Tag: آرٹسٹ

  • ریت سے بنے دنگ کردینے والے مجسمے

    ریت سے بنے دنگ کردینے والے مجسمے

    ہم میں سے بہت سے افراد نے اپنے پچپن میں ریت سے قلعے بنائے ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ قلعے ریت کی ٹیڑھی میڑھی ترتیب سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔

    کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اس بچپن کے کھیل کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور اس میں ایسی مہارت حاصل کرلیتے ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

    اب تک ہم آپ سے دنیا بھر کے مختلف فنکاروں کا تعارف کرواتے تھے جو نئی اور جدید جہتیں اپنا کر نہایت خوبصورت تصاویر اور فن پارے تخلیق کرتے تھے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی کچھ فنکاروں کی تخلیقات دکھانے جارہے ہیں جنہوں نے ریت پر اپنے فن کا جادو جگایا اور دنیا کو حیران کردیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    Puri Beach ️ [The Relaxation-Driven Destination] The beach spot of Puri is the prime attraction flourishing gracefully in the city of #Puri in the state of #Odisha. It resides on the shore of Bay of Bengal (it’s even a Hindu sacred spot). The Puri beach is the destination of the annual Puri Beach #festival; also conducts the sand art displays etc. Make your way to this fun-driven destination and live the best time of your lives. The state of Odisha is truly a gem [blessed with wonders]. ▪️ ▪️ ➡️ Pay a visit – ☎️ Whatsapp +91 9971116400 or Email [email protected] ▪️ ▪️ #bayofbengal #puribeach #puribeachfestival #sandart #besttimeofyourlife #wonders #beach #hindu #sacred #incredibleindia #TravelsiteIndia #indianbeach #westbengal #wanderlust #traveldiaries #sandcompetition #biknigirl #charliechocolatefactory #sandcastle #festivevibes #indianfestival #celebrations #bucketlist #travelgram #trulyincredible #travelmemories

    A post shared by Travelsite India (@travelsiteindia) on

     

    View this post on Instagram

     

    Lappeenranta Sandcastle, "Car from the future”

    A post shared by @ passportisallyouneed on

     

    View this post on Instagram

     

    #sandsculpture 〽️

    A post shared by Ieva Mickevičiūtė (@ieva_mick) on

     

    View this post on Instagram

     

    Marbella, 2016 #minions #sandart #sandarts #beach #beachart #sandkunst #minionslove #marbella #marbellabeach #spain #españa

    A post shared by Mela (@tantemema) on

    آپ کو ان میں سے کون سا فن پارہ سب سے زیادہ پسند آیا؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    ہم میں سے تقریباً ہر دوسرا شخص سیاحت کا شوقین ہوتا ہے۔ سیاحت کے لیے بذات خود سفر کرنا تو عام ہے تاہم بعض اوقات آپ تصاویر اور فن پاروں کے ذریعے بھی کسی مقام کی سیر کرسکتے ہیں۔

    ترکی کا فنکار حسن کال بھی ایسا ہی فنکار ہے جو اپنے فن پاروں کی مدد سے آپ کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول کی سیر کروا سکتا ہے۔

    اور مزے کی یہ بات ہے کہ یہ سیر نہایت ہی ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کی جائے گی۔

    حسن دراصل منی ایچر تخلیق کار ہیں یعنی ننھی منی اشیا پر اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔ انہیں سولہویں صدی کے معروف اطالوی مصور مائیکل انجیلو کی نسبت سے ’مائیکرو اینجلو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    حسن پھلوں کے ننھے منے بیجوں سے لے کر بوتل کے ڈھکنوں اور بلیڈ تک کو خوبصورت رنگوں سے سجا کر اسے فن پارے میں تبدیل کردیتے ہیں۔

    آئیں ان کے تخلیق کردہ خوبصورت فن پارے دیکھتے ہیں۔

  • مختلف اشیا کے سائے فن پاروں میں تبدیل

    مختلف اشیا کے سائے فن پاروں میں تبدیل

    فن یا آرٹ پرواز تخیل کو پیش کرنے کا نام ہے، اور اس کی کوئی سرحد، کوئی حد نہیں۔

    تصورات، خیالات، اور تخیل ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، لیکن فنکار کے اندر یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں تصویر ہوتے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت دکھانے جارہے ہیں جس کی تخلیقی اڑان نے سایوں کو فن پاروں میں تبدیل کردیا۔

    ونسنٹ بال نامی یہ فنکار روزمرہ استعمال کی اشیا کے سایوں کو فن پاروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ اشیا بذات خود کچھ بھی نہیں دکھائی دیتیں لیکن ان کا سایہ نہایت خوبصورت تصویر بن جاتا ہے۔

