میں دل چسپی کی اصل وجہ سبھی جانتے ہیں، یعنی غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت اور خود کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے اس نے یہ سب کر رکھا ہے۔

    اسٹیو وین دنیا بھر کے نام وَر آرٹسٹوں کے فن پارے خریدنے کے لیے بھی مشہور ہے۔ وہ کوئی بھی تخلیق منہ مانگے داموں خرید کر اپنی آرٹ گیلری میں منتقل کر لیتا ہے۔

    چند سال پہلے تک شہرہ آفاق مصور پابلو پکاسو کی مشہورِ زمانہ پینٹنگ لیغیو بھی اس کی آرٹ گیلری کی زینت تھی۔

    یہ 2006 کی بات ہے جب اسٹیو وین کے ایک کاروباری شناسا نے اس شاہ کار کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسٹیو وین نے ہامی بھر لی۔

    سودا طے ہوا اور ایک شام اپنے چند دوستوں کے ساتھ وہ خواہش مند اسٹیو وین کی آرٹ گیلری میں اسی پینٹنگ کے قریب کھڑا تھا۔ ان کا موضوعِ بحث پابلو پکاسو، اس کا فن اور وہی پینٹنگ تھی جو چند گھنٹوں بعد اسٹیو وین کی ملکیت نہ رہتی، مگر ایک حادثے نے ان کے ارادوں اور خواہشات پر پانی پھیر دیا۔

    دورانِ گفتگو پینٹنگ کے نزدیک موجود اسٹیو وِن اچانک پیچھے ہٹا اور اپنی کہنی کو کچھ اس زور سے حرکت دی کہ وہ اس تصویر میں گویا گڑ گئی اور اس میں سوراخ ہوگیا۔

    پینٹنگ کا سودا اُسی وقت منسوخ ہوگیا۔ میڈیا نے اسٹیو وین کو چار کروڑ ڈالر کی کہنی والا کہہ کر اس واقعے کی تفصیلات ناظرین تک پہنچائیں۔ امریکا بھر میں اس امیر ترین شخص اور آرٹ کے قدر دان کا مذاق اڑایا گیا۔

    ماہرین نے اسٹیو وین کی خواہش پر اس فن پارے کو اصل حالت میں‌ لا کر دوبارہ گیلری میں سجا دیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ چند سال بعد یعنی 2013 میں اسٹیو وین نے اُسی کاروباری دوست کے ہاتھوں‌ وہی فن پارہ پچھلے سودے کی نسبت کئی گنا زیادہ پر فروخت کردیا۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف حسین)