    ونسنٹ مختلف انداز سے بنتے ابھرتے سایوں کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں جس کے بعد یہ شاندار سی ڈرائنگ معلوم ہوتے ہیں۔

    آئیں ونسنٹ بال کے فن پاروں سے لطف اندوز ہوں۔

  • بیماریوں سے نجات کے لیے میوزیم کا دورہ کریں

    بیماریوں سے نجات کے لیے میوزیم کا دورہ کریں

    یہ ایک عام بات ہے کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹرز مریض کو بھاری بھرکم دوائیں تجویز کرتے ہیں جو وقتی طور پر فائدہ پہنچانے کے بعد جسم کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہیں جبکہ یہ جیب کے لیے بھی بھاری ہوتی ہیں۔

    تاہم اب مریضوں کے علاج کے لیے ایک مفت طریقہ علاج زیر غور ہے جس میں مریضوں کو دوائیں کھانے کے بجائے میوزیم کا دورہ کرنا ہوگا۔

    کینیڈا کے شہر مانٹریال میں اس منصوبے پر کام کیا جارہا ہے کہ مختلف بیماریوں کا شکار مریضوں کو فن و ثقافت کی طرف راغب کیا جائے تاکہ ان کی جسمانی صحت میں بہتری ہوسکے۔

    مزید پڑھیں: رنگوں اور غباروں سے بھرا دنیا کا انوکھا ترین میوزیم

    مانٹریال کی ڈاکٹرز تنظیم اور مانٹریال میوزیم آف فائن آرٹس مشترکہ طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کو نسخے میں میوزیم کا دورہ لکھ کر دے سکیں۔

    میوزیم تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل نتھالی اس منصوبے کے خالق ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس طرح جسمانی سرگرمیوں کو صحت کے لیے فائدہ مند تسلیم کرلیا گیا ہے، اسی طرح ثقافتی سرگرمیوں کے صحت پر مفید اثرات کو بھی جلد تسلیم کرلیا جائے گا۔

    ڈاکٹر نتھالی کا کہنا ہے کہ میوزیم کا پرسکون، تخلیقی اور خوبصورت ماحول مریضوں کے موڈ کو بہتر بنا سکتا ہے، ان کی جسمانی صحت کو بہتر کر سکتا ہے جبکہ اس سے مریضوں کو موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کو بھول کر فن و ثقافت کے بارے میں سوچ سکے۔

    منصوبے کا مرکزی خیال ہے، ’فن و ثقافت بہترین دوا ہے‘ جس کے تحت مریضوں کو بھاری بھرکم دوائیں تجویز کرنے کے بجائے انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی میوزیم کا دورہ کریں۔

    ڈاکٹر نتھالی کا ماننا ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو اس کا دائرہ دنیا بھر میں وسیع کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر ہیلینا کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں تحقیق کی جارہی ہے کہ فن و ثقافت سے تعلق قائم کرنا جسمانی صحت میں بہتری لاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ جب میرے مریض میوزیم کا دورہ کریں گے تو ان میں خوشی کے جذبات پیدا ہوں گے جس سے ان کی صحت میں بہتری آئے گی۔

    منتظمین کا ماننا ہے کہ یہ اس منصوبے کا ابتدائی مرحلہ ہے، جس کے بعد مریضوں کے لیے آرٹ تھراپیز بھی متعارف کروائی جائیں گی۔

  • ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیوں کی کارٹونز سب ہی شوق سے دیکھتے ہیں خصوصاً بچے ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان ہی کے جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک امریکی فنکارہ نے اپنے پسندیدہ ڈزنی کرداروں کو خوبصورت آئل پینٹنگز میں تبدیل کردیا جو نہایت دیدہ زیب معلوم ہو رہے ہیں۔

    ہیتر ٹائرر نامی یہ فنکارہ کہتی ہے کہ ڈزنی کے کرداروں کو بہت سے دیگر فنکاروں نے بھی اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    وہ کہتی ہیں کہ وہ ان فنکاروں یا خود ڈزنی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتیں بلکہ پہلے سے بنے ہوئے ان خوبصورت کرداروں کو مزید نئے مطالب کے ساتھ پیش کرنا چاہتی ہیں۔

    اب یہ فنکارہ اپنی اس کوشش میں کتنی کامیاب رہیں، یہ ان کی تخلیق کردہ تصاویر دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔

    مولان

    بریو کی میریڈا

    فروزن کی ایلسا اور انا

    بیوٹی اینڈ بیسٹ کی بیلے

    ریپونزل

    سنڈریلا

    کیسی لگیں آپ کو یہ تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • فواد چوہدری کا لاہورمیں ماڈل انعم کےمبینہ قتل پردکھ اورافسوس کا اظہار

    فواد چوہدری کا لاہورمیں ماڈل انعم کےمبینہ قتل پردکھ اورافسوس کا اظہار

    اسلام آباد : وفاقی وزیربرائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے ماڈل انعم تنولی کے مبینہ قتل سے متعلق واقعے کی رپورٹ آئی جی پنجاب پولیس سے طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرفواد چوہدری نے لاہور میں ماڈل انعم تنولی کے مبینہ قتل پردکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سید امام کلیم سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

    وفاقی وزیربرائے اطلاعات ونشریات نے کہا کہ ایسے واقعات کوقتل کے بعد خودکشی کا رنگ دیکھنے میں آتا ہے، تفتیش میں تمام پہلو ملحوظ خاطررکھنے چاہئیں۔

    فواد چوہدری نے آئی جی پنجاب پولیس کو فنکاروں کی سیکیورٹی بہترکرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹسٹ پاکستانی قوم کا سرمایہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آرٹسٹ اپنے فن سے ملکی ثقافت دنیا میں متعارف کراتے ہیں جبکہ اس طرح کے واقعات آرٹسٹ کمیونٹی میں تشویش کا سبب بنتے ہیں۔

    وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فنکاروں سے ایسے واقعات کی ترجیحی بنیادوں پرتفتیش ہونی چاہیے۔

    لاہور: ڈیفنس میں 26 سالہ ماڈل گرل کی پھندا لگی لاش برآمد

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ماڈل انعم تنولی کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی تھی، متوفیہ دو ماہ قبل اٹلی سے واپس آئی تھی، پولیس قتل اور خود کشی کے پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔

  • زیر آب بنایا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ

    زیر آب بنایا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ

    آپ نے زمین پر بنائے جانے والے بڑے بڑے طویل القامت اور طویل الجثہ مجسمے تو دیکھیں ہوں گے تاہم اب سمندر کے اندر بھی ایسا ہی دنیا کا سب سے بڑا حیران کن مجسمہ بنا دیا گیا ہے۔

    ایک برطانوی مجسمہ ساز جیسن ٹیلر کا بنایا جانے والا یہ مجسمہ ایک لڑکی کا ہے جو اس انداز سے بیٹھی ہے جیسے سمندر کا سارا بوجھ اس کے کندھوں پر ہو۔

    اس مجسمے کا وزن 60 ٹن جبکہ اونچائی 18 فٹ ہے۔ اس کو بہاماز جزائر کے قریب پانی میں نصب کیا گیا ہے۔

    جیسن ٹیلر نے اس سے قبل بھی زیر آب کئی مجسمے بنائے ہیں۔

    دنیا کے سب سے بڑے زیر آب بنائے جانے والے اس مجسمے کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسے ایسے ماحول دوست مٹیریل سے بنایا گیا ہے جس کے باعث کچھ عرصے بعد اس پر خودرو پودے اگ آئیں گے اور یہ ایک مصنوعی مونگے کی چٹان یعنی کورل ریف کی شکل اختیار کر جائے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    آج پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کی سالگرہ ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    19

    17

    16

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے‘۔

    post1

    post2

    14

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    10

    11

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    1

    2

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    18

    8

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    3

    5

    6

    4

    7

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ فارغ بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا دماغ میں شیطانی خیالات کو جنم دیتا ہے اور دماغ مختلف منفی منصوبے بناتا ہے۔

    لیکن قازقستان سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اس مقولے کو غلط ثابت کردیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کے رہائشی کانت نامی اس شخص کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود اس نے آرٹ کے شاہکار تخلیق کر ڈالے۔

    بقول کانت، اس نے کبھی آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار تھا تب ہی اسے کچھ نیا سیکھنے اور کچھ مختلف کرنے کا خیال آیا۔

    پہلے اس نے سیب پر مختلف اشکال تخلیق کر ڈالیں۔ اس کے لیے اسے کافی محنت اور پریکٹس کرنی پڑی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس فن میں طاق ہوتا گیا۔

    1

    5

    2

    3

    اس کے بعد اس نے کاغذ پر مختلف شکلیں بنا کر انہیں مختلف طرح سے ترتیب دے ڈالا جس کے بعد وہ نہایت خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں تبدیل ہوگئیں۔

    9

    10

    11

    12

    13

    7

    تو پھر کیا خیال ہے؟ اگر آپ بھی بے روزگار ہیں تو اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور اس فنکار کی طرح آپ بھی کچھ نیا تخلیق کر ڈالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